|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2019

کوئٹہ:  بزرگ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جائے۔ آواران سے بے گناہ خواتین کی گرفتاری محکوم اقوام کی آواز کو دبانے کی سازش ہے نوآبادیاتی نظام کو تقویت فراہم کرنے کیلئے بلوچستانی عوام کو ان کی زمین سے بیدخل اور سیاسی جدوجہد سے دستبردار کرنے کیلئے منظم اقدامات کئے جارہے ہیں۔

ا ن خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ پریس کلب میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا سیمینار سے ہزارہ ڈیموکریٹ پارٹی کے مرکزی رہنماء رضاء وکیل، سماجی کارکن جلیلہ حیدر، پروفیسر منظور بلوچ، ماما قدیر بلوچ، بی بی گل بلوچ اور نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی کے آرگنائزر شاہ زیب بلوچ، لیلہ بلوچ ودیگر نے بھی خطاب کیا۔

ا س موقع پر بزرگ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں کی جارہی ہیں جنہیں روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے ریاست بلوچستان کے عوام کے کو انکے آئینی حقوق فراہم کرکے لاپتہ افراد کو فوراً منظر عام پر لاکر ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

انہوں نے کہا کہ آوارن سے بے گناہ خواتین گرفتار کرکے جس طرح پیش کیا گیا اس عمل کی جنتی مذمت کی جائے کم ہے۔ بلوچستان میں نوآبادیاتی نظام کو تقویت فراہم کرنے کیلئے لوگوں کو انکی زمینوں سے بیدخل کرنے اور سیاسی جدوجہد سے دستبردار کرنے کیلئے منظم اقدامات پر عمل کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیکر رپورٹ اقوام متحدہ میں جمع کرائیں۔

سیمینار سے ہزارہ ڈیموکریٹ پارٹی کے مرکزی رہنماء رضاء وکیل، سماجی کارکن جلیلہ حیدر، پروفیسر منظور بلوچ، ماما قدیر بلوچ، بی بی گل بلوچ اور نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی کے آرگنائزر شاہ زیب بلوچ، لیلہ بلوچ ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں طلباء سیاست پر قدغن لگاکر اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کی گئی ہے انہوں نے کہاکہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ خواتین کے سامنے اسلحہ رکھ کر انہیں دہشتگرد قرار دیا جائے یہ انسانی حقوق کی پامالی کے ذمرے میں آتی ہے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کومنظر عام پر لاکرانہیں شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ مسئلہ قومی وجود کا مسئلہ ہے بلوچستان میں آباد تمام اقوام جو اس سرزمین سے نسبت رکھتے ہیں جن کی آباؤ اجداد کی قبریں یہاں موجود ہیں اور صوبے کے سود وضیائع میں شریک ہیں وہ بلوچستانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہمارے کلچر کو کاری ضرب لگاکر اقدار کو ختم کیا جارہا ہے اور جن قوموں کی شناخت اور ثقافت کو ختم کیا جائے وہ قومیں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ہیں ایسے میں شعوری جدوجہد کے ذریعے ہی ہم اپنے قومی بقاء اور شناخت کا تحفظ کرسکتے ہیں۔