|

وقتِ اشاعت :   December 30 – 2019

سبی: نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ صدارتی نظام یاپھر آمریت کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا،نیشنل پارٹی مشرف کو دی جانے والی سزا کو خوش آئند قرار دیتی ہے،حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث ملک دولخت ہوچکا ہے۔

سی پیک بلوچستان میں جبکہ ترقیاتی منصوبے کہیں مکمل ہورہے ہیں،ناکام خارجہ پالیسیوں کے باعث ہمسایہ ممالک بھی ناراض بیٹھے ہیں،2020 الیکشن کا سال ثابت ہوگا،ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے برآمدات و درآمدات ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔

نیشنل پارٹی نے اپنے ڈھائی سالہ دوراقتدار میں پرامن بلوچستان کی بنیاد رکھی،ناراض بلوچ رہنماؤں سے ہم نے کامیاب مذاکرات کیئے تھے لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر مذاکرات ناکام ہوئے،نیشنل پارٹی نے شورش زدہ حالات میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات کروائے،راتوں رات باپ پیدا کرکے بلوچستان کے عوام کو مزید پسماندگیوں اور تاریکیوں کے دور میں دھکیلنے کی سازش کی جارہی ہے،نیشنل پارٹی شعوری وفکری ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے۔

نام نہاد قبائلی سرداری نظام کے باعث صوبے کے عوام کا استحصال ہوتارہا ہے،پارٹی ورکر شعوری وفکری سوچ کو آگے لے کر چلیں،بلوچستان کے ساحل ووسائل اور صوبے کے عوام کے حقوق کے پاسدار رہیں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے سرکٹ ہاؤس سبی میں ورکرکانفرنس سے خطاب میں کیا۔

وکرزکانفرنس سے نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری جان محمد بلیدی،سینیٹر میرکبیر محمد شہی،واجہ خیر جان بلوچ،سابق ایم پی ائے یاسمین لہڑی،مہراب بلوچ،ضلع سبی کے صدر ملک ظفر سلطان باگڑانی،میر لیاقت بلوچ،علی احمد لانگو،یارمحمد بنگلزئی،میراسلم گشکوری،میراللہ بخش مری سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔

وکرزکانفرنس سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل پارٹی بلوچستان کے عوام کے حقوق کے حضصول کے لیے جہد مسلسل پر یقین رکھتی ہے ماضی میں ڈھائی سالہ دور اقتدار میں نیشنل پارٹی نے صوبے میں انقلابی تبدیلیاں لانے والی پالیسیاں مرتب دئے کر پرامن بلوچستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنایا،جبکہ اس وقت صوبے میں شورش اپنے زوروں پر تھی اس کے باوجود نیشنل پارٹی نے بہتر حکمت عملی کے تحت صوبے میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرواکر نچلی سطح پر جمہوریت کو مستحکم بنایا،لیکن موجودہ صورتحال میں ہمیں بلدیاتی انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دئے رہے ہیں کیونکہ ہمارئے حکمران نہیں چاہتے ہیں کہ جمہوریت مستحکم ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قیام امن اور مسخ شدہ لاشوں کے سلسلے کے خاتمہ کے لیے نیشنل پارٹی نے ناراض بلوچ رہنماؤں کو قومی دھارئے میں شامل کرنے کے لیے مذاکرات کو ترجیح دی اور اس ضمن میں ڈاکٹر مالک بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے ناراض بلوچ رہنماء براہمداغ بگٹی،خان آف قلات سمیت دیگر سے ملاقاتیں بھی اور مذاکرات بھی کسی حد تک کامیاب ہوچکے تھے لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر مذکرات کامیاب نہیں ہوپائے جویقینا ہماری بدقسمتی تھی۔

انہوں نے کہ صوبے کی نئی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے صوبے میں تعلیمی ایمر جنسی نافذکرکے تعلیمی اداروں میں بہتری لائی گئی جبکہ صوبے میں کالجز یونیورسٹیاں قائم کی گئیں اور اسکولوں لکو اپ گریڈ کیا گیا تاکہ ایک پڑھا لکھا بلوچستان ہی صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں مکی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک دولخت ہوچکا ہے ناکام خارجہ پالیسی کے باعث ہمارئے پڑوسی ممالک بھی ہم سے ناراض بیٹھے ہیں جو یقینا موجودہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا ایک غمیازہ ہے جو ملک کے عوام کو سہنا پڑ رہا ہے انہوں نے مزید کہاکہ صدارتی نظام ہو یاپھر آمریت کسی صورت قبول نہیں ہوگی صدارتی نظام بھی آمریت کی دوسری شکل ہے انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے عدالتی فیصلے کی ہم حمایت کرتے ہیں اور اسے خوش آئند قرار دیتے ہیں تاکہ آئندہ کو ڈکٹیٹر اس قسم کے غیر آئینی اقدام نہ اٹھا سکے پاکستان کا بہتر مستقبل کاراز جمہوریت میں ہضمر ہے اور جمہوریت کے استحکام کے لیے نیشنل پارٹی ہر اس اقدام کو سپورٹ کرئے گی جس سے جمہوریت کو استحکام بخشا جائے انہوں نے کہا کہ ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے ہرطرف مہنگائی و بے روزگاری نے ڈیرئے ڈال رکھے ہیں۔

ملک کی برآمدات و درآمدات ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں غربت و بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ حکمران اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں اور عوام کا کوئی پرسان حال والا موجود نہیں ہے ایسے حالات میں زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ سال 2020نئے انتخابات کا سال ثابت ہوگا انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی کا مینڈیٹ چوری کرکے راتوں رات بغیر باپ کے باپ بنائی جانے والی نام نہاد پارٹی کو دیا گیا جس کی وجہ سے صوبے کے عوام میں محرومیوں میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ باپ کے وزراء صرف اپنے آقاؤں کی خوش نودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں اور صوبے کے عوام کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک جوکہ بلوچستان میں موجود ہے لیکن صوبے کے حکمرانوں نے سی پیک کا سوداکردیا ہے اور ذاتی مفادات کی خاطر آج بلوچستان کے ساحل ووسائل کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا گیا ہے60ملین ڈالر سی پیک کے نام پر آئے لیکن ترقیاتی منصوبے بلوچستان کے بجائے کہیں اور تکمیل تک پہنچائے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی بلوچستان کے عوام اور حقوق کی پاسدار جماعت ہے جو حقوق کے حصول کے لیے جہد مسلسل پر یقین رکھتی ہے پارٹی ورکرز کسئی صورت مایوقس نہ ہوں بلکہ شعوری و فکری جدوجہد کو مزید تیز کردیں اور موجودہ فرسودہ نظام کے بتوں کو گرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