کوئٹہ: ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابرموسیٰ خیل نے صوبے میں سوئی گیس کے پریشر میں کمی کے مسلے کے حل کیلئے وفاقی سیکرٹری پٹرولیم، ایم ڈی او ر جی ایم سوئی سدرن گیس کمپنی کو کوئٹہ طلب کرتے ہوئے ڈی جی پی ڈی ایم اے کو حالیہ بارشوں اور برفباری کے دوران کئے گئے اخراجات کی مکمل تفصیل ایوان کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی،ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی بابر موسی خیل نے یہ رولنگ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے گئے۔
اجلاس میں دی،اس سے قبل دور روز تک جاری رہنے والے اجلاس میں موسم سرما میں گیس پریشر اورحالیہ برفباری اوربارش کے بعدمسائل اور امن وامان کی صورتحال پربحث کی گئی ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن اراکین نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور برف باری کے دوران عوام مشکلات کا شکار رہے مگر حکومت نظر نہیں آئی،امدادی سامان ضرورت مند افراد تک نہیں پہنچا،قدرتی افات سے نمٹنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ جبکہ صوبائی وزراء اور حکومتی اراکین نے اپوزیشن کے موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے متاثرین کی ہر ممکن مدد اور معاونت کی جس کا اعتراف خود اپوزیشن اراکین بھی کرتے رہے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کا خصوصی اجلاس جمعرات کو ڈیڑ ھ گھنٹے کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں حالیہ شدید برفباری، بلوچستان میں مہنگائی و اشیائے خوردونوش کی قلت اور بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا حالیہ برفباری اور بارشوں سے جہاں زمینداروں اور مالداروں کو فائدہ ہوگا وہاں حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مستقبل میں اس قسم کی مشکلات سے بچنے کے لئے قبل ازوقت اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات کے دوران متاثرین کی امداد کے لئے پی ڈی ایم اے کا محکمہ تو موجود ہے لیکن ایسی صورتحال میں وہ متاثرہ علاقوں میں ضلعی انتظامیہ کو ساتھ لے کر کام کرتا ہے گزشتہ سال بھی بارشوں سے تباہ کاریاں ہوئیں حکومتی سطح پر ان کی امداد کی کااعلان کیا گیا متاثرین کی فہرستیں تیار ہوئیں اور جب ہم امداد کی بابت پوچھتے تو بتایا جاتارہا کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے منظوری کے بعد متاثرین کی امداد کی جائے گی مگر آج دن تک ایسا نہیں ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ اس بار بھی شدید بارشوں اور برفباری کے بعد مین شاہراہیں تو کھول دی گئیں مگر مختلف آبادیوں کو ملانے والی سڑکیں آخر تک نہ کھولی جاسکیں جن کے گھر گرے ان کی بھی امداد نہیں کی گئی حالانکہ قدرتی آفات کے بعد جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے یہاں پر ضلعی انتظامیہ کے پاس مشینری اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بھی امدادی کاموں میں تاخیر ہوئی آئندہ اس کا سدباب ہونا چاہئے۔
مہنگائی پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت پورے ملک میں مہنگائی کے باعث کرب اور اذیت کا شکار ہیں سندھ اور پنجاب میں کارخانے اور روزگار کے دوسرے ذرائع بھی موجود ہیں لیکن بلوچستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ روزگار کے انتہائی محدود ذرائع ہونے کی وجہ سے مہنگائی کے باعث یہاں کے عوام کا بڑی مشکل سے گزارا ہورہا ہے محدود آمدنی میں تعلیم اور صحت تو درکنار دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت خود اس بات کا اعتراف کرچکی ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات پر اضافی ٹیکس لے رہی ہے صرف ڈیڑھ سال کے دوران ایک رپورٹ کے مطابق ڈیزل پر2کھرب43ارب، پٹرول کی مد میں 1ایک کھرب89ارب، مٹی کے تیل کی مد میں 54اور لائٹ ڈیزل کی مد میں 50ارب روپے قومی خزانے میں جمع کئے گئے وفاقی حکومت بتائے کہ خزانے میں جمع ہونے والے کھربوں روپے کہاں خرچ کئے گئے۔
امن وامان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب معاشرے میں قانون کا طاقتور اور کمزور پر یکساں اطلاق نہ ہو تو وہاں امن وامان کے مسائل جنم لیتے ہیں قانون کے یکساں اطلاق، کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنا کر امن وامان کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اس موقع پر سپیکر نے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ وزراء کی غیر موجودگی میں پی ڈی ایم اے اور محکمہ داخلہ کے سیکرٹری و دیگر اعلیٰ حکام کی اسمبلی میں موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔
اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ وزیراعظم کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے بیان کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ریکوڈک کے سونے سے ملک کے قرضے اتاریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جو بھی حکمران آتے ہیں ان سمیت اشرافیہ کی نظر ہمیشہ بلوچستان کے وسائل پر ہوتی ہے اس وقت پاکستان کیمجموعی قرضے 35ہزار ارب سے تجاوز کرچکے ہیں جن میں 16ہزار275ارب روپے کے بیرونی قرضے بھی شامل ہیں ریکوڈک کی مالیت77ہزار ارب روپے سے زائد ہے اگر وفاق ریکوڈک کسی کو دے دیتا ہے تو اس سے ملک کے قرضے تو ختم ہوجائیں گے لیکن یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی آئین اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت معدنی وسائل پر صوبوں کا اختیار ہے اس کے باوجود وزیراعظم کی جانب سے ریکوڈک کے حوالے سے یہ ان کا دوسرا بیان آیا ہے۔
ہم ان پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ معدنی وسائل پر اب وفاق کا کوئی اختیار نہیں ہے بلوچستان کو یتیم خانہ سمجھ کر اس کے وسائل پر ہمیشہ حکمرانوں کی نظریں رہی ہیں جبکہ یہ بلوچستان اسمبلی کا مینڈیٹ ہے کہ یہاں کے معدنی وسائل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرے اور بلوچستان کے وسائل بلوچستان کی ترقی کے لئے ہیں وفاق کے قرضے اتارنے کے لئے نہیں آئندہ وفاق کی جانب سے ایسے بیانات سے گریز کیا جائے۔
انہوں نے زور دیا کہ حکومتی ارکان بھی بلوچستان کے وسائل کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے معدنی وسائل بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہیں ہم اس ملک کے شہری ہیں اور اس ملک کا آئین ہمیں ہمارے معدنی وسائل کے حوالے سے تحفظ دیتا ہے تقاریر کی بجائے ہم نے چیزوں کو عملی طو رپر لے کر آگے چلنا ہوگا صوبے اور یہاں کے عوام کے مفاد میں حکومت اور اپوزیشن سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہوگا۔
ثناء بلوچ کی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود ہیں اگر ان کی جماعت اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھائے تو یہ مسئلہ زیادہ بہتر انداز میں اجاگر ہوگا جس پر ثناء بلوچ نے کہا کہ ہم نے صوبائی اسمبلی میں 2018ء کے اواخر میں صوبے کے معدنی وسائل کے حوالے سے بحث کی جس کے بعد اس حوالے سے ایوان کی کمیٹی بنی مگر اس کمیٹی کا بدقسمتی سے اب تک ایک ہی اجلاس ہوا ہے بلوچستان نیشنل پارٹی وفاق میں بھی اس مسئلے کواٹھائے گی اورپارلیمنٹ میں اس پر بھرپور احتجاج کریں گے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حالیہ شدید بارشوں اور برفباری سے 26اضلاع کو متاثرہ قرار دیا گیا ہے چند سال قبل بلوچستان شدید خشک سالی کا شکار رہا جس سے ہماری زراعت اور گلہ بانی تباہ ہو کر رہ گئی تھی اور ایسے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ متاثرہ اضلاع سے بہت بڑے پیمانے پرلوگ نقل مکانی کرجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور بارشوں و برفباری کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو موسم کے عین مطابق ہے جس سے ہماری زراعت او رمالداری کے شعبوں کو بھرپور فائدہ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ کئی ماہ قبل بارشوں اور برفباری کی پیشگوئی کردی گئی تھی مگر حکومت اور ذمہ دار محکموں نے حالات سے نمٹنے کے لئے قبل از وقت کوئی اقدامات نہیں کئے اگر عوام کو بروقت صورتحال سے آگاہ کردیا جاتا اور متعلقہ محکمے کو فعال کردیا جاتا تو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا حکومتی نااہلی کے باعث کان مہترزئی سمیت مختلف علاقوں میں کئی کئی روز تک لوگ اور گاڑیاں پھنسی رہیں کئی کئی دن تک وہاں مشینری نہیں بھیجی جاسکی میرا حلقہ کوئٹہ کے نواحی علاقوں پر مشتمل ہے وہاں برفباری سے رستے بند ہوگئے متعلقہ حکام سے گریڈر مانگے تو ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کو کہا گیا جب وہاں بات کی گئی تو انہوں نے مجھے خود ٹریکٹر کا بندوبست کرنے کو کہا اور یقین دلایا کہ بعد ازاں اس کی ادائیگی کردی جائے گی۔
