|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2020

صباء اپنی 27 سالہ بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ وہ بیٹی کو بیاہ دیں گی تو اُنکے گھر کا چولہا کیسے جلے گا کوئٹہ شہرکے وسطی علاقے میں رہائش پذیر صباء کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اُنکے گھر کی واحد کفیل بیٹی ماہانہ اُجرت کے عوض دینی مدرسے میں پڑھاتی ہیں اُنکے مطابق اگر کوئی ایسا لڑکا مل جائے جو شادی کے بعد بھی بیٹی کو مدرسے میں پڑھانے دے اور ہمارے گھر کی ذمہ داری سنبھالے تو وہ شادی کردیں گی جبکہ صباء کی بیٹی کا کہنا ہے کہ اگر وہ شادی کر لیں گی تو اُنکی والدہ اور چھوٹے بھائیوں کو کون دیکھے گا اور اس بڑھتی مہنگائی میں ان کا گزر بسر کیسے ہوگااس لیے وہ بھی شادی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے43فیصد سے زائد حصے پر مشتمل صوبہ بلوچستان میں صنعتیں نہ ہونے کے باعث روزگار کے مواقعے بہت کم ہیں مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ گذشتہ دنوں 20 روپے میں ملنے والی تندور کی روٹی کاوزن 380 سے 260 گرام ہوچکاہے۔صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے باچا خان چوک پر مزدوری کی غرض سے صبح 8 بجے آنیوالے مزدور شفیق عالم کہتے ہیں کہ وہ روز انہ بلا ناغہ شہر کے چوراہے پر آتے ہیں کہ کوئی اُنہیں گھر کی تعمیر یاکسی مزدوری کیلئے لے جائے لیکن کئی دن تک اُنہیں گاہک نہیں ملتے جسکی وجہ سے وہ راہ گزارتے لوگوں سے پیسے مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اُنکے مطابق شہر میں ملنگ نامی ہوٹل سے مزدوروں کو کم پیسوں یا پھر مفت کھانہ مل جاتا ہے لیکن جب وہ کھانے بیٹھتے ہیں تو گھر پر بیٹھے بھوکے بچوں کا خیال اُنکے ضمیر کو جھنجوڑتا ہے جسکی وجہ سے وہ آدھی بھوک کے ساتھ ہی واپس چوراہے پر کھڑے ہو جاتے ہیں 19 جنوری شام 6 بجے تک شفیق نے 600 روپے کمائیں تھے جن پیسوں سے اُنہوں نے تین کلو آٹا190، سب سے سستا گھی ایک پاؤ45، بینگن دو کلو 90، آدھا کلو ٹماٹر40،پیاز 40،اور لہسن ادراک 50 ہری مرچیں دھنیاپودینہ 30 روپے کے خریدے بقایا اُنکے پاس 115 روپے بچ گئے تھے اُنہوں نے بتایا کہ وہ ان پیسوں سے صبح ناشتے کیلئے آدھا کلو چینی 40اور پتی کے ساشے 20 روپے کے خریدیں گے جسکے بعد اُنکی جیب میں 55روپے بچ جائیں وہ کئی مہینے گزارنے کے باوجود گھر پھل لیکر نہیں جاتے۔

جبکہ بل کی ادائیگی نہیں ہونیکی وجہ سے اُنکے گھر کی بجلی بھی اکثر کاٹ دی جاتی ہے شفیق جیسی ہی صورتحال کا سامنا بلوچستان کے کئی مزدوروں کو روز کرنا پڑتا ہے جبکہ صوبے کے کئی نوجوان نوکری کی تلاش میں سیکرٹریٹ کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں 35 سالہ جواد علی کئی سال سے بے روزگار ہیں اور سرکاری نوکری کے حصول کیلئے کافی سال سے کوشش کر رہے ہیں وہ پُر اُمید ہیں کہ اُنہیں نوکری مل جائے گی کیونکہ بلوچستان حکومت نے سرکاری نوکری کیلئے عمر کی حد 43 سال مقرر کردی ہے۔

