کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلا س میں نواب اسلم رئیسانی نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپ کی جگہ اپوزیشن بینچوں پر ہے یہاں آجائیں جبکہ صوبائی وزراء و اراکین اسمبلی نے چمن شاہراہ پر لوگ ماورائے عدالت گرفتاریوں،پنجگور سے فلائٹس کی بندش اور کوئٹہ میں کینسر وارڈ کے افتتاح کے موقع پر شرکت کی دعوت نہ دیئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو پتہ نہیں یہ گرفتاریاں کس نے اور کس وجہ سے کی ہیں ہم اپنے عوام کی خدمت کررہے ہیں۔
وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت اپوزیشن کواہمیت دے، بدھ کے رو ز اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور رکن بلوچستان اسمبلی نواب محمد اسلم رئیسانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی کوشش کی اور فلور مانگا کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر بات کرنا چاہتے ہیں تو سپیکر نے پوچھا کہ آپ کیا بات کریں گے جس پر نواب محمد اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے کیا کیا ہے۔
یہ مجھ سے زیادہ آپ کو اچھی طرح پتہ ہے اس حکومت نے ہمارے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا انہوں نے اپوزیشن بینچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب سپیکر آپ کی جگہ وہ نہیں یہ ہے یہاں آجائیں جس پر ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا اور دیر تک تالیاں اور ڈیسک بجائے جاتے رہے۔
پوائنٹ آف آرڈر پرعوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کوئٹہ چمن شاہراہ کی بندش کا نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کل سے چمن شاہراہ بند ہے کیونکہ لوگ ماورائے عدالت گرفتاریوں پر احتجاج کررہے ہیں کسی کو پتہ نہیں کہ یہ گرفتاریاں کس نے اور کس وجہ سے کی ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ملک نصیر شاہوانی نے مزید کہا کہ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ نے میرے حلقے میں واقع شیخ زید ہسپتال میں کینسر وارڈ کا افتتاح کیا حلقے کے نمائندے کی حیثیت سے مجھے بھی پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی مگر وہاں پر میرے لئے نہ تو کسی نشست کا اہتما م کیا گیا تھا اور نہ ہی ایک ایم پی اے کا پروٹوکول دیا گیا افتتاحی تقریب ایک سیاسی جماعت کی تقریب کا منظر پیش کررہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں حلقے کا منتخب نمائندہ ہوں اور حلقے کے عوام نے بی این پی کو مینڈیٹ دیا اور ہم اپنے عوام کی خدمت کررہے ہیں وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت اپوزیشن کواہمیت دے۔ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر اسد بلوچ نے پنجگور سے فلائٹس کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ 80کی دہائی میں پنجگور سے فلائٹس کا سلسلہ شروع ہوا اور ایئر پورٹ بنایا گیا۔
اس وقت پنجگور کی آبادی 1لاکھ 60ہزارتھی اور ہفتے میں چار فلائٹس شروع کی گئیں لیکن جوں جوں پنجگور کی آبادی بڑھتی رہی فلائٹس کی تعداد کم ہوتی رہی اور اس وقت جب پنجگور کی آبادی چارلاکھ سے تجاوز کرچکی ہے گزشتہ کافی عرصے سے پنجگور ایئر پورٹ بند اور فلائٹس کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے جس سے پنجگور کے عوام میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہرا معیار بند ہونا چاہئے جو حقوق لاہور اور کراچی کے لوگوں کے ہیں وہی حقوق پنجگور کے شہریوں کے بھی ہیں پنجگور سے فلائٹس کا سلسلہ شروع کیا جائے ورنہ ہم احتجاج پر مجبور ہوں گے۔