|

وقتِ اشاعت :   February 8 – 2020


دنیا میں جس تیزی سے تبدیلی آرہی ہے ، نت نئی ایجادات نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے اسی طرح دنیا کے اےک کونے سے دوسرے کونے تک کسی بھی خبر سے باخبر ہونا اتنا ہی آسان ہوگیا ہے،

چلتے پھرتے ٹیلی وژن آج کل لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو کہ انسانی، علمی ترقی کا مظہر ہے جس سے آج اربوں انسان استفاد کررہے ہیں۔ جس طرح سے وقت تیزی سے بدلتاجارہا ہے، دنےا اتنا ہی علم جدیدیت کی طرف گامزن ہوچکاہے۔

سائنسی علوم کے بغیر ترقی یافتہ ممالک کامقابلہ کرنا نا ممکن ہے ،اگر تعلیم کو محدود اور روایتی ڈگر پر رکھا جائے گا تو قوموں کی ترقی اور مستقبل مکمل تاریک ہوجائے گی ۔آج دنیا کے بیشتر ممالک ایک دوسرے کو مات دینے کیلئے جنگی سازوسامان سے زیادہ جدیدٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں
اس میں معاشی استحکام اےک اہم عنصر کے طور پر شامل ہے۔

آج دنیا کے سپر پاور ممالک کے درمیان معاشی جنگ چل رہی ہے اور اسے جیتنے کیلئے ان کا پہلا استعمال ٹیکنالوجی ہے جہاں پر آج روایتی طرز تعلیم سے لیکر معاشی سرگرمیوں کو رد کرتے ہوئے جدیدیت میں ڈھانپنے کی کوشش کیلئے نت نئی ایجادات پر باقاعدہ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔

اس مقابلہ کی دوڑ میں ہر ممالک وسائل کا بھرپور استعمال کررہی ہے تاکہ اس سے وہ اپنے معاشی اہداف حاصل کرسکےں، جب معیشت مضبوط ہوگی تو وہاںکے لوگوں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوگی، اسی طرح ملکی دفاع بھی مضبوط اور ناقابل تسخیر بن جاتی ہے۔
آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں معاشی تبدیلی صرف جدیدعلمی تقاضوں سے آئی ہے کوئی ایسا شعبہ نہیں کہ جس کی بہتری کیلئے ٹیکنالوجی کا سہارا نہ لیا گیا ہو۔
ہمارے یہاں جدید ٹیکنالوجی چند عرصہ قبل ہی آئی ہے بدقسمتی سے ہمارے یہاں جدیدسائنسی علوم پرکبھی توجہ نہیں دی گئی کہ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کیاجاسکے۔
بہرحال موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق جدیدیت کو اپنانا ناگزیر ہوچکا ہے اس کے لئے ضروری ہے
کہ روایتی طرزتعلےم کو ردکرتے ہوئے جدید علم کے حصول کیلئے سرمایہ کاری کی جائے تاکہ مستقبل کے نہ صرف چیلنجز کا مقابلہ کےا جاسکے بلکہ ترقی کے حوالے سے اہداف کو حاصل کیاجاسکے۔
ہمارے ادارتی صفحات مےں ہمیشہ اس اہم معاملے کو اٹھایا گیا اور خاص کر بہترین تعلیم کی فراہمی پرزور دیا گیاکہ بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہونے کے باوجود تعلیم سمیت ہر شعبہ زندگی میں پیچھے رہ گیا ہے مگر کسی نے اس اہم مسئلہ پر خاص توجہ نہیں دی اور نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ
بلوچستان ملک کے دیگر حصوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ پسماندہ رہ گےاہے ۔

سب سے پہلی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کو اہمیت دیتے ہوئے اس کی ترقی مےں عملی طور پر کردار ادا کریں۔ ماضی میں یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ ہر حکمران تعلیم کی ترقی کے صرف دعوے کرتی آئی ہے
مگر عملاََ کچھ نہیں کیا،گزشتہ صوبائی حکومت نے یونیورسٹیوں کی بنیادرکھی جسے سراہا گیا مگر اس کے ساتھ پرائمری سطح سے لیکر میٹرک تک تعلیم کو جدید خطوط پر استوارکرنا ضروری ہے کیونکہ آنے والے وقت میں مقابلہ مزےد سخت ہوگا جس کیلئے پہلے سے تیاری ضروری ہے۔
آزادی ڈیجیٹل نیوز کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ بلوچستان کے سیاسی، معاشی،سماجی معاملات کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیاجائے جس طرح ڈیلی بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی میں لالہ صدیق بلوچ نے بلوچستان کامقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا اور جب تک وہ حیات تھے
تو ان کی خواہش تھی کہ آزادی ڈیجیٹل نیوز کی بنیاد رکھی جائے مگر زندگی نے ساتھ نہیں دیا اور لالہ صدیق بلوچ ہم سے جداہوگئے مگر آج آزادی ڈیجیٹل نیوز کی بنیاد رکھ دی گئی ہے
اور لالہ صدیق بلوچ کے اس مشن کو آج جدید تقاضوں کے مطابق آگے لے جاےا جارہاہے کیونکہ میڈیا کامستقبل جدید ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوچکاہے اس لئے وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق اس نئے سفر کی طرف آزادی ڈیجیٹل نیوز نے بھی قدم رکھ دیاہے

اور یہ اعزاز بھی آج روزنامہ آزادی کو حاصل ہے کہ وہ بلوچستان کا واحد ڈیجیٹل نیوز بن گیا ہے۔ امید ہے کہ عوام کی بھرپور حوصلہ افزائی ہمےشہ کی طرح ادارے کے ساتھ ہوگی اور ہمارے حوصلوں کو جِلا بخشتی رہے گی ۔