جواد نے بتایا کہ پچھلے آٹھ سالوں میں وہ اپنی تعلیمی دستاویزات کی فوٹو کاپیوں اور مختلف آسامیوں کے امتحانات کی فیس کی مد میں ہزاروں روپے خرچ کر چکے ہیں لیکن نوکری نہیں ملتی اُنکے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ کسی کو دیکر نوکری خرید سکیں اس ماہ اُنہیں کسی وزیر کے خاص بندے نے یقین دلایا ہے کہ اُنکو کلرک کی نوکری مل جائے گی یہی وجہ ہے کہ وہ روز سول سیکرٹریٹ کے احاطے میں اپنے کاغذات لیے نظر آتے ہیں صوبے میں جواد کی طرح کئی بے روزگار نوجوان کسی نہ کسی سفارش کی تلاش میں رہتے ہیں۔

سول سیکرٹریٹ میں 0 2سال سے ملازمت کرنیوالے ایک 16گریڈ کے ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ماضی میں تونوکریاں بیچنے کی باتیں عام ہوا کرتی تھیں اور کئی افراد لوگوں کو نوکری کا جھانسادیکر پیسے کھا جایا کرتے تھے جبکہ کئی ملازمین آسامی کے گریڈ کے حساب سے پیسے دیکر بھرتی ہوجاتے تھے اب بھی سیکرٹریٹ میں کئی ایسے ملازمین بھرتی ہیں جوماضی میں پیسے دیکر لگے ہیں اور فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے اتنے پیسے دیے تھے اُن کے مطابق پچھلے چند سالوں سے نوکریاں بیچنے کی باتوں میں کمی آئی ہے لیکن اب بھی اکثر لوگ کہتے ہیں کہ گریڈ کے حساب سے پیسے دیکر نوکری لی جا سکتی ہے لیکن وہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جو حال ہی میں پیسے دیکر لگا ہو۔

موجودہ حکومت کے وجود میں آتے ہی وزیر اعلیٰ نے یہ یقین دلایا تھا کہ اب نوکریاں میرٹ پر ملیں گی لیکن حال ہی میں محکمہ تعلیم میں ہونیوالی بھرتیوں پر شک و شبہات کا اظہار کیا جا رہاہے جبکہ اپوزیشن کے اراکین نے اسمبلی فلور پر یہ الزام عائد کیاہے کہ محکمہ تعلیم میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا گیاہے جن کے نام ٹیسٹ اور انٹرویو لسٹ میں نہیں تھے حال ہی میں پیش آنیوالے اس واقعہ نے میرٹ پر ملنے والی نوکریوں کے حکومتی دعوے کو شدید نقصان پہنچا یا ہے۔

بلوچستان میں 8سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جبکہ 1970 میں قائم ہونیوالی جامعہ بلوچستان کے ایڈمنسٹریشن ڈریپارٹمنٹ کے آفیسر نور الامین کاکڑ کے مطابق جامعہ سے ہر سال مختلف شعبوں میں ریگولر گریجویشن کرنیوالے طالبہ وطالبات کی تعداد 40000 کے قریب ہے جبکہ ریگولر ماسٹرز پاس کرنیوالے طالبعلموں کی تعداد 17000 تک ہے۔ جبکہ صوبے کی مزید 7 یونیورسٹیوں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان پاس آؤٹ ہورہے ہیں۔

جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے میں دن بدن بے روزگاروں کی تعداد میں کتنااضافہ ہو رہا ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے مطابق صوبے کی آمدن 15ارب روپے ہے جبکہ صرف پینشن کی مد میں صوبہ 27 ارب روپے اداء کر رہا ہے جو کہ آنیوالے پانچ سالوں میں 40ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔صوبے میں سرکاری محکموں کی بھی حالت بہتر نظر نہیں آتی بلوچستان ڈولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کئی ماہ سے اپنی تنخواؤں سے محروم ہیں، جامعہ بلوچستان کے اساتذہ و اسٹاف کو دو ماہ قبل تنخوائیں کم آنے پر احتجاج کر رہے تھے جبکہ کوئٹہ میٹرو پولیٹن کے کنٹریکٹ ملازمین بھی اکثر و بیشتر تنخواؤں کیلئے احتجاج کرتے رہتے ہیں۔

ماہر معاشیات اور سابق چیف سیکرٹری بلوچستان محفوظ علی خان کے مطابق صوبے کے سرکاری ملازمین کی تعداد2لاکھ 70 ہزار سے زائدہے جبکہ ان اعداد وشمار میں کیو ڈی اے، جی ڈی اے اورواسا سمیت کئی محکموں کے ملازمین شامل نہیں ہیں جن کی تنخوائیں دینے کیلئے صوبے کے اپنے وسائل نہ ہونے کہ برابر ہیں اُنکے مطابق حکومتوں کا کام نوکریاں دینا نہیں بلکہ روزگار دینے کیلئے نجی سیکٹر کو فعال کرنا ہوتا ہے لیکن جہاں الیکشن جیت کرمقصد صرف اپنے لوگوں کو سرکاری نوکریاں دینا اور اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنا ہو تو وہاں ترقی نہیں ہوتی بلوچستان میں اتنی معدنیات ہیں کہ ان پر کام کیا جائے تو صوبے سے بیروزگاری مٹ جائے گی یہاں سے کئی ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔

لیکن آج تک صوبہ ایک پاور پلانٹ بھی نہیں لگا سکا فشریز، شپ یارڈ اور کوسٹل ہائی ویز پر کام نہیں ہوا ہمارے پاس 750کلومیٹرکا ساحل ہے صرف گڈانی سے گودار تک ساحلی علاقہ دیکھنے والا ہے محفوظ علی خان کے مطابق وہ 35ممالک دیکھ چکے ہیں لیکن بلوچستان کے علاقے جیونی جیسا منظر نہیں دیکھا اُن کا کہناہے کہ جیونی کے ساحل پر بہترین بیچ بن سکتا ہے لیکن وہاں کوئی ایک اچھا ہوٹل تک نہیں ہے اگر رہنے کیلئے مناسب جگہ بنا دی جائے تو دور دورسے لوگ یہاں پکنک منانے آئیں گے اس ہی طرح صوبے کے مشہور مقام زیارت کیلئے بھی کوئی مناسب ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں ہے۔

جبکہ گوادر کے راستے میں ہندؤں کی مذہبی جگہ ہے جسے مذہبی سیاحت کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے اگر صرف پاکستان سے ہی ہندؤ برادری وہاں آنا شروع کردے تو صوبے کو ایک بڑی آمدنی حاصل ہوسکتی ہے وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں بیورو کریسی اور یوتھ کیلئے کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں ہے حالانکہ صوبہ وسائل سے مالا مال ہے روزانہ چاغی سے کراچی تک سینکڑوں پتھروں کے ٹرک جاتے ہیں لیکن ہمارے پاس وسائل نہیں کہ اُنہیں استعمال میں لا سکیں، بلوچستان میں 5لاکھ میٹرک ٹن تک سیب ہیں۔

لیکن باغبان کو اُس میں کچھ خاص بچت نہیں ہوتی یہاں بہت ہی اعلیٰ قسم کی کھجوربھی ہے اگر حکومت نجی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کرکے مختلف مارکیٹ کے ائٹم میں ان اجزاء کا استعمال لائے تو بھی روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے یہاں لائیواسٹاک کی بڑی مارکیٹ بنائی جاسکتی ہے جہاں حلال جانوروں کے ذبح خانے بنا کر گوشت ایران اور افغانستان میں ہی ایکسپورٹ کیا جا ئے تو بہترین ذرمبادلہ حاصل کیا جا سکتاہے محفوظ علی خان کے مطابق صوبے میں ہر سال یونیورسٹیاں تو بن رہی ہیں۔

