عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی حملے کے نتیجے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مبصرین مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافے اور ایران اور امریکہ کے درمیان ممکنہ جنگ کے بارے میں تبصرے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر اس وقت یہی موضوع زیرِ بحث ہے اور اسی خبر سے جڑے کئی ہیش ٹیگ، مثلاً#Iran #WWIII #Soleimani اور #قاسم_سليماني اس وقت ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
اس حملے کے اب تک کئی نتائج سامنے آئے ہیں۔ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کی خبر آنے کے چند گھنٹوں بعد ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں چار فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ عموماً مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنے کی صورت میں ہوتا ہے۔
برطانوی ماہرِ معاشیات جیسن ٹووے کے مطابق ہر چیز کا انحصار ایران کے ردِعمل پر ہوگا۔ ’ہمیں خدشات ہیں کہ اس پیش رفت سے خطے میں تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔‘
اس وقت پوری دنیا کی توجہ عراق پر مرکوز ہے اور سب یہ جاننے کے لیے بےچین ہیں کہ جس ملک کی سرزمین پر یہ حملہ ہوا ہے ان کا ردعمل کیا ہو گا۔
عراق کا سرکاری موقف ہے کہ امریکی کارروائی اس کی ’سالمیت کی صریح خلاف ورزی اور ملک کے وقار پر کھلا حملہ ہے۔‘
دوسری جانب عراقی شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر نے کہا ہے کہ ’قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانا جہاد کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے لیکن یہ ہمارے عزم کو کمزور نہیں کرے گا۔‘
انھوں نے اپنے پیروکاروں کو عراق کی حفاظت کرنے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت بھی کی۔
تاہم مشرقِ وسطی کے دیگر ممالک جیسے کہ قطر، سعودی عرب اور مصر کی جانب سے بھی ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
لبنانی گروہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کے قاتلوں کو قرار واقعی دلوانا دنیا بھر میں پھیلے تمام جنگجوؤں کا فرض ہے۔
تاہم شام کی جانب سے سامنے آنے والے ردِ عمل میں اس حملے کو ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیا گیا ہے۔
امریکہ کے حریف چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جمعہ کے روز سامنے آنے والے ردِ عمل میں تمام قوّتوں، خاص کر امریکہ کو، تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی تعلقات میں جارحیت کی مسلسل مخالفت کی ہے۔‘
روس کے دفترِ خارجہ نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ‘امریکی حملے کے باعث سلیمانی کی ہلاکت کو ایک غیر محتاط قدم کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے پورے خطے میں تناؤ کی کیفیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔’
‘سلیمانی نے ایران سے وفاداری نبھاتے ہوئے قومی مفادات کا دفاع کیا۔ ہم اس موقع پر ایران کے عوام سے بھرپور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔’
تیسری عالمی جنگ چھڑنے کا خدشہ
ساتھ ہی ماہرین کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے امریکہ کی اس کارروائی پر تنقید کر دی تو پھر کیا ہو گا؟
کالم نگار اور عالمی امور پر گہری نظر رکھنے والے وجاحت علی کہتے ہیں کہ ’اگر ہمارے یورپی اتحادیوں نے امریکہ کے سلیمانی کو قتل کرنے کے فیصلے پر تنقید کی اور ایران کے جوہری معاہدے پر قائم رہے تو ٹرپ کا ردِعمل کیا ہو گا؟‘
سوشل میڈیا پر جہاں اس حملے کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے، وہیں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ کیا اس امریکی اقدام کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ممکنہ جنگ کے خدشات بڑھ جائیں گے اور کیا یہ کشیدگی تیسری عالمی جنگِ کا پیش خیمہ تو ثابت نہیں ہو گی۔
امریکی سینیٹر ایڈ مارکی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے سلیمانی کی ہلاکت ‘بڑی، دانستہ اور خطرناک کشیدگی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔’
‘صدر ٹرمپ نے امریکی افواج سمیت خطے میں موجود عام لوگوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دی ہیں۔ ہم اس کشیدگی کو فوراً ختم کرنا ہو گا۔’
اس کے علاوہ مشرق وسطی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اور مصنف ولی نصر کے مطابق جنرل سلیمانی خطے میں کافی مقبول تھے اور ان کی ہلاکت کے بعد ایران پر جوابی کارروائی کرنے کے لیے کافی دباؤ ہوگا۔
دوسری جانب کتاب ‘دی شیڈو وار’ کے مصنف اور کالم نگار جیمز شیوٹو کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ اور ایران حالیہ کشیدگی کے باعث آمنے سامنے آتے ہیں تو یہ امریکہ کے لیے کسی کسی بھی دوسری جنگ سے مختلف ہو گی
‘ایران میں بڑھتی کشدیدگی امریکہ کے لیے کسی بھی دوسری جنگ سے مختلف ہو گی۔ ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہ خطے میں اور اقوام عالم میں سویلین اور خارجہ امور سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کے علاوہ بحری جہازوں، پائپ لائنز، دیگر تنصیبات اور سائبر حملوں کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔’
تاہم ایران کے پاسدارنِ انقلاب کے حوالے سے لکھی گئی مقبول کتاب ‘وین گارڈ آف دی امام’ کے مصنف افشون اوسٹووار کہتے ہیں کہ ‘اب جنگ ہو گی۔’
جہاں تک امریکہ میں اس قدم پر عوامی ردعمل کا تعلق ہے تو جنرل سلیمانی کے کردار اور ان کو ہلاک کرنے کے فیصلے پر رائے منقسم ہے۔
جہاں کچھ مغربی حلقے ان کی موت کو مشرقِ وسطی کےحالات میں ایک اہم پیش رفت مانتے ہیں، زیادہ تر کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس قدم سے ایران کے ساتھ جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
کئی امریکی سیاست دانوں نے ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے یہ فیصلہ پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر لیا، جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑے گا۔
امریکی سینیٹر کرس مرفی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’سلیمانی امریکہ کا دشمن تھا، سوال یہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ رپورٹس کے مطابق کیا امریکہ نے کسی کنگریشنل منظوری کے بغیر ہی ایران کے دوسرے سب سے مضبوط شخص کی ہلاکت کی اجازت دے دی یہ جانتے ہوئے کہ اس سے خطے میں بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے؟