ہم نے اب تک کی سروے میں بلوچستان کا جو تعلیمی خاکہ پیش کیا ہے اس میں نہ صرف طلبا و طالبات کو مشکلات سے دوچار پایا بلکہ حاضر باش اساتذہ کو بھی مشکلات میں گھرا پایا۔ مگر نہ ہی طلبہ کے مسائل کو زیر غور لایا جاتا ہے اور نہ ہی اساتذہ کے، بلکہ ان مسائل کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہم نے تعلیمی مہم سے متعلق جو ڈیمانڈ ذمہ داران کے سامنے پیش کیے ان میں ٹیچرز کو درپیش مسائل اور ان کا حل بھی شامل تھا۔
آواران کے جتنے بھی سکولوں کا ہم نے دورہ کیا وہاں اساتذہ کی شکایتیں تھیں مگر ان شکایات کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔ پرائمری سکولوں میں گئے پرائمری سیکشن جہاں دو یا دو سے زائد اساتذہ ہونے چاہیے تھے وہاں تدریس کا نظام ایک ٹیچر چلا رہا تھا۔ بچوں کی تعداد کہیں 60، کہیں 80 تو کہیں 100 سے اوپر۔ اب اگر تعداد اتنی ہو تو سب بچوں پر ایک ٹیچر اپنا فوکس کیسے کر پائے گا اور ہر کلاس کے پانچ مضامین، چھ کلاسز کے مضامین کی تعداد ہو گئی 30۔ اب بھلا ایک ٹیچر ایک دن میں 30 مضامین بچوں کو کیسے پڑھا پائے گا۔ اور اگر کلاس روم ایک ہے تو وہاں تمام کلاسز کو کیسے پڑھائے۔
ایک استاد کو سبق پڑھانے سے پہلے اس کی مکمل تیاری گھر سے کرکے آنی پڑتی ہے جہاں استاد کے سر پر 30 مضامین کا بوجھ لاد دیا گیا ہو وہاں بھلا وہ کن کن مضامین کی تیاری کرکے آئے۔ اس پورے منظرنامے میں ہم نے پرائمری سیکشن پر لاگو ہونی والی پالیسیوں کو ناقص پایا اور ایک کلاس روم پر مشتمل پرائمری سکولوں کے اساتذہ کو مشکلات جھیلتے ہوئے اور ضلعی ذمہ داران کو خواب خرگوش میں مبتلا پایا۔ ہم نے دورانِ سروے بے شمار مڈل اسکولوں کی نشاندہی کی کہ جہاں سکول تو درجہ پا گیا مگر فقط ایک ہی استاد کے ساتھ۔ اب بھلا وہاں استاد پڑھائے بھی تو کیسے، سوائے اِس کے اْس کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ بچوں کو خاموش کرانے میں اپنا وقت صرف کرے۔
اب ایسی صورتحال میں بھلا ایک استاد ذہنی مریض نہ بن جائے توپھر کیا ہو۔ ہم نے کئی سکولوں کا دورہ کیا جہاں ٹیچرز کے ریکارڈ سے پتہ چلا کہ وقت سے قبل وہ مجبوراً ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان کی آوازوہیں دبی رہی بجائے یہ کہ ان کے مسائل کو ایڈریس کیا جاتا، ضلعی ذمہ داران اور انتظامیہ کے رویے سے نالاں ہو کر محکمہ تعلیم کو الوداع کہنے پر مجبور ہوئے اور جاتے جاتے خاموش سماج کے لیے سوال چھوڑ گئے۔ہمارے پاس ایسے بے شمار اساتذہ کی فہرست موجود ہے جو ذمہ داران کے رویوں کا شکار ہو کر جبری ریٹائرمنٹ پر مجبور ہو گئے۔ ہم نے کئی اساتذہ کی زبانی ان کی تکلیف دہ کہانی سنی۔
ان میں سے ایک کہانی یہ بھی تھی کہ ضلعی ذمہ داران بسا اوقات جب سکولوں کا دورہ کیا کرتے ہیں تو دورانِ کلاس بغیر اجازت سکول کے اندر داخل ہوجاتے ہیں اور شاگردوں کے سامنے اساتذہ سے سوالات کرنا شروع کردیتے ہیں جواب نہ دینے پر پوری کلاس کے سامنے اساتذہ کی بے عزتی کرتے ہیں، اس سے یہ ہوا ہے کہ اساتذہ کا مورال پست ہوا ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جب اساتذہ کا مورال پست ہو جائے تو بھلا وہ اپنے شاگردوں کا مورال کیسے بلند کرے۔
