بے نظیر بھٹو 21جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں بے نظیر کا سحر دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا آکسفورڈ کی وہ ذہین وپرکشش لڑکی جسے علم تھا کہ اس کی زندگی کا ہر قدم پر خارکانٹوں سے اٹھاپڑا ہے، جو راہ ادھر سے جاتی ہے،مقتل سے گزر کر جاتی ہے۔ان کے وزیر اعظم بننے سے بہت پہلے ہی ان کا خاندان اقتدار کے ایوانوں میں موجود تھا ان کے داد ا سر شاہنواز بھٹو ریاست جو ناگڑھ کے وزیر اعظم رہ چکے تھے اور ان کے والد پاکستان کے کامرس منسٹر اور ایک کامیاب وزیر خارجہ کے طورپر خدمات سر انجام دینے کے بعد وزارت عظمٰی کے عہدے تک پہنچے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا بچپن اور نوجوانی کے ایام ایسے حالات میں گزرے انہوں نے اندرون اور بیرون ملک کے دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں اعزازات کے ساتھ تعلیم حاصل کی دوران تعلیم بے نظیر بھٹو کا خیال تھا کہ وہ ایک ڈپلومیٹ کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کریں گی اس وقت تک سیاست کے کاررازمیں قدم رکھنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جون 1977ء میں وطن واپسی کے صرف دوہفتے بعد جنرل ضیاالحق نے ان کے والد اور اس وقت کے وزیر اعظم شہید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، عزم وہمت کی اس بے نظیر مثال نے کیا کچھ نہیں دیکھا۔
عظیم قائد عوام کی پھانسی سے امتحان کے جو دور گزرے وہ پل پل صدیا ں تھیں مگر اس نے ہار نہیں مانی۔ بے نظیر بھٹو 05جولائی1977ء سے لے کر 27دسمبر 2007تک اپنی زندگی میں بے شمار تکالیف اور مصائب برداشت کیں۔ ”سکھر جیل میں قید تنہائی کے لمحات بڑے اذیت ناک تھے گرمی کی شدت نے میرے سیل کو تندور میں بد ل دیا تھا۔میری جلد پھٹ گئی مجھے گرم چادروں پر ہاتھ رکھنا پڑتے میرے چہرے پر گرم پسینے اُبل پڑتے۔ میرے بال جو ہمیشہ گھنے تھے گر نے لگے۔کال کوٹھڑی میں کیڑے مکوڑے پھرتے جیسے کسی ملک پر قابض فوج پھیل جاتی ہے۔چھت کے سوراخوں،دیواروں اور دیگر حصوں سے مکھیاں،مچھر،پسو، لال بیگ،زہریلے کیڑے مکوڑے اندر آتے،ڈنگ مارتے، میں ان سے بچنے کیلئے چادر نما شیٹ سرپر ڈال کر ساری رات جتن کرتی مگر جب اس بھاری شیٹ میں میرا دم گھٹتی تو میں اسے سر سے جونہی ہٹاتی،کیڑے مکوڑے پھر سے مجھ پر حملہ آور ہوجاتے“۔یہ اقتباس بے نظیر بھٹو کی تصنیف (دختر مشرق) سے ہے۔
وہ اس جیل میں گزارے ہوئے دنوں کو اپنی زندگی کے بد ترین دن گنا کرتی تھیں۔1984میں جب بے نظیر کے کان کا انفیکشن بہت زیادہ بگڑ گیا تو انہیں علاج کیلئے لندن جانے کی اجازت دے دی گئی۔1984سے 1986اس دوران ان کی اپنے بھائی شاہنواز بھٹو کی بیرون ملک پر اسرار موت کی وجہ سے وہ تدفین کی غرض سے صرف چند دنوں کیلئے پاکستان آئیں۔1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد اسی برس دسمبر میں ضیاء الحق نے ملک سے مارشل لاء ختم کردیا جس کے بعد اپریل 1986میں محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی ختم کرکے واپس آگئیں۔
وطن واپسی پر لاہور میں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس استقبال کی پاکستان میں اگر کوئی دوسری مثال دی جاسکتی ہے وہ 18اکتوبر 2007کو اپنی دوسری جلا وطنی کے بعد کراچی میں ان کی آمد کا موقع ہے۔ 1986 میں وطن واپسی کے بعدا پنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر انہوں نے شریک چیئر پرسن کے طور پر پیپلز پارٹی کو دوبارہ منظم کیا۔
