خضدار: خضدار سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی وسماجی جماعتوں،طلبا تنظیموں تاجربرادری،وکلا برادری، تعلیم دوست شخصیات نے شہید سکندر یونیورسٹی خضدار کی زیر تعمیر عمارت کو جھالاوان میڈیکل کالج میں ضم کرنے اور یونیورسٹی کو ختم کرنے کے خلاف سراپا احتجاج یونیورسٹی کو کسی صورت ضم ہونے نہیں دیں گے شہید سکندر یونیورسٹی کے قیام سے ہماری نسلوں کا بقا ہے اس کے لیئے ہم ہر وہ قدم اٹھانے کے لیئے تیار ہیں جس کو کوئی تصور نہیں کرسکتا۔
ان خیالات کا اظہار آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا عنایت اللہ رودینی سابق ڈائریکٹر شہید سکندر یونیورسٹی حاجی محمد عالم جتک سلطان احمد شاہوانی ناصر کمال بلوچ نے سینکڑوں کی تعداد میں موجود پر ہجوم پریس بریفنگ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر معروف قانون دان فوزیہ سکندر ایڈوکیٹ،سماجی رہنما فرزانہ سحر جاموٹ،میر شہباز خان قلندرانی،سردار زادہ شہباز خان غلامانی عبدالوہاب غلامانی مولانا محمد اسلم گزگی ڈاکٹر حضور بخش زہری صدام بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے سابق ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن سکندر زہری شہید یونیورسٹی حاجی محمد عالم جتک نیبریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سن دوہزار چودہ میں مجھے اس ادارے کا ڈائریکٹر ایڈ منسٹریشن مقررکیا گیا۔
سولہ اپریل دوہزار چودہ میں اس یونیورسٹی کے لیئے ایک اجلاس کے دوران دو ارب چوراسی کروڑ روپے منظور کرائے گئے یونیورسٹی کے لیئے کل چھ سو چوبیس ایکڑ اراضی بھی مختص کی گئی عارضی بنیاد پر لاء کالج خضدار میں اس وقت کے وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بیس جولائی دوہزار پندرہ کو یونیورسٹی کا باقائدہ افتتاح بھی کیا گیا وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے سختی تاکید کی کہ اس ادارے کو فوری طور پر فعال بناکر مارچ سے کلاسوں کا اجرا بھی کیا جائے۔
انہوں نے کوئٹہ پہنچتے ہی ڈائی کروڑ روپے ریلیز بھی کیئے یونیورسٹی کا کام مرحلہ وار پوسٹوں کو مشتہر کرنے کا مرحلہ آیا تو معاملہ کھٹائی کا شکار ہوا جب نواب ثناء اللہ زہری کا دور حکومت شروع ہوا تو انہوں نے بھی مزید ساڑھے سات کروڑ روپے جاری کیئے انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے قیام کے لیئے اس کا ایکٹ منظور کر وانا لازمی ہوتا ہے ایکٹ کی تیاری اور اس ایکٹ کو صوبائی اسمبلی سے پاس کروانا لازمی ہوتا ہے ایکٹ پاس نہ ہونے کی وجہ سے نہ کلاسیں شروع ہوسکیں اور نہ یہاں کے طلبا اعلی تعلیمی سہولیات سے مستفید ہوسکے۔
پریس بریفنگ سے مولانا عنایت اللہ رودینی اور سلطان احمد شاہوانی ناصر کمال اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سے تقریبا پچاس سال قبل جب خضدار ڈگری کالج کا قیام عمل لایا گیا تو اس وقت بھی کچھ قوتوں نے اس کی مخالفت کی اور آج ان ہی قوتوں کی خواہش ہے کہ یہ یونیورسٹی یہاں نہ بنے کیونکہ ہمارے لوگ تعلیم یافتہ ہونگے تو انکی وہ والی ریاست والی مرتبت میں شاید کمی آئے گی لیکن انہیں یہ شاید علم نہیں کہ یہ اکیس ویں صدی ہے شعور اور آگہی کا دور ہے۔
آج خضدار کی تمام سیاسی جماعتیں،طلبا تنظیمیں،غرض ایسا کوئی طبقہ نہیں جو اس اہم مسئلے پر یکجا یا خاموش ہو یونیورسٹی کی قیام کے لیئے سراپا احتجاج پر ہیں یہ بھی ہمارے خطے کی شعور کا مظہر ہے کہ ہم سب ایک ادارے پریس کلب میں میڈیا کے ذریعے اپنی آواز حکام تک پہنچا رہے ہیں ورنہ احتجاج کے دیگر ذرائع بھی تھے اور ہیں ہمیں اس حد تک جانے نہ دیا جائے جس آپ کے اقتدار کی دیواریں لرزنے لگیں۔
مقررین نے کہا کہ شہید سکندر یونیورسٹی کی تعمیراتی کام اسی فیصد سے بھی زائد مکمل ہوچکی ہے اور ہمارے نسلوں کی روشن باب کو بند کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں انشا ء اللہ شہید سکندر یونیورسٹی خرور بنے گی اور جھالاوان میڈیکل کالج بھی بنے گی انہوں نے کہا کہ دنیا جتنی تیز رفتاری سے ترقی کی جانب گامزن ہے اور آپ ہمیں تاریکی کی جانب دھکیل رہے ہیں مقررین نے خضدار سے منتخب ممبر قومی اسمبلی،ممبران صوبائی اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت کی مجوزہ فیصلے کے خلاف عملی اقدامات کریں اور شہید سکندر یونیورسٹی خضدار میں رواں سال مارچ میں کلاسوں کے اجرا کو یقینی بنائیں۔