لیکن اُن میں پڑھنے والے بچوں کے روزگار کیلئے کام نہیں کیا جار ہافارمیسی ڈریپارٹمنٹ سے ہر سال کئی سو بچے پاس آؤٹ ہو رہے ہیں لیکن صوبے کے ہر اسپتال میں صرف ایک فارمیسی ڈاکٹر کی آسامی ہوتی ہے حکومت نے نجی اسپتالوں کو پابند نہیں کیا کہ وہ بھی اپنے اسپتالوں میں فارمیسی ڈاکٹرز کی آسامی لازمی تخلیق کریں جبکہ بلوچستان میں کوئی خاص اسکیل کی ٹرئننگ بھی نہیں دی جا تی صرف بیوٹیشن سلائی کڑاہی اور ویلڈنگ وغیرہ کے کورس ہوتے ہیں کسی قسم کے کوئی انٹرنیشنل اسکیل پر کام نہیں ہو رہا ایک بیچلر آرٹس کی ڈگری لینے والا نوجوان کیا کام کرے گا کم از کم اُس کے پاس کوئی ہنر بھی ہو جسے وہ استعمال کرکے اچھے پیسے کما سکے محفوظ علی خان کے مطابق اگر بلوچستان میں روزگار کے مواقعے جلد پیدا نہیں کیے گئے تو اگلے چند برسوں میں بے روزگاری عروج پر ہوگی۔

ایف ایس سی پاس26سال کے صالح محمدکو معلوم ہے کہ اگر اُسکی گاڑی کی وائرنگ شارٹ ہوگئی یا ایکسڈنٹ ہوا تو اُسکی گاڑی میں آگ لگ جائے گی اوروہ جھلس کر مر جائے گا کیونکہ وہ پنجگور سے کوئٹہ ایرانی پٹرول اور ڈیزل اسمگل کرتا ہے مستقبل قریب میں پرائیویٹ بچلر آرٹس کرنے کا ارادہ رکھنے والے صالح کے مطابق وہ تین دن کے دوران محنت کرنے پر ایک پھیرے میں 5ہزار لیٹر پٹرول ڈیزل اسمگل کرتا ہے جسے کوئٹہ تک پہنچانے میں مختلف چیک پوسٹوں پرچائے پانی کے نام پر ہزار 5سواور 3سو روپے تک دینے کہ بعد لیٹر پر 10 روپے بچتے ہیں جو ایک پھیرے پر 50ہزار بنتے ہیں۔ گزشتہ سال ہی کوئٹہ کی آئی ٹی یونیورسٹی میں پڑھنے والا ایک نوجوان اسمگلنگ کے دوران گاڑی میں آگ لگنے سے جھلس کر موقع پر ہی مارا گیا تھا۔

صالح آج کل مالی طور پر بہت پریشان ہے کیونکہ اکتوبر کے مہینے میں کمشنر مکران ڈویژن طارق زہری کی گاڑی کو بلوچستان کے علاقے قلات کے قریب ایرانی پٹرول کی گاڑی سے ایکسڈنٹ ہوا دونوں گاڑیوں میں آگ لگ گئی حادثے میں کمشنر مکران اپنے گارڈ ز سمیت جاں بحق ہوگئے تھے اس واقعہ کہ بعد بلوچستان حکومت نے ایرانی پٹرول ڈیزل کی اسمگلنگ پر سخت پابندی لگا رکھی ہے اور صالح جیسے ہزاروں لوگ جو پٹرول ڈیزل کے اس کام سے منسلک ہیں نان شبینہ کہ محتاج ہوگئے ہیں گزشتہ سال کے آخری مہنیوں کے دوران اس کاروبار سے وابستہ لوگوں نے گزشتہ دنوں مستونگ کے علاقے میں احتجاجی لانگ مارچ کیا تھا جنہیں پولیس نے گرفتار کرلیا تاہم صوبائی وزیر داخلہ کی مداخلت پر اُن افراد کو رہا کردیا گیا تھا محمد صالح کے مطابق اُنہوں نے کئی صوبائی و وفاقی محکموں کی نوکریوں پر درخواستیں دی ہیں۔