صورتحال یہ رہی کہ لوگوں نے متاثرہ علاقوں میں ازخود رستے کھولے اب تک برفباری اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا سروے تک نہیں کیا گیا ہے امداد تو دور کی بات ہے امن وامان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جس صوبے میں امن وامان پر 40ارب روپے سالانہ خرچ کئے جاتے ہوں اور وہاں امن وامان کی یہ صورتحال ہوتو اس پر صبرہی کیاجاسکتا ہے۔
بی این پی کی رکن شکیلہ نوید دہوار نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈی جی پی ڈی ایم اے کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ قلات اورمستونگ میں حالیہ بارشوں اور برفباری کے دوران متاثرین کی امداد کے لئے جب میں نے ڈی جی پی ڈی ایم اے سے رابطہ کیا تو بجائے اس کے کہ وہ عوام کی داد رسی کرتے انہوں نے موقف اختیار کیا کہ آپ لوگ،لوگوں کو بھیک مانگنے کا عادی بنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے چار سے پانچ مراسلے ڈی جی پی ڈی ایم اے، ضلعی انتظامیہ اور دیگر حکام کو بھیجے ہیں تاہم اب تک متاثرین کی کوئی داد رسی نہیں ہوسکی ہے پی ڈی ایم اے کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شدید بارشوں اور برفباری سے متاثرہ مستونگ کے لوگوں کے لئے صرف نمک بھیجا گیا ہے پی ڈی ایم اے کے پاس کوئی اعدادوشمار نہیں ہیں کہ قدرتی آفات کے دوران کس پیمانے اور کتنے نقصانات ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا زور دکانداروں، ریڑھی بانوں اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے لوگوں پر نکالا جاتا ہے آج تک کسی نے ذخیرہ اندوزوں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا سوچا تک نہیں حالیہ مہنگائی میں پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والا شخص ایک وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔
انہوں نے کوئٹہ کراچی شاہراہ کو دورویہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک دہشت گرد شاہراہ ہے اتنے لوگ دہشت گردی کے واقعات میں نہیں مارے گئے جتنے لوگ اس خونی شاہراہ پر ٹریفک حادثات میں شہید ہوئے ایک سال کے دوران آٹھ ہزار افراد لقمہ اجل بنے جبکہ حالیہ چار مہینوں کے دوران30کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ٹول پلازے تو قائم کئے جاتے ہیں لیکن کہیں بھی موٹروے پولیس کا نام و نشان تک نہیں سی پیک کے تحت ملک کے دیگر صوبوں میں میگا منصوبے شروع کئے گئے ہیں مگر افسوس کہ بلوچستان میں ستر سال بعد بھی اس اہم قومی شاہراہ کی تعمیر ممکن نہیں ہوسکی ہے آئے روز پیش آنے والے حادثات کی ذمہ داری مسافر گاڑیوں پر ڈال دی جاتی ہے لیکن آج تک نہیں سوچا گیا کہ حادثے میں شہید ہونے والے ڈرائیور، کنڈکٹر یا مزدور پیشہ افراد کے لواحقین پر کیا بیت رہی ہے نہ ہی کسی کو معاوضہ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی این پی نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں شاہراہ کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص کرنے کی تجویز دی ہے جس پر عملدرآمد یقینی بنا کر قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے روکا جاسکتا ہے۔بی این پی کے رکن اخترحسین لانگو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حالیہ بارشوں اور برفباری کے اثرات سے بلوچستان کے لوگ باہر نکلنے کے لئے نوافل ادا کررہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم اے کے افسران بھی نوافل ادا کررہے ہیں کہ اللہ ایسی کوئی اور آفت بھیجے تاکہ ان کی جیبیں بھر سکیں اس سے قبل زیارت اور آواران میں آنے والے زلزلوں میں محکمے کے افسران کروڑ پتی بن گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ برفباری کے دوران جس طرح ملک بھر سے سیاحوں نے برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لئے بلوچستان کا رخ کیا انہی کی طرح ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بھی ایک سڑک پر کھڑے ہوکر تصویر بنوائی جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تاہم حقیقت یہ ہے کہ دس روز تک مسافرشاہراہوں کی بندش کے باعث گاڑیوں میں محصور رہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کے پاس قدرتی آفات کے دوران عوام کو ریسکیو کرنے کے لئے بنیادی مشینری بھی نہیں ہے جبکہ ریڈ کریسنٹ اور یو این ایچ سی آر کے کمبل لوگوں میں تقسیم کئے گئے انہوں نے کہا کہ اگر پی ڈی ایم اے کوفعال نہیں کیا جاسکتا تو اس کے اختیارات انتظامی افسران کو تفویض کردیئے جائیں۔
