|

وقتِ اشاعت :   February 7 – 2020

کوئٹہ: چیف آف سراوان سابق وزیراعلیٰ و رکن بلوچستان اسمبلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ لالا صدیق بلوچ تحقیقی صحافت پر یقین رکھتے تھے اپنی تحریراور افکار سے لوگوں کو انکے حقوق سے متعلق روشناس کرانے کی جدوجہد کی،وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات منتقل کرنے کیلئے نیا عمرانی معاہدے تشکیل دیکر وفاق تمام اکائیوں کو پالیسی سازی او ملک کے مستقبل سے متعلق فیصلوں کا حصہ بنایا جائے۔

اجتماعی فیصلے ہی ہمارے حق میں بہتر ہیں بلوچستان میں 17 ماہ کے دوران ایک اینٹ نہیں رکھی گئی ہے پوسٹوں کو مشتہر کرکے منسوخ کیا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینئر صحافی و دانشور لالا صدیق بلوچ کی دوسری برسی کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تعزیتی ریفرنس سے بی این پی کے رکن بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار، کوئٹہ پریس کلب کے قائمقام صدر عبدالخالق رند، صدیق بلوچ کے فرزند صادق بلوچ، وحید زہیر ودیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پر صوبائی سیکرٹری زراعت قمبر دشتی، نوابزادہ میر رئیس رئیسانی، بی یو جے کے صدر ایوب ترین سمیت سینئر صحافی اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔

تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف سراوان سابق وزیراعلیٰ و رکن بلوچستان اسمبلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لالا صدیق بلوچ تحقیقی صحافت پر یقین رکھتے تھے جب بھی اکھٹے بیٹھنے کا موقع ملتا تو ہم ملکی اور بین الاقوامی حالات اور سیاست پربات چیت کرتے تھے، صدیق بلوچ طلباء سیاست میں متحرک،پاکستان نیشنل پارٹی کی جدوجہد کا حصہ رہے اور حیدرآباد سازش کیس میں میر غوث بخش بزنجو اور دیگر اکابرین کیساتھ پابند سلاسل بھی ہوئے صدیق بلوچ نے اپنی تحریراور افکار سے لوگوں کو انکے حقوق سے متعلق روشناس کرانے کی جدوجہد کی اور آج ہم پر فرض بنتا ہے کہ اپنے اکابرین اور ساتھیوں کی سیاسی جدوجہد کو آگے لیکر چلیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بلوچستان کے محکوم اقوام کے حقوق کی سیاست میر غوث بخش بزنجو اور نواب غوث بخش رئیسانی سے سیکھا اور میری خوش قسمتی ہے کہ میر دونوں استاد سیاسی لوگ تھے اور صدیق بلوچ کا شمار بھی اسی صف کے اکابرین میں ہوتا ہے۔نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ پاکستان میں تین سے چار آئین بنائے گئے مگر وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے جو ہونے چائیے تھے، آئین ایک راہ متعین کرتی ہے کہ ملک کی باگ دوڑ کو کس طرح چلایا جائے۔

بدقسمتی سے 73 سال گزرجانے کے باوجود سرکاری ملازمین کے سروس رول تک نہیں بنائے جاسکے ہیں کہ کسی سرکاری ملازم کو مدت ملازمت میں توسیع دینی چائیے یا نہیں اگر دینی بھی چائیے تو قانون میں اس کی اجازت ہے بھی یا نہیں اور جب اس قسم کی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں تو پھر لوگ سوچھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے تاکہ وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جاسکیں کیونکہ اٹھارویں ترمیم میں بہت سے چیزیں صوبے کو منتقل ہوئے ہیں مگراب بھی وفاق میں اتھارٹیز قائم کی جارہی ہیں حالانکہ میں ملک میں 1973ء کے آئین اور اٹھارویں ترمیم کے بعد باسویں ترمیم بھی ہوچکی ہے مگر آج تک ان سے ملک کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔

انہو نے کہا کہ وفاق اپنے پاس کرنسی، دفاع او ر خارجی امور کے اختیارات رکھتے ہوئے باقی تمام اختیارات کو صوبوں کو منتقل کرے تاکہ تمام اکائیاں پالیسی سازی او ملک کے مستقبل سے متعلق فیصلوں کا حصہ بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بضد ہے کہ آئین کی عمل داری سے متعلق بات کرنے سے کوئی ناراض ہوجائیگا تو ہم آگئے نہیں بڑھ سکیں گے اس لیے ریاست کا بڑاحصہ عوام پر مشتمل ہے انہیں مطمین کیا جائے، انہوں نے کہا کہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی میں ہم سے کہیں آگے جاچکے ہیں افغانستان کے جی ڈی پی کی شرح 3.2 اور پاکستان کا 2.1 ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدیق بلوچ بھی ان محترم دوستوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ہمیں جدوجہد کی راہ دیکھاتے ہوئے بتایا کہ اجتماعی فیصلے ہی ہمارے حق میں بہتر ہیں نہ کہ انفرادی فیصلہ آج پاکستان میں انفرادی فیصلہ ہورہے ہیں بلوچستان میں 17 ماہ کے دوران ایک اینٹ نہیں رکھی گئی ہے پوسٹوں کو مشتہر کرکے منسوخ کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں عمران خان، جام کمال یاکسی اور کو مورد الزام نہیں ٹھراتا سارے نظام کو دیکھاجائے ریاست کو چلانے کیلئے جو اسٹریکچر ہمیں دیا گیا ہے اس میں بہت ساری خامیاں موجود ہیں جنہیں دور کرتے ہوئے نیا آئین بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک نئے سوشل معاہدے کی ضرورت ہے جس میں صرف تین فنگشنز وفاق اپنے پاس رکھتے ہوئے باقی تمام تین فنگشنزوفاقی اکائیوں کو منتقل کرے اس سے ملک کو بھی نقصان نہیں ہوگا او لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھائے جاسکیں گے اس کیلئے ہر ذہی اور باشعور اور تعلیم یافتہ شہری کو سوچھنے کی ضرورت ہے، لالا صدیق بلوچ، میر غوث بخش بزنجو، خان عبدالغفار خان سمیت تمام اکابرین کی سیاسی شعوری اور فکری جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہے مگر عوام کے تعاون کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں ہر طبقہ فکر کو قوموں کیلئے والی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا چائیے۔

تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکن بلوچستان اسمبلی ثنا بلوچ نے کہا کہ صدیق بلوچ معاشرتی سیاسی عالمی ثقافتی روزگار تعلیم اور صحت کے حوالے سے تحقیق پر مبنی گفتگو کرتے تاکہ صوبے کو پسماندگی،بدحالی غربت افلاس تنگدستی بدحالی سے نکال کر خوشحالی کی طرف لے جاسکے انہوں نے کہا کہ لالا صدیق بلوچ نے بلوچستان میں صحافیوں، سیاسی اور شعوری انداز میں جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کی ایک برگیڈ تیار کی ہے جنہیں دیکھ کر کبھی یہ محسوس نہیں کیا جاسکتاکہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لالا صدیق بلوچ نے سیاسیت اور معیشت کو اپنی تحریر کے ذریعے ایک کوزے میں بند کی ہے جو ہمارے آئندہ نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہونگے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت 6فروری کو لالا صدیق بلوچ کے یوم کے طور پر منانے کا اعلان کرتے ہوئے اس روز صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں سیمینارز کا انعقاد کرائیں۔

تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ لالا صدیق بلوچ کی زندگی کے دو پہلو تھے ایک پہلو سیاسی کارکن اور دوسرا ایک صحافی کا تھا صدیق بلوچ نظریاتی طور پر میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ رہے اور بہ حیثیت وہ پاکستان کے ایک معتبر اخبار سے منسلک رہے اور صدیق بلوچ بلوچستا ن کے معاملات میں دلچسپی لیتے بلکہ وہ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر بھی نظر رکھتے تھے۔

انہوں نے ہمیشہ کوشش کی وہ فکری اور شعوری جدودجہد کے ذریعے اپنے مکالموں اور تحریر کے ذریعے اسلام آباد میں بھیٹے افراد کی توجہ بلوچستان کے سنگین مسائل اور بحرانوں کی طرف مبذول کرائے انہوں نے کہا کہ آج صحافت میں تحقیق کا عنصر کہیں نظر نہیں آرہا ایسے میں نا صرف صحافیوں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی بکھرے نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صدیق بلوچ نے جو بیڑہ اپنے ذمے اٹھا یا تھا اور ضرورت اس بات کی ہے کہ نا صرف صحافی بلکہ سیاسی جماعتیں بھی ان کے وژن اور نظریات کو اپناتے ہوئے جدوجہد کا حصہ رہے تعزیتی ریفرنس سے کوئٹہ پریس کلب کے قائم مقام صدر عبدالخالق رند نے کہا کہ صدیق بلوچ اپنی ذات میں انجمن تھے ان کی انتقال کے بعد میڈیا اکیڈمی کا قیام اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک ہمہ جہد شخصٰت کے مالک تھے صدیق بلوچ نے نامساعد حالات اور وسائل کے باوجود صحافیوں کو آگے بڑھنے کا سبق سکھایا۔

انہوں نے کہا کہ صدیق بلوچ ایک بہت بڑے لکھاری اور دانش ور تھے انکی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنا انتہائی مشکل ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی کاظم مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدیق بلوچ نے ہمیشہ تحقیق پر مبنی صحافت کو فروغ دیا وہ اپنے ضمیر کی آواز پر حقائق بیان کرتے جس کی وجہ سے انہیں بہت ساری مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہاکہ صدیق بلوچ نے بلوچستان کے مسائل کو اپنے اخبار کی شہ سرخیوں میں شائع کیا تعزیتی ریفرنس سے صدیق بلوچ کے فرزند صادق بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدیق بلوچ نے اٹھارہ سال قبل ویب سائٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد صحافت کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا ان کی خواہش پر آج ہم نے یوٹیوب چینل کا افتتاح کیا ہے تاکہ ان کے سوچ اور فکر پر کاربند رہتے ہوئے بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرکے ان کی حل کی راہ ہموار کرسکے۔