کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے پی پی ایس ڈی پی کی غیر منصفانہ تقسیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کے دوران اپوزیشن کے جو خدشات تھے ودرست ثابت ہورہے ہیں،صوبے میں گورننس کا بحران ہے،اپوزیشن کے حلقوں میں غیر منتخب افراد کے ذریعے ترقیاتی کام کروائے جارہے ہیں یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو اسمبلی اوراسمبلی کے باہر احتجاج کرینگے۔
بلوچستان کے86 ارب کی پی ایس ڈی پی میں 36 ارب واپس 40 ارب روپے کی اہم اسکیموں پرکام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ جبکہ حکومت اراکین نے اپوزیشن کو یقین دلاتے ہوئے کہاکہ بلوچستا ن کے فنڈز واپس نہیں ہوئے ہیں حکومت نے وفاق سے مزید فنڈز کی ڈیمانڈ کی ہے۔پی ایس ڈی پی ہائی کورٹ اور پلاننگ کمیشن کی ہدایت کے مطابق بنائی گئی ہے چاروں صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان حکومت نے حکومت نے زیادہ کام کئے ہیں۔
اجلاس میں حکومتی و اپوزیشن اراکین نے ہندوستان میں شہریت کے حوالے سے متنازعہ قانون اور بھارتی حکومت کے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی سرکار کے ناروا سلوک پر انڈیا سے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ کشمیر میں کرفیو کو سو دن سے زائد گزرچکے ہیں پوری دنیا میں بھارت کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے آواز بلند کی جائے۔
ا جلاس کورم پورا نہ ہونے کی بنا پر بیس دسمبر تک ملتوی کردیا۔منگل کے روز ڈپٹی سپیکربلوچستان اسمبلی سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیرصدارت شروع ہونے والے اجلاس میں قلعہ سیف اللہ کے ٹریفک حادثے میں جاں بحق افراد کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔
پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ بھارت نے آسام میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کا بازار گرم کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں چار مہینوں سے کرفیو نافذ کرکے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے اور نوجوانوں کو اغواء کیا جارہا ہے حال ہی میں بھارت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون بنایا ہے اس کے تحت مسلمانوں پر شہریت کے دروازے بھی بند کردیئے گئے ہیں جو افسوسناک بھی ہے اور بین الاقوامی قوانین و اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری آسام اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرے۔ انہوں نے دہلی کی جامعہ ملیہ میں طلباء پر تشددکی مذمت کی۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ گزشتہ برس سے پی ایس ڈی پی پر اپوزیشن اراکین اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ہمارے حلقوں میں رہنے والے لوگ اور حکومتی اراکین کے حلقوں کے لوگوں کے حقوق یکساں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے تمام حلقوں کو مساوی اہمیت دینی چاہئے لیکن حکومت اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز کرکے حکومتی اراکین کے حلقوں میں زیادہ فنڈز لے جارہی ہے جس کاواضح ثبوت ضلع لسبیلہ کو دس ارب روپے سے زائد کی سکیمات دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ضلع کو دس ارب روپے اور دوسری جانب ایسے بھی اضلاع ہیں جنہیں ایک کروڑ روپے دیئے گئے ہیں اس ناانصافی پر ہم کسی صورت خاموش نہیں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے ایوان سے سپیشل اسسٹنٹس کی تعیناتی کا بل زبردستی منظور کرایا گیا مختلف حلقو ں میں منتخب لوگوں کو نظر انداز کرکے غیر منتخب لوگوں کو نوازا جارہا ہے وزیراعلیٰ کے کوآرڈینیٹرز کو سرکاری گاڑیاں اور فنڈز فراہم کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف محکموں کے سیکرٹریز و دیگر افسران قانون کی بالادستی کو مقدم رکھتے ہوئے عدالتی احکامات کے برخلاف کسی بھی اقدام کو نہ مانیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے بھی اپوزیشن لیڈر کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ منتخب عوامی نمائندوں کو نظر انداز کرکے غیر منتخب افراد کو نوازا جارہا ہے بہت سارے حلقوں کے لئے خطیر رقم رکھنے کے باوجود کسی بھی ضلع میں کوئی بڑا منصوبہ تاحال شروع نہیں ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حلقوں کے لئے محدود فنڈز رکھے گئے ہیں اور انہی حلقوں میں غیر منتخب افراد کو خطیر رقومات دے کر ترقیاتی منصوبوں پر ان کے ناموں کی تختیاں لگائی جارہی ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کوئٹہ پیکج کے ڈائریکٹر کمشنر کوئٹہ ڈویژن غیر متعلقہ افراد کی معاونت کررہے ہیں غیر متعلقہ افراد کی مداخلت سے ہمارے حلقوں میں امن وامان کی حالت بھی خراب ہورہی ہے اور لوگ باہم دست و گریباں ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پیکج کے تحت مختص 2.8بلین کو کم کرکے 1.008بلین کیاگیا ہے حکومت اپنے لوگوں کو نواز رہی ہے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پیکج کے تحت مختص رقم سے مضافاتی علاقوں میں بھی کام کرایا جائے انہوں نے کہا کہ سریاب کے مختلف علاقوں میں جاری منصوبوں کو غیر منتخب لوگوں کی ایماء پر بند کیا گیا ہے جنہیں فوری شروع نہ کیا گیا تو ہم بلوچستان اسمبلی کے ایوان، وزیراعلیٰ ہاؤس اور سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ لائزن اسسٹنٹس کی تعیناتی کس قانون کے تحت کی جارہی ہے ہمیں جواب چاہئے۔ جے یوآئی کے سید فضل آغا نے بھی اپوزیشن حلقوں میں مداخلت کا نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے حقوق برابر ہیں انہوں نے حکومتی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مختلف محکموں کے سیکرٹریز تبدیل ہورہے ہیں شکایات درج کرانے کے باوجود وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم ان پر عملدرآمد نہیں کررہی حکومت وفاق سے فنڈنہیں لاپارہی اسمبلی کی رولنگ پر عملدرآمد نہیں ہوتا کئی مہینے گزرنے کے باوجود ہمارے سوالات کے جوابات تک نہیں دیئے جارہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے لوگوں نے یہاں ٹی اے ڈی اے وصول کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے یہاں بھیجا ہے ہم ان کے حقوق کا ہر صورت میں دفاع اور تحفظ کریں گے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جس بھارت نے بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو پاک فوج کے خلاف برسایا آج اس نے انہی مسلمانوں پر اپنی شہریت کے دروازے بند کردیئے ہیں۔
بی این پی کے رکن اختر حسین لانگو نے کہا کہ اپنے ضلع کے لئے دس ارب 27کروڑ 50لاکھ روپے مختص کرکے وزیراعلیٰ بلوچستان نے غریب عوام کی حق تلفی کی ہے اپوزیشن اراکین کے حلقوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جارہے ہیں جو ان کی گڈ گورننس ایماندارانہ طرز حکومت کی اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے جس پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے9حلقوں میں حکمران جماعت کے لوگوں کو نوازا جارہا ہے جو بازار میں ٹھیکیداروں کو منصوبے فروخت کررہے ہیں اور انہیں انتظامیہ کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ واٹر سپلائی پر ہم نے بلوچستان اسمبلی قرار داد منظور کرائی ڈھائی سو سے زائد ٹیوب ویلوں کی ڈرلنگ کے باوجود دس ٹیوب ویل بھی فعال نہیں ہوپائے رواں برس پی ایس ڈی پی میں ان ٹیوب ویلوں کے لئے فنڈز مختص کئے گئے تھے جس پر ہم نے تجویز دی تھی کہ انہیں واسا کے حوالے کیا جائے تاہم گزشتہ روز ان ٹیوب ویلوں کو ایک مرتبہ پھر پی ایچ ای کے حوالے کیا گیا ہے جو بظاہر کرپشن کا جھگڑا ہے۔
پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے بھی ٹیو ب ویلوں کی پی ایچ ای کو منتقلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ قوانین کے مطابق واسا ایک اتھارٹی ہے جس کی منظوری کے بغیر کوئی محکمہ ٹیوب ویل نہیں لگاسکتا تاہم گزشتہ کئی ماہ سے واسا کا محکمہ ایم ڈی سے ہی محروم ہے اور کمشنر کوئٹہ ڈویژن کو ایم ڈی واسا کا اضافی چارج بھی دیا گیا ہے۔
ان کے پاس اس کے علاوہ بھی تین چارج ہیں اور شنید میں آرہا ہے کہ انہیں ایڈمنسٹریٹر میٹروپولیٹن کارپوریشن بھی لگایا جارہا ہے سمجھ نہیں آرہا کہ کمشنر کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے جس کی وجہ سے حکومت انہیں یکے بعد دیگرے محکموں کے انتظامی اختیارات حوالے کررہی ہے۔
بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں حکمرانی کا بحران ہے برفباری میں صوبے کے لوگ کوئلہ کی جگہ پر زندہ جل رہے ہیں قلعہ سیف اللہ کان مہترزئی میں پیش آنے والے حادثے پر کسی بھی حکمران یا صوبے کے ذمہ دار کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ تک نہیں ٹپکا نہ ہی متاثرہ لوگوں سے کسی نے تعزیت کی۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ہیلی کاپٹر کار ریلیوں اور شادی بیاہ کے لئے استعمال ہورہا ہے مگر جنازے اٹھانے کے لئے استعمال نہیں ہورہا۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال میں 86افراد حادثات میں زندہ جل گئے اور حکومت نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرکے تیل کے کاروبارپر پابندی عائد کردی انہوں نے کہا کہ بلوچستان مسلسل زوال کی جانب جارہا ہے صوبے میں روزگارنہ ہونے کے باعث تیل کے کاروبار سے8لاکھ سے زائد لوگ منسلک ہیں اور اس طرح سے وہ اپنا گزر بسر کررہے ہیں ہم نے گزشتہ اجلاس میں بھی تجویز دی تھی کہ تیل کی ترسیل کے کاروبارکو قانونی شکل دی جائے تاکہ لوگ چیک پوسٹوں پر ذلیل ہونے کی بجائے باعزت روزگار کرسکیں اس سے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا تاہم اس پر اب تک حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی۔
انہوں نے کہا کہ ہر باراپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن آج کے اخبارات میں ترجمان بلوچستان حکومت نے سردار صالح بھوتانی جیسے بزرگ اور سینئر پارلیمنٹیرین کو بھی نہیں چھوڑا انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے37ارب روپے خرچ ہی نہیں کئے اور واپس کردیئے ہیں 40ارب روپے کی اہم سکیمات پر اب تک ایک فیصد بھی کام نہیں ہوا30ارب کے قریب ایسی سکیمات ہیں جو غیر منتخب لوگوں کی خواہش پر پی ایس ڈی پی میں شامل کرائے گئے۔
صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے ہندوستان میں شہریت کے حوالے سے متنازعہ قانون کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ہندوستان کی سیکولر ازم کے دعوؤں کی بھی نفی کرتا ہے اس قانون پر دنیابھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے میں اپنی اور صوبائی حکومت کی جانب سے اس قانون کی مذمت کرتا ہوں۔
ہم مودی کی فاشسٹ ذہنیت کی بھی مذمت کرتے ہیں اس سے پہلے مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کیا اور اب بھارت میں شہریت کے حوالے سے جو قانون بنایا گیا ہے اسے بھارت کی کئی ریاستوں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے پی ایس ڈی پی اور سپیشل اسسٹنٹس کے حوالے سے اٹھائے جانے والے نکات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر قطعی طو رپر بے بنیاد ہے کہ صوبائی حکومت نے وفاق کو 37ارب روپے واپس کئے ہیں ہم نے بلوچستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا نہ کریں گے ہم نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لئے بھرپور فنڈز مختص کرائے اب بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ این ایف سی میں ہمارے فنڈز بہت کم ہیں۔
آئندہ این ایف سی کے لئے صوبائی حکومت نے باقاعدہ سیکرٹریٹ قائم کردیا ہے اور ہم بلوچستان کا این ایف سی میں مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کریں گے ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کو اس کی ضروریات کے مطابق نئے فارمولے کے تحت زیادہ فنڈز ملیں جہاں تک صوبائی پی ایس ڈی پی پر عملدرآمد کی بات ہے تو 30اکتوبر تک صوبائی حکومت نے ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں 195فیصد زیادہ فنڈز ریلیز کئے ہیں۔
صوبائی پی ایس ڈی پی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تمام ارکان اس سے آگاہ ہیں صوبائی حکومت کے قیام کے بعد تین ماہ کے طویل محنت کے بعد پی ایس ڈی پی سے ایسے 25سو منصوبے نکال دیئے گئے جن کا نہ کوئی سر نہ پیر تھا جبکہ رواں سال میں 1797نئی اور656پرانی سکیموں کے لئے34ارب روپے جاری کئے جاچکے ہیں پہلی بار صوبے کے ہر ضلع اور ہرحلقے میں یکساں بنیاد پر ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔
صوبے کا کوئی ایسا حلقہ نہیں جہاں دو ارب روپے سے کم کے منصوبوں پر کام ہورہا ہو ایک میکانزم کے تحت پلاننگ کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں کام کررہے ہیں کوئی چیز بھی مبہم نہیں ہم نے ایسے منصوبے بنائے ہیں کہ جن کا پورے صوبے کے عوام کو فائدہ ہو صوبے میں پراونشل فنانس کمیشن بھی قائم کردیاگیا ہے اور ایک فارمولہ بنا کر ہر علاقے کی ضروریات، آبادی، پسماندگی اور دیگر امور کو مد نظر رکھ کر کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک سپیشل اسسٹنٹس کا مسئلہ ہے تو ان کی منظوری ایوان سے لی گئی ہے جبکہ جو کوآرڈینیٹرز کام کررہے ہیں انہیں کوئی مراعات نہیں دی جارہیں وہ اعزازی کام کررہے ہیں۔
صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اس ایوان میں موجود تمام ارکان پر ان کے حلقوں کے عوام نے اعتماد کرکے اپنے ووٹ کی طاقت سے انہیں یہاں بھیجا ہے ہم سب منتخب ارکان ہیں فرق یہ ہے کہ ہم حکومت اور صوبائی حکومت کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ایوان کے ایک نمائندے کی حیثیت سے صوبائی ترجمان کی جانب سے صوبے کی قدآور شخصیت صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی کی میڈیا میں پگڑی اچھالنے کے عمل کی مذمت کرتا ہوں سردار صالح بھوتانی نہ صرف ایک قدآور شخصیت ہیں بلکہ آج تک انہیں کسی انتخاب میں شکست بھی نہیں ہوئی ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ ایسی قد آور شخصیت کامیڈیا ٹرائل کیا جائے۔ انہوں نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے کمشنر کوئٹہ کے حوالے سے اٹھائے گئے نکات کے جواب میں کہا کہ یہ بات بالکل درست نہیں کہ کمشنر کوئٹہ کو تمام اختیارات دے دیئے جائیں اگرسب کچھ انہوں نے کرنا ہے تو پھر وہ آکر اس ایوان میں عوام کو جواب بھی دیں۔
انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ اسمبلی میں بھی غیر منتخب افراد کے ذریعے ترقیاتی کام کرانے کا رونا روتا رہا میرے حلقے میں ایک ایسے شخص جس نے صرف گیارہ سو ووٹ لئے تھے کے ذریعے حلقے میں 85کروڑ روپے کے کام کرائے گئے انہوں نے کہا کہ آج اپوزیشن جس بات کا رونا رورہی ہے اس کا آغاز بھی ان کے دور میں ہوا موجودہ حکومت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے حلقوں میں یکساں کام کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
صوبائی مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ بلوچستان کے 33اضلاع میں سپورٹس کمپلیکس قائم کئے جارہے ہیں سریاب میں سپورٹس کمپلیکس پرکام شروع ہوگیا ہے اور یہ حلقہ اپوزیشن کا حلقہ ہے اسی طرح سپنی روڈ پر سڑک کی توسیع کاکام کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے اپنے قوانین ہوتے ہیں جن پر عملدرآمد نہیں ہورہا انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں یکساں ترقیاتی منصوبے شروع کرکے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ 16دسمبر کو ہم دو بڑے سانحات سے دوچار ہوئے ایک سقوط ڈھاکہ اور دوسرا سانحہ اے پی ایس کی صورت میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں شہدائے اے پی ایس کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں سفاکیت کا نشانہ بننے والے ان پالیسیوں کی نذر ہوگئے جو آج بھی دہرائی جارہی ہیں انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا جس پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے کل پھر ہم سانحہ8اگست اوراے پی ایس جیسے سانحات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ میں ان لوگوں کا قصور یہ نہیں تھا کہ وہ الگ ہونا چاہتے تھے بلکہ ان کی عوامی اور جمہوری رائے کا احترام نہیں کیاگیا۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور عوامی و جمہوری رائے کا احترام کیا جائے۔
اجلاس میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے پوائنٹ اف آرڈر پر طویل بحث کے باعث سرکاری کارروائی نہ ہوسکی جبکہ وقفہ سوالات میں صرف محکمہ کھیل کے سوالات کے جوابات آسکے لیکن محکمہ داخلہ کے سوالات وزیر داخلہ کی عدم موجودگی کے باعث موخرکردئیے گئے۔
تاہم جونہی سرکاری کارروائی کا آغاز کیا گیا تو بی این پی کے رکن اسمبلی ثنا للہ بلوچ کی جانب سے کورم کی نشاندھی کی گئی اور کورم پورانہ ہونے کی وجہ سے اجلاس بیس دسمبر کی صبح گیارہ بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔اجلاس ملتوی ہونے کی وجہ سے سرکاری کارروائی کے ساتھ رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے کی جانب سے کان مترزئی حادثے پر تحریک التوا پیش نہ کی جاسکی۔