انہوں نے ایوان میں پی ڈی ایم اے کے حکام کی عدم موجودگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افسران کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ آج ایوان میں ان کا کچا چٹھا کھولا جائے گا اس لئے وہ نہیں آئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت اپنے لوگوں کو نوازنے کے لئے جتنی رقم خرچ کررہی ہے وہ رقم بلوچستان میں امن وامان کے قیام اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔
جمعیت علماء اسلام کے رکن انجینئر یونس عزیز زہری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ضلع خضدار میں سوئی گیس نہیں ہے لہٰذا میں اس بحث میں نہیں پڑتا۔انہوں نے کہا کہ خضدار میں حالیہ بارشوں اور ژالہ باری سے لوگوں کے کافی نقصانات ہوئے جن کے ازالے کے لئے جب میں نے پی ڈی ایم اے کے ڈی جی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو مجھے کہا گیا کہ وہ نماز ادا کررہے ہیں اور مسلسل میں نے رابطے کی کوشش کی لیکن وہ نماز ہی میں مصروف رہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے حالیہ بارشوں اور برفباری کے دوران جتنے فنڈز خرچ ہوئے ہیں اور جو سامان تقسیم ہوا ہے اس کی مکمل تحقیقات کرائی جائیں۔جمعیت علماء اسلام کے میر زابد ریکی نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور برفباری سے صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی نقصانات ہوئے ہوں گے۔
لیکن بد قسمت او رمظلوم ضلع واشک میں اس بناء پر نقصانات زیادہ ہوئے کہ وہاں آخر تک پی ڈی ایم اے، حکومت اور انتظامیہ نے متاثرین کی کوئی داد رسی نہیں کی تحصیل ماشکیل اور تحصیل بسیمہ میں بہت نقصانات ہوئے میں نے فوری طور پر پی ڈی ایم اے حکام، وزیراعلیٰ صاحب اور متعلقہ وزراء سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی حکومت کی عدم توجہی کا عالم یہ ہے کہ آج اپوزیشن نے بلوچستان کے انتہائی اہم ایشوز پر ریکوزیشن پر اجلاس طلب کیا ہے لیکن افسران بھی موجود نہیں اور وزراء بھی غیرحاضر ہیں آج اگر حکومتی اراکین موجود ہوتے تو وہ سنتے کہ ہم ان کے سامنے کن اہم ایشوز کو اٹھارہے ہیں۔
انہوں نے وزیر پی ڈی ایم اے سے مطالبہ کیا کہ بسیمہ اور ماشکیل سمیت ضلع واشک کے تمام علاقوں میں جہاں جہاں بارشوں سے نقصانات ہوئے ہیں فوری طور پر متاثرین کی داد رسی کی جائے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر اکبر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافیاں ہوتی آئی ہیں سب سے پہلے گیس ہمارے صوبے سے دریافت ہوئی لیکن خود ہمارے صوبے کے اکثر علاقے آج بھی گیس سے محروم ہیں۔
جہاں جہاں گیس پہنچائی گئی وہان حالت یہ ہے کہ سردیوں میں گیس بند کردی جاتی ہے اور گرمیاں شروع ہونے پر بجلی کی فراہمی بند کردی جاتی ہے اب ایسے حالات میں عوام احتجاج نہ کریں تو کیا کریں آج بھی خضدار کے اکثریتی علاقوں میں بجلی کی فراہمی بند ہے کیسکو کی کارکردگی یہ ہے کہ ٹرانسفارمز کی مرمت کئی کئی ہفتوں تک نہیں ہوتی جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام تو ہماری باتوں کو سنجیدگی سے ہی نہیں لیتے صوبائی حکومت اگر وفاق میں اس اہم مسئلے کو حل نہیں کراسکتی تو صرف ایک کام کرے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایم ڈی اور بعض دیگر افسران کو صوبہ بدر کردے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ کوئی افسر بلوچستان کے عوام کو بے جا طور پر تنگ نہیں کرے گا انہوں نے بارشوں اور برفباری کے دوران حکومتی کارکردگی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج بھی بلوچستان کے ایسے علاقے ہیں۔