1988میں ضیاء الحق کی موت کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سب پارٹیوں سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے دنیا کی پہلی مسلم خاتون کی حیثیت سے پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھالیا لیکن اُس ریکارڈ سازی کے صرف اٹھارہ ماہ بعد اگست 1990میں ایک سازش کے تحت ان کی حکومت ختم کردی گئی۔اس کے بعد 1993کے انتخابا ت میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی، محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن نومبر 1996میں اُس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بدنام زمانہ 58ٹوبی کاا ستعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ان کے شوہر آصف علی زرداری کو گرفتار کرلیا گیا اور دونوں میاں بیوی کے خلاف بے شمار ریفرنس دائر کردیئے گئے، ان ریفرنسوں کی سماعت کرنے والی عدالتوں کی غیر جانبداری پر شک کا اظہار کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی اختیار کرلی اس کے بعد اکتوبر 2007تک کا عرصہ انہوں نے جلا وطنی میں گزاری۔18اکتوبر 2007 کوجب ملک واپس آنے کا اعلان کیا تو انہیں سب روکتے رہے کہ وہ نہ جائیں لیکن انہوں نے کسی کی نہ مانی، ایک جنون تھا، قوم کی محبت تھی کہ وہ اپنے عوام میں واپس جائیں کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے۔ان کی بہن صنم بھٹو کہتی ہیں کہ ان سے کہا آپ کے بچے چھوٹے ہیں۔
آپ نہیں جاؤ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جواب دیا میں تین بچے چھوڑ کر جارہی ہوں پاکستان میں لاکھوں کروڑوں بچوں کو میری ضرورت ہے۔ وطن واپس آکر انہوں نے ایک جلسے میں کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ عوام سے میری جدائی ختم نہیں ہوئی۔وطن اور وطن کے لوگوں کے ساتھ ان کے سچے رشتے کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے انہوں نے اپنی دھرتی کے لوگوں کے درمیان ہی جام شہادت نوش کیا، راستے میں جان دے کر سب کی منزل بن جانا بھٹو خاندان کا ہی اعزاز ہے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ایک سعادت مند بیٹی کی طرح اپنے عظیم باپ کا مشن جاری رکھا۔
انہیں بے مثال اور منفرد اعزاز نصیب ہوا کہ وہ عالم اسلام کی پہلی منتخب وزیر اعظم تھیں وہ روشن خیال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ سیاست کا ڈھنگ انہوں نے اپنے والد گرامی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے سیکھا، محترمہ بے نظیر بھٹو شاندار سیاسی کردارکی مالک تھیں، ملک کیلئے ان کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔وہ کئی بار جلاوطن ہوئیں،جلاوطنی میں انہیں ہر آسائش حاصل تھی وہ شہزادی کی طرح پیدا ہوئیں اور اسی طرح رخصت ہوئیں اگر چاہتیں تو اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ انتہائی خوشگوار زندگی گزارسکتی تھیں ان کے سارے اثاثے بھی ان سے چھین لیئے جاتے پھر بھی انہیں کسی چیز کی کمی نہیں تھی ایک لیکچر کا معاوضہ ایک لاکھ ڈالر ملتا تھا اور ایسے لیکچر کے دعوت نامے ہر وقت ان کی میز پر پڑے رہتے تھے۔