لیکن اُنہیں کام نہیں ملا گھرکے اخراجات پورے کرنے کیلئے اُنہوں نے اسمگنگ کا چناؤ کیا ہے جب سے اس کاروبار پر پابندی لگی ہے اس دوران اُنہوں نے کئی جگہ نوکری کی کوشش کی ہے لیکن کوئی مناسب پرائیویٹ کام بھی نہیں ملا۔ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کے مطابق موجودہ حکومت نے گزشتہ سال 20ہزار نوکریوں کی منظوری دی ہے جن پر بھرتیاں ہوئی ہیں اور کئی پر ابھی ٹیسٹ انٹرویو جاری ہیں جبکہ موجودہ سال 2019-20 کے بجٹ میں 5ہزار مزید نوکریاں رکھی ہیں۔

جبکہ 6000 نوجوانوں کیلئے انٹرنشپ پروگرام بھی لار ہے ہیں نجی شعبے میں روزگارکے مواقعے پیدا کرنے کیلئے حکومت عملی اقدامات کر رہی ہے جو پہلے کبھی نہیں کیے گئے حال ہی میں لائیواسٹاک ایکسپو کروایا گیاہے جسکا افتتاح صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کیاایکسپو میں مختلف کمپنیوں کے مالکان اور سربراہان نے شرکت کی اور بلوچستان میں اپنی سب برانچز بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے جبکہ آنیوالے مہینوں میں حکومت منرلز، ایجوکیشن، ایگریکلچر کے ایکسپو کا انعقاد کر یگی جس کا مقصد ان محکموں کو انڈسٹری کی صورت میں لانا ہے تاکہ نوکریوں کے مواقعے پیدا ہوں۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق سائنسی بنیاد پر تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ بیروزگاری اور مہنگائی سے کوئی انسان ہواس و باختہ ہوجائے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ زیادہ دباؤ یا کسی قسم کی چھوٹی پریشانی ہونے سے جسم میں موجود معمولی بیماری بڑھ جاتی ہے جبکہ انسانی فطرت ہے کہ اگر دباؤ ہو کوئی راستہ نہیں نظر آتا تو چڑچڑا پن اور غصہ انسان کی فطرت میں آجاتا ہے جس سے وہ غلط راستے کا چناؤ کر لیتا ہے اگر ماں باپ کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ ہو اور گھر سے بچے پر پڑھنے یا روزگار لینے کا دباؤ ہو تو وہ غلط فیصلہ کر لیتے ہیں۔

ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کے مطابق صوبے میں گڈنی، حب اور بوستان کے اضلاع میں اسپیشل اکنامک ذون بنا رہے ہیں اور تین اضلاع دالبندین، لورالائی او رخضدار کو ماڈل سٹی بنانے کا پلان بھی جاری ہے اسکے علاوہ ایران افغانستان سرحدوں پر بارڈار بازار بنایا جائے گا ان تمام منصبوں کے عمل میں آنے سے روزگار کے بہت سے مواقعے سامنے آئیں گے جبکہ صوبے کی آمدنی میں بھی بہت اضافہ ہوگا حکومت یوتھ پالیسی بھی مرتب کر رہی ہے جس میں یوتھ ایکسچنج پروگرام ہونگے اور صوبے کے نوجوانوں کو دیگر ممالک کے دورے کرائے جائیں گے تاکہ وہ وہاں سے استعفادہ حاصل کرکے مستفیدہوں۔