جہاں برفباری کے بعد اب تک راستے بند ہیں۔ برفباری کے دوران قومی شاہراہیں بند ہوگئیں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کیا اپنی روایات کے مطابق ان کی مہمانداری کی اور ان کی مدد کی لیکن حکومت بہت دیر سے جاگی انہوں نے کہا کہ صوبے میں گڈ گورنس کی حالت یہ ہے کہ صحت کے شعبے میں سب سے بڑے ادارے ایم ایس ڈی میں 25کروڑ کی دو نمبر ادویات موجود ہیں دو نمبر ادویات کا مطلب ہے کہ آپ لوگوں کوزہر دے رہے ہیں یہ اہم مسائل ہیں جن پر قانون سازی کرکے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اس وقت صوبے کے مسائل میں دلچسپی لے گی جب صوبے سے ان پر دباؤ ہوگا صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وفاق سے بات کرے۔ جمعیت علماء اسلام کے اصغر علی ترین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ضلع پشین میں حالیہ برفباری کے دوران کئی دنوں تک لوگ گھروں میں محصور رہے یہ تمام لوگ مزدور پیشہ ہیں رابطہ سڑکیں منقطع ہونے سے متاثرہ علاقوں تک رسائی ناممکن تھی بجلی اور گیس نہ ہونے سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ برفباری اور بارشوں کے دوران امدادی سرگرمیوں سے متعلق حکومت نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا حکومت ہمیں اپوزیشن میں ہونے کی سزا دے رہی ہے مگر اس میں ہمارے حلقوں کے لوگوں کا کیا قصور ہے کہ ہم اپوزیشن میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات کے دوران ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے اور جو اموات ہوئی ہیں ان کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں اکثر لوگ سفید پوشی کی زندگی گزار رہے ہیں جو کسی سے کچھ نہیں مانگتے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی داد رسی کرے۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے بھی بارشوں اور برفباری کے دوران حکومتی کارکردگی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ برفباری سے متاثرہ علاقوں میں رابطہ سڑکیں اور نیشنل ہائی وے شاہراہ کان مہترزئی کے مقام پر دس دنون تک بند رہی اس دوران لوگوں کو تکالیف اٹھانی پڑیں توبہ اچکزئی کے متاثرہ علاقوں میں ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے 14گھرانوں کے لئے راشن فراہم کیاگیا۔
اس دوران لوگوں کی اموات بھی ہوتی رہیں تاہم صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے ہمدردی کے دو بول بھی ادا نہیں کئے گئے متاثرہ علاقوں میں پشتونخوا میپ کے مقامی عہدیداروں نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو ریسکیو کیا حکومت ناکامی پر عوام سے معافی مانگے انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات کے دوران ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیاجائے تاکہ لوگوں کے نقصانات کاازالہ ہوسکے۔
انہوں نے امن وامان کی صورتحال کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک قبائلی شخص کے نجی جیل سے 25کے قریب لوگوں کو بازیاب کرایاگیا جب انسانوں کے ریوڑ کو اغواء کیا گیا تو اس وقت حکومت کہاں تھی صوبے میں اغواء برائے تاوان کی واراداتوں میں اضافہ ہورہا ہے سید غوث اللہ، حضرت خان خلجی، نجیب اللہ اسحاق زئی اور ڈی ایس پی امان اللہ اسحاق زئی کے قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوسکے حکومت ان واقعات کا نوٹس لے۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں اظہار رائے، جلسے جلوس اور تقریر کی آزادی حاصل ہے 9فروری کولورالائی میں ڈپٹی کمشنر سے جلسے کی اجازت لینے کے باوجود جلسہ گاہ سے ساؤنڈ سسٹم، کرسیاں اور قالین تک اٹھا لئے گئے اور جلسے کے روز دروازے بند کردیئے گئے ایسے واقعات آمریت کے دورمیں بھی رونما نہیں ہوئے پارٹی کی سابق خاتون رکن اسمبلی کے ساتھ دس کے قریب خواتین کو لورالائی میں داخل ہونے سے روکا گیا اور حراست میں لیا گیا کئی۔
گھنٹوں کے بعد انہیں رہا کیا گیا جلسے کے بعد 34افراد کے خلاف مقدمات درج کئے گئے گزشتہ روز بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے ان مقدمات کو ختم کیاگیا انہوں نے کہا کہ عبدالغفار اتمانخیل، ملا بہرام اور قاسم اچکزئی کو16ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا پارٹی کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور قبائلی معتبر سردار گل مرجان کبزئی کے شناختی کارڈ اور لوکل سرٹیفکیٹ کو منسوخ کیا گیا ہے آئین کے تحت ڈپٹی کمشنر کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ کسی معزز شخصیت کی شہریت کو منسوخ کرے انہوں نے کہا کہ ہرنائی میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے واقعات سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جائے۔ انہوں نے مہنگائی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک کا جی ڈی پی شرح آبادی سے نیچے چلا جانا ملک کی تباہی و بربادی کا آخری زینہ ہوتا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کی رکن شاہینہ مہترزئی نے نصراللہ زیرئے اور دیگر اپوزیشن اراکین کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے برفباری کے دوران مختلف علاقوں میں متاثرین کی بروقت داد رسی کی انہوں نے کہا کہ کان مہترزئی کے مقام پرقومی شاہراہ کے دس روز تک بند ہونے سے متعلق اپوزیشن رکن کی بات درست نہیں میں خود وہاں موجود تھی۔