نیویارک میں ایک ایسا لیکچر دے کر وہ واپس پاکستان آئیں تو قائداعظم کے دست راست اصفہانی صاحب کی پوتی فرح سے مخاطب ہوکر کہا تم دیکھ رہی ہو جلا وطنی کی زندگی میں میرے لیے سب کچھ ہے، میں چاہوں تو سیاست کی قربانی دے کر آج اپنے شوہر کو اپنے پاس لاسکتی ہوں اور ہم دونوں اپنے بچوں کے ساتھ سہولتوں سے بھری پر آسائش زندگی گزار سکتے ہیں لیکن مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا،و طن کی مٹی کاقرض مجھ پر واجب ہے اور میں اپنی یہ ڈیوٹی نبھانے کیلئے ہر قیمت پر اپنے عوام کے درمیان جاؤں گی۔جانتی ہوں عوا م دشمن قوتیں مجھے زندہ نہیں رہنے دیں گی جس زندگی پر میرا یقین ہے وہ مجھے قتل کرنے والے نہیں چھین سکیں گیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاست میں بہت سی تبدیلیوں کی کوشش کی،وہ دل سے لبرل تھیں انہوں نے پاکستان میں لبرل ازم کی جدوجہد کی، انہوں نے ہمیشہ خواتین کی حوصلہ افزائی کی۔
بچوں سے ان کا ہمیشہ شفقت کا رویہ رہا، اقلیتوں کے زیادہ سے زیادہ حقوق کیلئے کوشاں رہیں، وہ عوام میں جاکر خوش ہوتیں تھیں انہیں حقیقی طور پر عوامی لیڈ رکہا جاسکتا تھا۔اپنے راولپنڈی کے آخری جلسہ سے کچھ عرصہ پہلے انہیں ہر کسی نے منع کیا وہ پشاور میں جلسہ نہ کریں لیکن ان کی بہادری آئیڈیل تھی لیکن اس وژن کے مطابق عمل نہیں کرسکیں اس کی وجہ اچھی ٹیم کا نہ ہونا،نظام کی خرابیاں اور شاید ان کا اپنا عدم تحفظ تھا۔ ایک مرتبہ شہید محترمہ بے نظیربھٹو نے کہا تھا کہ تم ایک فرد کو جلاوطن کرسکتے ہو ایک نظریے کو جلاوطن نہیں کرسکتے اور تم ایک فرد کو قتل کرسکتے ہو لیکن ایک نظیریے کو قتل نہیں کرسکتے۔
والٹیئر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تاریخ میں بعض ایسی عظیم شخصیات پیدا ہوتی ہیں جن کی قیادت عوام صدیوں تک قبول کرتے ہیں او راستعماریت کے خلاف اپنے صف بندی برقرار رکھتے ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو ویسی ہی ایک عظیم شخصیت ہیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں جب بعض دوستوں نے محترمہ سے کہا آپ کی زندگی خطرے میں دکھائی دیتی ہے تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا، میں جانتی ہوں جمہوریت دشمن مجھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کریں گے مگر میں ان سے ڈرنے والی نہیں میں اپنے ووٹروں، اپنے عوام،اپنے پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نہیں چھوڑسکتی،میں سب کچھ چھوڑ بھی دوں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے سے کیسے انکار کرسکتی ہوں۔
میرے بابا شہید قائد عوام نے شہادت قبول کی تھی تو میں بھی شہادت کو قبول کرنے سے کیسے انکار کرسکتی ہوں۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ شہید بابا کی بیٹی نے کس ڈھب سے جام شہادت نوش کیا جس جگہ ان کی شہادت ہوئی اسی جگہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا،جس جگہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اُس سے محض دو کلومیٹر فاصلے پر وہ جیل تھی جہاں وزیر اعظم شہید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کھینچا گیا۔ تاریخی سچ اور دیانت کا تقاضا ہے کہ آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی مناتے ہوئے یہ اعتراف کیا جائے کہ وہ ایک عظیم اور بے بدل انسان تھیں، ان کوقتل کرکے پاکستان کی روح کچل دی گئی اور ایسے بہیمانہ جرم کا ارتکاب کیا گیا جس کا کسی بھی شکل میں اور کہیں بھی مداوانہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جتنی بڑی لیڈر تھیں، اتنی عظیم انسان بھی تھیں۔