خضدار: خضدار شہید سکندر زہری یونیورسٹی خضدار میں میڈیکل کالج کو ضم کرنے کے خلاف خضدار کے شہریوں نے باقاعدہ تحریک کاآغاز کردیا۔ اکثریتی سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینز، سول سوسائٹی، تنظیمات سمیت عام شہریوں کی جانب سے پریس کانفرنس اور حکومتی اقدام کے خلاف بھر پور سیاسی جدوجہد کے آغا زکافیصلہ کیا گیا۔
آج یہاں خضدا رپریس کلب میں خضدار شہید یونیورسٹی بچاؤ تحریک کے چیئرمین ماما حید ر موسیانی، وائس چیئرمین ناصر کمال،ایڈوکیٹ فوزیہ زہری، شکیل بلوچ نوید مینگل سمیت دیگر نے پُر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ خضدار کو پہلی بار ایک یونیورسٹی ملی تھی اور یہاں کے عوام میں اس تعلیمی منصوبے کے آغاز پرخوشی دیدنی تھی تاہم اب شہریوں کی اس خوشی پر صوبائی حکومت کی جانب سے تلوار کھینچنے کا آغازاس وقت ہوا ہے جب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ خضدار شہید سکندر یونیورسٹی منصوبے کو ختم کرکے اس میں میڈیکل کالج منصوبے کو ضم کردیا جائیگا۔
یہ ناانصافی اور تعصب آمیز حکومتی فیصلہ ہمیں کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے، خضدار کے تعلیم دوست تمام طبقات متحد ہوکر ایک منظم تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ تحریک بلوچستان حکومت کو خضدار شہید سکندر یونیورسٹی کے فیصلے کو واپس لینے تک جاری رہے گی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل کالج کے لئے پہلے اراضی مختص اور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی ہے اور یہ بات خود سیکریٹری ہیلتھ نے کہاکہ میڈیکل کالج کو 15 پیکجز میں ٹینڈر کیا گیا ہے جس کی منظوری بھی ہوچکی ہے،اس کی لاگت 6933ملین روپے ہے۔
کالج کی باؤنڈری وال، جمنازیم، ہاسٹل پر کام مکمل ہوچکا ہے اخراجات کی مد میں 957ملین روپے ادا بھی کردی گئی اس اسکیم کے لئے ٹھیکدار کو ایڈوانس رقم کی ادائیگی بھی ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود میڈیکل کالج پر اتنی خطیر رقم خرچ کرکے پھر اسے خضدار شہید یونیورسٹی میں ضم کرنے کے بارے میں سوچنا بلوچستان کے عوام کے ساتھ مذا ق اور ان کے پیسے کو بے دریغ انداز میں ضائع کرنا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں بقول سیکریٹری ہیلتھ کے خضدار شہید یونیورسٹی پراجیکٹ پر بھی اسی فیصد کام مکمل ہوچا ہے۔دو الگ پراجیکٹس بنا کران پرخطیر رقم خرچ کرنا اور پھر ان کو ایک دوسرے میں ضم کرنا ایک غریب صوبے کے عوام کے ساتھ کہاں کاانصاف ہے، اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اتنی خطیر رقم کو چھپانے کے لئے سب کچھ ہورہاہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ میڈیکل کالج خضدار اپنی جگہ پر بنے اور خضدا رشہید سکندر یونیورسٹی کا پروجیکٹ مختص کردہ اپنے مقام تعمیر ہو۔
خضدار جو کہ اس پورے ریجن کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، قرب و جوار کے اضلاع اور وہاں کے بچوں کے لئے تعلیمی مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خضدار میں ایک جنرل یونیورسٹی کی بے حد ضرورت ہے اب موجود حکومت تعلیم دشمنی پر اتر کر خضدار شہید سکندر یونیورسٹی کوختم کرنے کا جو پلان بنا رکھی ہے وہ کم از کم جھالاوان اور خضدار کے عوام کو کسی بھی طرح قبول نہیں ہوگا۔
اس کے لئے خضدار کی تمام سیاسی جماعتیں سول سوسائٹی کے نمائندے اور عام عوام نے مل کر تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ جس میں مظاہرے، جلسہ جلوس، لانگ مارچ تک ہونگے۔ آج کی پریس کانفرنس کے ذریعے ہمارا حکومت بلوچستان سے مطالبہ ہے کہ وہ تعصبات اور علاقائی تفریق کی بنیاد پر فیصلہ کرنے سے گریز کرے اور قوم کے پیسے کو اس طرح ضائع مت ہونے دیں۔ خضدار میں ایک جنرل یونیورسٹی یہاں کے عوام کی ضرورت ہے۔
بد قسمتی سے اتنے مرکزی علاقے میں بھی یہاں کے بچی اور بچیوں کو پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے۔اس حوالے سے خضدار کے قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ممبران اور سینیٹرز اس کے خلاف بھر پور انداز میں آواز اٹھائیں۔اس مسئلے کو قومی تحریک کی شکل دیکر اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔ پریس کانفرنس میں جھالاوان عوامی پینل خضدار سٹی کے آرگنائزر میر شہزاد خان غلامانی، گورنمنٹ ٹیچر ایسوسی ایشن بلوچستان کے سینئر نائب صدرمیر شہباز خان قلندرانی، خضدار اتحاد کے چیئرمین میر اورنگزیب زہری، نیشنل پارٹی خضدار تحصیل کے صدر عبدالوہاب غلامانی، مسلم لیگ () خضدارسٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر حضور بخش زہری، ڈپٹی آرگنائزر منیراحمد قمبرانی، زمیندار ایکشن کمیٹی کے نائب صدر علی اکبر زہری، بی این پی (عوامی) کے رہنماء صدام بلوچ، پی ٹی آئی باغبانہ زون کے رہنماء فیض احمد قلندرانی، سماجی کارکنان غلام قادر چھٹہ، عالم فراز مینگل، جام مقبول، سرفراز لہڑی، آئی ایس ایف کے یونٹ سیکریٹری عبیداللہ، سمیت دیگر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے نمائندہ گان پریس کانفرنس میں موجود تھے۔