حلقے سے منتخب رکن اسمبلی، وہاں کے لوگ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں انہوں نے کہا کہ جن علاقوں تک رسائی ممکن نہیں تھی وہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے لوگوں کو امداد فراہم کیا گیا اور میں بذات خود حکومتی نمائندہ ہونے کے ناطے کان مہترزئی اور مسلم باغ میں اپنی گاڑی میں امدادی اشیاء تقسیم کرتی رہی انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اراکین خود پی ڈی ایم اے سے حاصل ہونے والی امدادی اشیاء تقسیم کرتے رہے اور اب انکاری ہیں۔
جمعیت علماء اسلام کے عبدالواحد صدیقی نے کہا کہ برفباری سے میرے حلقے کے26میں سے23یونین کونسلز بند رہے کان مہترزئی اور مسلم باغ کے درمیان صرف پندرہ کلو میٹر کا فاصلہ ہے مگر یہ سڑک بھی سات دن تک بند رہی جس کی وجہ سے لوگ پھنسے رہے خانوزئی میں ہم نے خود جاکر لوگوں کو نکالا اس دوران حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آئی حکومتی ذمہ داران صرف ہیلی کاپٹر میں آکر علاقے کاجائزہ لے کر چلے گئے۔
ہم نے ذاتی طو رپر گریڈر اور دوسری مشینری کا انتظام کیا نااہل حکومت کی وجہ سے اللہ کی رحمت کو لوگوں کے لئے باعث زحمت بنادیا گیا یہ عوام کی منتخب حکومت نہیں نااہل حکومت کسی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی برفباری کے بعد اب ندی نالوں میں پانی آنے کی وجہ سے ہمارے رستے بدستور بند ہیں حکومتی اور اس کے متعلقہ اداروں کی کارکردگی صرف فوٹو سیشن تک محدود رہی قبل از وقت اطلاع کے بعد حکومت اقدامات کرتی اور مشینری بھیج دیتی تو نہ راستے بند ہوتے نہ ہی لوگوں کو تکلیف ہوتی۔ صوبائی مشیر ملک نعیم بازئی نے کہا کہ بارش اور برفباری اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے اس پر ہمیں خوش ہونا چاہئے۔
برفباری کے بعد مجھ سمیت دیگر حکومتی اراکین اور سرکاری اہلکار مختلف علاقوں میں انتظامیہ کے ساتھ مل کر سڑکوں کو آمدورفت کے لئے کھولتے رہے جبکہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے ہر جگہ متاثرین کو بروقت امداد فراہم کی گئی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے انتہائی اہم مسائل پر یہاں بحث ہورہی ہے مگر یہاں پر نہ تو حکومتی ذمہ داران موجود ہیں اور نہ ہی سرکاری حکام ہیں آج کے اجلاس کا مقصد ان مسائل کے حل کے لئے گفت و شنید کرکے پالیسی بنانا تھا انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی بہت بڑی برفباری یا بارشیں بھی نہیں ہوئیں ترقیافتہ ممالک میں کئی کئی ماہ تک اس سے کہیں زیادہ بارشیں اور برفباری ہوتی ہے لیکن وہاں بہتر پالیسیوں کی وجہ سے نہ تو کوئی نقصانات ہوتے ہیں اور نہ ہی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ملازمین اور اداروں کے ملازمین کی تعداد چار سے پانچ لاکھ کے درمیان ہے تین سو ارب روپے کا غیر ترقیاتی بجٹ بھی موجود ہے اتنا بجٹ ایک اچھی حکومت چلانے کے لئے رکھا جاتا ہے لیکن یہاں کسی کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
اس کا حکومت کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ہمارے لوگ دو دو دن تک برفباری میں پھنسے رہے جدید دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے عوام کو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا افسوسناک ہے اگر حکومت بہتر اقدامات کرتی تو اس برفباری کو تفریح کاموقع بنادیتی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں بلکہ پی ڈی ایم اے کو صرف ایک دکان بنادیا گیا ہے جس کا مقصد بازار سے سامان کی خریداری اور عوام تک پہنچانا رہ گیا ہے جس پر ہر بار اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں مگر اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا انہوں نے کہا کہ مہنگائی وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوتی ہے صوبائی حکومتیں وفاق سے مل کر پالیسیاں بنائیں تو ایسا نہ ہو بلوچستان حکومت کووفاق سے بات کرنی چاہئے۔
