کوئٹہ : گورنربلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے کہاہے کہ انصاف کی یکساں فراہمی،معیشت،صحت اور تعلیم سے متعلق بنیادی مسائل و مشکلات کا حل آج بھی بلوچستان کی تمام تر مشکلات کا حل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہمیں ”ون یونٹ“ کے خاتمے اور صوبے کے قیام کے لیے 1970تک انتظار کرنا پڑا اور بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے کے بعد بھی بدقسمتی سے عوام کی محرمیوں کو دور کرنے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی اورٹھوس اقدامات نہیں نظرنہیں آتے ہیں۔گورنر بلوچستان نے کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہیے۔
ان خیالا ت کااظہار انہوں نے نیشنل سیکورٹی ورکشاپ بلوچستان کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا،کوئٹہ کلب میں منعقدہ ورکشاپ میں فوی وسول حکام کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی،سماجی اور ماہرین تعلیم کی بڑی تعداد شریک تھی،اس موقع پر ورکشاپ کے شرکاء کی جانب سے مختلف سولات پوچھے گئے۔
گورنر بلوچستان نے بڑی تفصیل سے جواب دئیے،گورنر بلوچستان نے قیام پاکستان کے بعد صوبے کی جغرافیائی سیاسی اور معاشی تاریخ کا تفصیلی جائزہ پیش کیا،انہوں نے کہا کہ تقریباً73سال کے دوران متعدد سیاسی چپکلش اور امن وامان کے مسائل بھی سرابھارتے رہے لیکن ان کو درست طریقے سے نمٹانے میں کامیابی نہیں ہوئی اور بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی بڑھتا رہا جس کی اصل وجہ ان کی غربت،پسماندگی،ناخواندگی،بنیادی معاشی سہولتوں کی عدم دستیابی صحت اور تعلیم جیسے شعبوں پر عدم توجہی تھیں جو آج بھی حل طلب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم صوبوں کے حقوق وخودمختاری کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ ہم اب بھی ان تمام معاملات کو نمٹانے کی مطلوبہ صلاحیت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں ملنے ولاے اختیارات کو سنبھالنا اور استعمال کرنا بروقت ممکن نہ ہوسکا تاہم اسی سلسلے میں شعوری کوششیں جاری ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ بتدریج مطلوبہ مقاصد حاصل کرینگے۔
گورنر بلوچستان نے کہا کہ 2013سے امن وامان کی صورتحال کی خاطر خواہ بہتری آئی ہے جس میں سیکورٹی فورسز کے کردار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے جبکہ بلوچستان کے عوام کی جانب سے بھر پور تعاون بھی قابل ستائش ہے اس کے ساتھ مقامی سیاسی تنظیموں کے جمہوری،مثبت تعمیری کردار بھی خراج عقیدت کے مستحق ہیں۔
سوال کے جواب میں گورنر بلوچستان نے کہا کہ عدالتی نظام پر عملدرآمد میں کوتائیاں ضرور ہونگی لیکن گزشتہ چند برسوں میں عدالتوں کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے اور بلوچستان میں 2016اگست کے مہینے میں ہمارے وکلاء کے خلاف انتہائی افسوسناک دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں ہم انتہائی سینئر اور قابل ماہرین قانون سے محروم ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ درپیش مشکلات کا پائیدار حل کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی بنیادی سہولیات اور مفاد خلق کو پیش نظر رکھ کر جامع منصوبہ بندی کیا جائے اور عوام دوست پالیسیوں پر عملددرآمد کیا جائے اور اس ضمن میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے انتہائی قابل اور عہد حاضر کے تقاضوں سے واقفیت رکھنے والے افراد کے علم ودانش سے استفادہ کیا جائے۔
آخر میں گورنر بلوچستان نے ورکشاپ کے منتظمین کو مبارکباد دی اور کہا کہ درپیش مشکلات سے آگاہی مناسب حکمت عملی اور تازہ ترین معلومات کے تبادلے کے لیے ایسی ورکشاپ کا انعقاد خوش آئند ہے اوراب اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ معاشرے کے تمام حصوں کو ملک قوم کی تعمیر وترقی میں شامل کیا جاسکیں۔