کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ”بلوچستان میں سیاحت میں سرمایہ کاری“ پر منعقدہ سیمینار میں جب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال، صوبائی وزراء اور سیکریڑی صاحبان تقریریں فرما رہے تھے تو وہ صوبے میں سرمایہ کاری کے لیے ایسا دل فریب اور حسین منظر نامہ کھینچ رہے تھے کہ گویا سرمایہ کاری کے لیے بلوچستان سے بہتر دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ہے۔ صوبائی وزیر اعلیٰ، ان کے مصاحبین اور ان کے ماتحت افسر شاہی کے بقول تو صوبے میں سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مراعات موجود ہیں جن کی موجودگی میں سرمایہ کاروں کو تو دنیا کے کسی اور خطے کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہیے۔
اس سیمینار میں ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے پیش کی گئی دستاویزی فلموں میں بلوچستان کی ثقافت، موسیقی، موسموں، جغرافیہ، ساحل وغیرہ کے بارے مسحورکن انداز میں سامعین کے شوق سرمایہ کاری کو بھڑکانے کے سارے لوازمات موجود تھے۔ فائیو اسٹار ہوٹل کے آسودہ ماحول میں سرمایہ کاری کے لیے بلوچستان کو منتخب کرنے کے لیے کتنے دلوں نے آمادگی کا اظہار کیا اس کے بارے میں میرا جیسا لکھاری کچھ کہنے سے قاصر ہے۔ یہ پیسے کا معاملہ ہے جس کا ہم جیسے صحافیوں کی زندگیوں میں کم ہی دخل ہوتا ہے کہ جو کچھ کمایا وہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی تحلیل ہو جاتا ہے۔ جب اس لگژری ہوٹل میں خوشنما تصویروں اور گرافوں کے ذریعے بلوچستان کو سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش انتخاب کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا تو ذہن میں ان تصورات، حالات اور واقعات کی یلغار بھی برپا تھی جو اس صوبے سے جڑے ہیں۔
یہ تصورات خیالی اس لیے نہیں ہو سکتے کہ بلوچستان جب بھی میڈیا میں ابھرتا ہے تو کسی اندوہناک سانحے اور اس سیاسی جوڑ توڑ کی خبر اس سے منسلک ہوتی ہے۔ بلوچستان بلاشبہ غیور اور غیرت مند لوگوں کا خطہ ہے اور شاید موجودہ پاکستان میں اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی محب وطن صوبہ ہے کہ ستر برسوں کی زیادتیوں اور نا انصافیوں کے باوجود یہاں چند فیصد علیحدگی پسندوں کے علاوہ عوام وفاق پاکستان میں جڑے رہنے کے حق میں ہیں۔ ایک بار بلوچستان کے نامور صحافی ماما صدیق بلوچ مرحوم سے اس بارے میں استفسار کیا کہ کتنے بلوچ وفاق پاکستان کے حق میں ہیں اور کتنے علیحدگی پسندوں کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔
ماما صدیق بلوچ کے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ نوے فیصد بلوچ آج بھی وفاق پاکستان کے حامی ہیں۔ ہماری ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نوے فیصد کو سو فیصد کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ یہ جملہ غیر معترضہ نہیں ہے کیونکہ جب جب بلوچستان کا ذکر ہوگا تو ماما صدیق بلوچ یاد آئیں گے جو بلوچستان کی سیاست، سماج اور معیشت پر اتھارٹی مانے جاتے تھے۔
سیمینار میں جب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال صوبے کے حالات بدلنے کی بات کر رہے تھے تو ان کے دعوے پر ہنسنے کو دل چاہا۔ جام صاحب خدا جانے کن حالات کے بدلنے کی بات کر رہے تھے۔ اس صوبے کی چال جو پہلے بھی بے ڈھنگی تھی اب بھی پورے آ ب و تاب کے ساتھ ہے۔ یہاں حالات خاک بدلنے ہیں جب چہرے ہی نہ بدل پائیں۔ جو وزیر اعلیٰ حالات بدلنے کی بات کر رہا تھا اس کے حلقے کی ہی صورت حال ملاحظہ کر لیں تو ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ صوبے کی وزارت اعلیٰ جام خاندان کی تین پشتوں کا مقدر بنی۔
ان کے دادا جام قادر اور والد جام یوسف صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے اور اب وہ اس پر مسند نشین ہیں۔ ان کے آبائی حلقے لسبیلہ کا چکر لگا لیں تو معلوم پڑ جائے گا کہ کونسی محیر العقول ترقی اس ضلع میں ہوئی ہے۔ بلوچستان میں سیاسی انجیئنرنگ ایک فن کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ پس پردہ قوتوں کی آشیر باد سے حکومتوں کا عزل و نصب ایک معمول کی کاروائی ہے۔ سیاسی استحکام نامی جنس یہاں عنقا ہے۔ راتوں رات حکومتوں کا تختہ پلٹنے کی روایت بہت پرانی ہے۔
جہاں سیاسی استحکام نہ ہو وہاں معیشت کا پہیہ کیسے گھومے گا اور سرمایہ کار کیونکر اپنے قیمتی سرمائے کو لگائے گا۔ سیاسی استحکامِ اور معیشت باہم جڑے ہوئے ہیں لیکن بلوچستان میں سیاسی استحکام کا تو دور دور تک پتا نہیں۔ ابھی تازہ تازہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبد القدوس بزنجو نے سیاسی مہم جوئی کی کوشش کی لیکن اسے فی الحال دبا دیا گیا۔ لیکن مستقبل قریب میں کچھ ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں۔ بلوچستان کا مقدر خاک بدلے گا جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس صوبے میں اقتدار ہی ایک نظریہ ہے جس میں چند مستثنیات کے علاوہ سارے سیاسی رہنما بندھے ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کس درجہ حوصلہ افزا ء ہے اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے سب سے پہلے جو سوال لوگوں کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا بلوچستان اتنا محفوظ بن چکا ہے کہ وہ بلا خوف و خطر اس کے دور دراز علاقوں تک سفر کر سکتے ہیں۔ ماضی قریب میں خون ریزی کے واقعات اور علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں نے اس صوبے کے بارے میں ایسا خوف و ہراس پھیلا یا ہے کہ آج بھی اس کے بارے میں سوچتے ہوئے دل میں ہول اٹھتا ہے۔ آج بلوچستان میں سرمایہ کار آنے سے پہلے کئی بار سوچے گا کیونکہ اسے بلوچستان میں سرمایہ لگا کر اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنے سے زیادہ اپنا سرمایہ زیادہ عزیز ہے۔ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے لیے پہلے صوبے کو سیاسی طور پر مستحکم کریں کہ جہاں کوئی راتوں رات حکومتوں کو نہ بدل سکے۔
سیاسی انجیئنرنگ کے فن میں طاق ہونے کی بجائے سیاست کے دھارے کو بہنے دیں اور اس میں عام افراد کی شمولیت کو بھی موقع دیں۔ کیا قبائلی سردار اورخوانین کا اسمبلیوں میں پہنچنا اور اقتدار میں شراکت دار ہونا ان کا پیدائشی حق ہے اور مڈل کلاس طبقے کا کام فقط انہیں منتخب کرنا رہ گیا ہے۔ بلوچستان میں یہی تو ہوتا آرہا ہے کہ قبائلی سرداروں کی کثیر تعداد تو اقتدار کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتی رہی ہے اور مڈل کلاس یا تو نوکری کی تلاش میں دھکے کھاتا پھرتا ہے یا پھر ان بے نام منزلوں کا راہی بن جاتا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