ہم اپنی پالیسیاں بنا کر مہنگائی پر قابو پاسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں وفاق کو ایک ارب ڈالر مل رہے ہیں جس سے بلوچستان ایک بڑا حصہ لے سکتا تھا مگر حکومت بلوچستان کی جانب سے اس حوالے سے نہ تو کوئی تیاری کی گئی اور نہ ہی وفاق سے پالیسی کے تحت پیسے مانگے گئے وفاق تو ہمیں نظرانداز کررہا ہے لیکن بلوچستان کی پسماندگی میں صوبائی حکومت بھی ذمہ دار ہے صوبائی حکومت کو اس سلسلے میں اپنی پالیسیاں بنانے کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے آگے بڑھنا ہوگا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر اکبر مینگل نے ایوان میں جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے اکثر علاقے آج بھی گیس کی سہولت سے محروم ہیں اور بنیادی سہولیات دستیاب نہیں جبکہ آج اخبارات میں وزیراعظم کا بیان آیا ہے کہ ہم ملک کا تمام قرضہ ریکوڈک سے ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کیوں ادا کریں، کرپشن وفاق میں بیٹھے لوگ کریں اور ادائیگی ہم کریں ہمیں احتجاج پر مجبور نہ کیا جائے ہم وزیراعظم کے بیان کی مذمتکرتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ آپ کوئی منصوبہ تو ہمارے لئے چھوڑیں تاکہ ہم اس کی مدد سے اپنے لوگوں کی قسمت بدل سکیں ہمارے صوبے کو ترقی چاہئے تاکہ ہم اپنے صوبے کو باقی صوبوں کے برابر لائیں ہمارے لوگوں کو آج بھی علاج معالجے کی سہولت تک دستیاب نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور حکمرانوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کی کرپشن کے لئے قلات سے گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں یہ مبارکباد میں اپنی جانب سے نہیں دے رہا بلکہ ان عوام کی جانب سے دے رہا ہوں جن کے جسم پر کپڑے اور پاؤں میں چپل نہیں وہ صوبہ جس کے بچوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی سکول جانے سے محروم ہے اور اگر وہ سکول جاتے ہیں تووہاں استاد اور ہسپتالوں میں سہولیات نہیں میں اس صوبے کے عوام کی جانب سے یہ مبارکباد دے رہا ہوں۔
جے یوآئی کے اصغر علی ترین نے کہا کہ قلات سے نکلنے والے ذخائر سے متعلق وہاں کے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے صوبے کے ذخائر سے پنجاب کے لوگ ترقی کرکے ہم سے کئی گنا آگے نکل چکے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کے قدرتی ذخائر سے متعلق واضح موقف اپنائے تاکہ بلوچستان کے لوگوں کی حالت زار تبدیل ہوسکے۔
بعدازاں وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے میرضیاء لانگو نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ مجھے آج اجلاس میں بیٹھ کر حیرانگی ہوئی ہے کہ ہمارے دوست خوشنما باتیں کرتے ہیں مگر ان کے پاس اعدادوشمار کی کمی ہے گیس کا مسئلہ بلوچستان کے لوگوں کا مسئلہ ہے حکومت سے ہٹ کر اس حوالے سے ہم اپنا کردار ادا کررہے ہیں صوبائی حکومت عوام کی بات کررہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ اور رکن اسمبلی اختر حسین لانگو نے گیس کے مسئلے پر رابطہ کیا تھا کہ ہم اسلام آباد جارہے ہیں آپ بھی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ساتھ چلیں جس پر میں نے حامی بھری تاہم معزز اراکین نے اس سلسلے میں دوبارہ رابطہ ہی نہیں کیا۔
اپوزیشن کے کچھ اراکین نے اپنے حلقوں میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے حالیہ برفباری اور بارشوں کے دوران اپنے حلقے کے لوگوں کو امدادی سہولیات کی فراہمی کے لئے پی ڈی ایم اے کے دفتر اور مجھ سے رابطہ کیا جن کا مسئلہ فوری طو رپر حل کیا گیا اور ان کے حلقے کے لوگوں کو امدادی اشیاء فراہم کردی گئیں کراچی اور اسلام آباد کی سیر کرکے آنے والے آج اسمبلی کے ایوان میں اپنے مسائل بیان کررہے ہیں انہیں ایک نوجوان کی جانب سے سوشل کام کرنے پر اعتراض ہے سلیمان کاکڑ نے ایک جذبے کے تحت عوام کی خدمت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور وزیراعلیٰ پر تنقید بے جا ہے برفباری اور بارشوں کے دوران حکومتی مشینری متاثرہ علاقوں میں موجود رہی پی ڈی ایم اے افسران اور ضلعی انتظامیہ نے اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دیئے انہوں نے دس سے پندرہ کلو میٹر تک پیدل سفر کرکے ڈھائی فٹ پڑی ہوئی برف ہٹائی اور راستے بحال کئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق اراکین کو بریفنگ دینے کے لئے تیار ہیں۔