ہمیں یہاں تک بتایا گیا کہ چند ضلعی ذمہ داران نے دوران کلاس نہ صرف اساتذہ کی بے عزتی کی بلکہ ان سے کہا کہ ہم آپ لوگوں کا دوبارہ انٹرویو لیں گے۔ اور موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سپروژن کے لیے ضلعی انتظامیہ انتظامی اہلکاروں کا سہارا لے رہا ہے۔ سوال یہاں یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ آیا ضلعی ذمہ داران کے پاس اساتذہ کے ساتھ ایسارویہ برتنے کا اختیار ہے اگر نہیں ہے تو ایسے ذمہ داران کو کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جاتا جو یہ سب کچھ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
دورانِ سکول وزٹ ہم نے محسوس کیا کہ اساتذہ کو ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے مگر کیا کیا جائے جونہی اساتذہ کو تعیناتی کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں ان کا ٹریننگ ضروری سمجھا نہیں جاتا۔ یہی وجہ ہے اساتذہ نے جو کچھ تعلیمی اداروں سے حاصل کیا ہے وہی بچوں میں منتقل کرتے ہیں ہم نے محسوس کیا کہ یہی اساتذہ بہتر انداز میں اپنا علم بچوں میں منتقل کر سکتے ہیں اگر انہیں جدید نظام تعلیم کے اصولوں کے مطابق تربیت دی جائے۔ ہم نے ایسے سکول بھی دیکھے کہ وہ اساتذہ جو مقامی نہیں تھے،کے پاس رہنے کے لیے چھت نہیں اور نہ ہی دیہی نظام میں کرائے کے لیے مکان موجودہے جس سے وہ اپنی رہائش کا انتظام کر سکیں۔ ایسی صورت میں مجبورا ًان اساتذہ کو سکول کی چھت کا سہارا لینا پڑتا ہے، دن کو سکول اور شب ہوتے ہی یہ عمارت استاد کی رہائش گاہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
یہ وہ سکول تھے جہاں نہ ہی واش روم کی سہولت موجودہے اور نہ ہی سکول کی چاردیواری۔ اور یہ اساتذہ ایک ذہنی اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔پورا بلوچستان شورش سے متاثر رہا، اس شورش سے اساتذہ برادری بری طرح متاثر ہوئی۔ بے شمار اساتذہ ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آئے، دھمکیوں کی زد میں آئے،اس صورتحال نے نہ صرف کئی اساتذہ کو اپنی ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا بلکہ وہ نفسیاتی طور پر بے حد متاثر ہوئے۔
اساتذہ کی تنظیمیں صوبائی اور ضلعی سطح پر وجود تو رکھتی ہیں مگر وہ اساتذہ کو درپیش ان کے حقیقی مسائل ایڈریس نہیں کرتے جن مسائل کا سامنا حاضرباش اساتذہ کر رہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک اساتذہ کے وہ مسائل جو ان کی ذہنی الجھنوں کا باعث بن رہے ہیں انہیں حل نہیں کیا جاتا، بہتر تعلیم نظام کا خواب، خواب ہی رہے گا۔ اور اگر انہی ذہنی الجھنوں کے ساتھ استاد چلتے رہے تو یہی الجھنیں بچوں کے اندر منتقل ہوتی رہیں گی اور اس سے کردار سازی کا عمل رک جائے گا۔
Haneef kakar
زبردست پریشانی صاحب نے اساتذہ کے مسائل کی نشاندہی بہترین انداز میں کی ہے
Haneef kakar
سوری رخشانی صاحب