|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2020

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے ترجمان ڈاکٹر رحیم خان بابر کا جاری کردہ بیان کوپڑھ کر نہ صرف انتہائی دکھ ہوا بلکہ شرمندگی کہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں،شاید جنوبی افریقہ کے پسماندہ علاقوں سے بھی ”پرا گندہ“ صورتحال بلوچستان کی ہو رہی ہے کہ جہاں سنڈیمن سول ہسپتال کے ”اکلوتے“ ٹراما سینٹر میں نوشکی سے لائے گئے زخمی مریض کا آپریشن موبائل کی روشنی میں کیا گیا۔

اس خبر پر کسی کو شرمندگی کا احساس ہو کہ نہ ہو،کم از کم مجھے خود پر ندامت ہو رہی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں کہ ہماری صوبائی دارالحکومت کے ایک بڑے ہسپتال میں نہ تو لائٹ کا نظام ہے اورنہ ہی سٹینڈ بائی میں ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کیلئے جنریٹر کا بندوبست۔ سوشل میڈیا پر میں نے بھی یہ منظر دیکھا لیکن یقین نہیں آیا،میں سمجھا کہ یہ کسی کی شرارت ہوگی لیکن ینگ ڈاکٹرز کے جاری کردہ بیان نے اسے سچ ثابت کر دیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہسپتال کے منیجنگ ڈائریکٹر کی نااہلی کے سبب بلوچستان کا واحد ٹراما اینڈ ایمرجنسی سینٹر مکمل طور پر تباہ حالی کا شکار ہے، ٹراما سینٹر کے آپریشن تھیٹر میں اضافی لائٹ کا کوئی بندوبست نہیں، لائٹ تو اپنی جگہ ٹراما سینٹر میں آپریشن کے اوزار، ادویات تو دور کی بات ہے مریض کیلئے چپل تک میسر نہیں۔

ینگ ڈاکٹرز ترجمان کے مطابق سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال عالیانی، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال مندوخیل اور صوبائی سیکرٹری صحت مدثر وحید ملک کے سنڈیمن پروانشل ہسپتال کے دوروں کے باوجود تا حال کسی قسم کے مثبت پیشرفت کا نہ ہونا قابل افسوس ہے۔ جہاں ایک طرف ٹراما سینٹر بدحالی کی نذر ہے، وہاں دوسری طرف صوبے کا ہیلتھ سسٹم مستقل بنیادوں پر چلانے کے بجائے ایڈ ہاک طرزپر چلانے کو ترجیح دی جارہی ہے جو کہ صوبے کے ہیلتھ سسٹم اور غریب عوام کیساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں، جس کے سبب ایسے حالات میں ڈاکٹروں کا کام کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔

ترجمان نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے پر زور مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے غریب عوام کی بد حالی پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کے تمام سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے، صوبہ بھر کے ہیلتھ یونٹس میں کنٹریکٹ پر تعینات ڈاکٹروں کو مستقل کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے واحد ٹراما اینڈ ایمرجنسی سینٹر کیلئے ایک اہل اور فرض شناس منیجنگ ڈائریکٹر تعینات کر کے اسے مکمل طور پر فنکشنل کرنے کیلئے تمام تر سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے بصورت دیگر ڈاکٹرز ایمرجنسی سینٹر میں ڈیوٹی دینے سے قاصر ہوں گے۔

اب آئیے اس محکمہ سے متعلق ایک دوسری خبرکی جانب جس کے مطابق چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال مندوخیل نے دورہ حب کے موقع پر اچانک جام غلام قادر ہسپتال کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ڈاکٹروں سمیت ہسپتال عملے کی غیر حاضری اور ہسپتال میں صفائی کے ناقص انتظامات پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ایم ایس ہسپتال کی سرزنش کی اور وزیراعلیٰ جام کمال خان کو ٹیلیفون کر کے صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ذمہ داروں کیخلاف سخت محکمانہ کارروائی کرنے کا کہا۔ اس موقع پر ہسپتال میں موجود مریض بھی ناقص انتظامات اور ادویات کی عدم فراہمی پر پھٹ پڑے اور ڈاکٹروں کے خلاف دل کھول کر شکایات کیں، اس پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔

یاد رہے کہ حب میں موجود یہ قدیم ہسپتال وزیراعلیٰ جام کمال کے دادا مرحوم جام غلام قادر خان کے نام سے منسوب ہے جس کی حالت زار بھی ناگفتہ بہ ہے۔چہ جائیکہ بلوچستان کے دیگر ہسپتالوں کی حالت زار بہتر ہو جب اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو، وزیراعلیٰ جام کمال عالیانی کے ابتک کے دوروں کے باجودصوبائی دارالحکومت کے سنڈیمن ہسپتال کی حالت بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

اس حوالے سے وزیراعلیٰ نے اعلیٰ سطحی میٹنگ کرتے ہوئے فنڈ جاری کرنے کے احکامات صادر کئے اور کہا کہ ان مسائل پر غور کرنے کے لیے ہر پندرہ روز بعد میٹنگ کر کے اس میں پیشرفت کا جائزہ لیا جائیگا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ٹراما سینٹر میں بجلی کا مسئلہ درپیش ہے، آپریشن تھیٹر میں موبائل لائٹ سے آپریشن کرنے کے عمل پر ہمیں ڈوب مرنا چاہیے،پرائیویٹ ہسپتالوں میں یہ صورتحال ہر گز نہیں ہوگی جہاں ایمرجنسی سینٹرز کو جنریٹرز کے ذریعے بجلی فراہم کرنے کی سہولت موجود ہے کیونکہ یہ ہسپتال کاروباری حساب سے چلائے جارہے ہیں، ایک سرکاری ہسپتال میں جو ڈاکٹرز اور ایڈمنسٹریشن کے ہاتھوں تباہ حالی کا شکار ہیں وی آئی پی شخصیات کے دوروں کے بعد بھی صورتحال جوں کا توں ہو تو ان شخصیات کو خود اس بات کا یقین کرنا چاہیے کہ بیورو کریسی ان کے احکامات کو کس طرح نظر انداز کر رہی ہے۔

انہیں کسی صورت میں نہ تو خاطر میں لایا جارہا ہے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کا ڈر یا خوف محسوس کیا جارہا ہے۔وزیراعلیٰ موصوف کو اس خبر پر فوری ایکشن لیتے ہوئے انتہائی سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ صوبے میں صحت عامہ سے متعلق عوام الناس کی جو شکایات ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔ وزیراعلیٰ کو اس خبر کی روشنی میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،یہ جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں،ان کی اپنی ساکھ سیاسی طور پر متاثر ہو سکتی ہے کہ کس طرح محکمہ صحت کی بیورو کریسی ان کے احکامات اور ہدایات کو ہوا میں اڑا رہی ہے۔

اب رہی سہی کسر وزیراعلیٰ کے آبائی شہر حب کے ہسپتال نے پوری کر دی جہاں کی صورتحال بھی سنڈیمن ہسپتال سے ابتر ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیراعلیٰ کے حلقہ انتخاب میں صحت عامہ کی سہولیات میں بہتری آتی، ڈاکٹر اور اسٹاف ڈیوٹی فل نظر آتے لیکن یوں لگتا ہے کہ محکمہ صحت کی بیورو کریسی بے لگام ہوچکی ہے، آوے کا آوہ بگڑ چکا ہے۔اللہ کرے ہماری یہ تحریر وزیراعلیٰ تک پہنچ جائے اور اللہ تعالیٰ انہیں موثر اقدامات اٹھانے کی توفیق دے ہم سوائے دعا کے کیا کرسکتے ہیں۔ ہر طرف لاچارگی، پسماندگی کی کہانیاں ہیں شومئی قسمت ہم آج بھی اپنی قوم کی حالت بدلنے پر نہ تو تیارہیں اور نہ ہی مستقبل میں ایسے آثارنظر آتے ہیں۔