محکمے نے اپنے استعداد کار اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے 51ٹریکٹرز، کرین اور دیگر مشینری کی مدد سے راستے بحال کئے اور لوگوں کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لئے متاثرہ علاقوں میں کوئلہ بھی بھیجا گیا قدرتی آفات کے دوران 201کچے مکانات منہدم ہوئے ہیں فی مکان 50ہزار روپے دیئے جارہے ہیں اور زیادہ نقصان پہنچنے والے مکانات پر فی مکان ڈیڑھ لاکھ روپے حکومت کی جانب سے دیئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے کی جانب سے50ہزار روپے فی گھر ادا کردیئے گئے ہیں حکومت متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے اور انہیں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑے گی انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لوگوں کو گمراہ نہ کرے اور نہ حکومتی بینچز میں نہ آنے کا بدلہ عوام سے لیں۔اپوزیشن کے ایک رکن نے گزشتہ روز پشین میں پی ڈی ایم اے کے افسران کے ساتھ برفباری اور بارشوں کے دوران اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے لیویز اہلکاروں میں تعریفی اسناد تقسیم کیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے رواں سال فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا حکومت جلد جرائم کا مکمل خاتمہ کردے گی انہوں نے کہا کہ میڈیا اور دیگر اداروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پی ڈی ایم اے نے برفباری کے دوران لوگوں کو ریسکیو کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں وافر سامان تقسیم کیا گیا اپوزیشں تنقید کرنے اور عوام میں مایوسی پھیلانے کی بجائے لوگوں کو معلومات فراہم کرے کہ حکومت کیا کررہی ہے۔
بعدازاں ڈپٹی سپیکر سردار بابرموسیٰ خیل نے بحث نمٹانے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا وفاقی سیکرٹری پٹرولیم، ایم ڈی او ر جی ایم سوئی سدرن گیس کمپنی کو کوئٹہ آکر اراکین اسمبلی کو مطمئن کریں انہوں نے کہا کہ چونکہ گیس پریشر سے متعلق عدالت عالیہ نے اپنے حکمنامے میں یہ حکم دیا تھا کہ آئندہ کوئٹہ اور مضافات میں گیس لوشیڈنگ اور پریشرمیں کمی نہیں ہوگی جس پر حکام نے عدالت عالیہ کو من و عن عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی تاہم پھر بھی گیس پریشر اور لوڈشیڈنگ کی صورت میں عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے ڈی جی پی ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ وہ حالیہ بارشوں اور برفباری کے دوران ہونے والے نقصانات اور پی ڈی ایم اے کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات، امدادی سامان اور اخراجات کی مکمل تفصیل ایوان کو فراہم کریں۔بعدازں اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردیاگیا۔ وفاقی حکو مت کی جانب سے ریکوڈک کا سونا غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کرنے کا عندیہ دینے کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک التواء جمع کروای دی گئی۔
تحریک ایک اخباری خبر کا تراشہ منسلک کرکے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ کی جانب سے جمعرات کو اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروائی گئی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ وفاقی حکومت 18ویں ترمیم و آئینی پاسداریوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو تے ہوئے بلوچستان کے قدرتی وسائل بلخصوص ریکوڈک کے ذخائر کو ملکی قرضوں کے اتارنے کے لئے استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
لہذا اسمبلی کی کاروائی روک کر اس اہم اورضروری عوامی نقطے کے حامل معاملے کو زیر بحث لایا جائے،اس حوالے سے رابطہ کرنے پررکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کی رو سے ہر صوبہ اپنے وسائل کا استعمال کرنے کامجاذ ہے وفاق کی صوبوں کے وسائل میں مداخلت غیر آئینی ہے وفاقی حکومت ریکوڈک کا سودا کر کے 18ویں ترمیم کی خلاف ورزی کر رہی ہے جسکی ہم کسی صورت اجازت نہیں دیں گے۔