|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2020

کوئٹہ :  بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا اعلا ن کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن اراکین کے حلقوں میں مداخلت کی جارہی ہے امن وامان کی ابتر صورتحال، اپوزیشن کے حلقوں میں مداخلت اور ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع نہ ہونے کے خلاف اپوزیشن اراکین 20فروری کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر احتجاج کریں گے۔

اس بات کا اعلان بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے اسمبلی اجلاس کے دوران امن وامان کی صورتحال پر لائی گئی تحریک التواء پر بحث کے دوران کیا اور کہا کہ ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسائل حل نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ایوان میں جمہوری روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے صوبے کو ترقی دینے کی بات کی ہے صوبے سے کرپشن کے خاتمے اور غیرقانونی عوامل و ناانصافیوں کی ہم نے ہمیشہ نشاندہی کی ہے۔

این ایف سی ایوارڈ پر ہم نے حکومت کو تجویز دی کہ سی سی آئی کا اجلاس طلب کیا جائے تاکہ بلوچستا ن کے حصے کے لئے وفاق سے دوٹوک انداز میں بات کی جائے مگر ہماری بارہا کوششوں کے باوجود حکومت نے خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے او رایوان میں اپوزیشن کے ساتھ جو وعدے کئے گئے ان پر تاحال کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہر رکن کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے حلقے کے عوام کی با ت ایوان میں کرے اور ان کے مسائل اجا گر کرتے ہوئے ان کے حل کے لئے اپنا کردار اد اکرے وزیراعلیٰ کی جمہوری اور آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اراکین کو سنیں اور ان کے حلقوں کے عوام کے مسائل حل کریں مگر ڈیڑھ سال سے ہم یہاں جن عوامی مسائل کو اجاگر کررہے ہیں۔

ان کے حل کے لئے حکومت نے کوئی کردار اد انہیں کیا اس لئے ان مسائل کے حل کے لئے اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا اپوزیشن نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے حلقوں کے عوام کے حقوق کے لئے احتجاج کریں گے اور اس سلسلے میں 20فروری کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر احتجاج کریں گے ہمارے حلقوں میں حکومت کی جانب سے مداخلت کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے حلقوں میں جو ترقیاتی منصوبے رکے ہیں ان پر کام شروع کیا جائے کیونکہ رواں مالی سال کے ختم ہونے میں تین مہینے باقی رہ گئے ہیں اب تک ہمارے حلقوں میں کوئی کام شروع نہیں ہوسکا۔سید فضل آغا نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے جو اعلان کیا ہے ہم اس کے مطابق جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے کوئی اچھا پیغام جائے گا؟ حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے جس طرح قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے وزیراعظم عمران خان کو آفر کی تھی۔

یہاں بلوچستان میں بھی ہم نے حکومت کو یہ پیش کش کی تھی کہ چھوٹا اور پسماندہ صوبہ ہے یہاں اپوزیشن آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہے لیکن افسوس کہ اپوزیشن تو سنجیدہ ہے لیکن حکومت اپنا فرض ادا نہیں کررہی۔

صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ حکومت پر فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کا الزام درست نہیں حکومت کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے جس کے مطابق کام کیا جاتا ہے پلاننگ کمیشن کے قواعد کے مطابق ہم براہ راست کسی کو فنڈز نہیں دے سکتے ہر شعبے میں ترقیاتی سکیمات میرٹ پر شامل کی جارہی ہیں اس حوالے سے اپوزیشن کے دوستوں کی باتیں درست نہیں۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں 20ارب روپے کی جعلی سکیمات انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والے اپنے لوگوں کو نوازنے کے لئے رکھے گئے ہیں۔پی ایس ڈی پی میں ہمیں حصہ نہیں چاہئے بلوچستان میں لاشوں کا گرنا،گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور ماتم، ماؤں کے گود میں بچوں کا دم توڑنا ہم سے مزید نہیں دیکھا جاتا نہ ہی پی ایس ڈی پی کو جعلی منصوبوں پر خرچ ہونے دیں گے بلوچستان ہمارا وطن ہے ہمیں کسی سے حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے حکومت امن وامان بحال کرے تمام سکیمات انہیں دے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 20فروری کو وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کرکے دنیا کو پیغام دیں گے کہ موجودہ حکومت عوا م کی فلاح و بہبود کے لئے کام نہیں کررہی۔انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا پہلا احتجاج ہے اور نہ ہی آخری بلکہ صوبے بھر کے لوگوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے سڑکوں پر نکالیں گے۔

جمعیت علماء اسلام کے رکن زابد ریکی نے کہا کہ اٹھارہ ماہ سے بلوچستان زوال کی طرف جا رہا ہے ایک سال کیلئے حکومت اپوزیشن کے حوالے کی جائے صوبے سے بے روزگاری دہشت گردی کا خاتمہ کر کے تمام حلقوں میں یکساں ترقیاتی منصوبے شروع کرائے جائیں گے۔

کسی حلقے میں مداخلت نہیں ہوگی ناکامی پر ایک سال بعد نہ صرف حکومت بلکہ اسمبلی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہو جائیں گے اُنہوں نے کہا کہ واشک میں حالیہ بارشوں اور برفباری کے دوران متاثر ہونیوالے لوگوں کوکوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا میرے حلقے میں مداخلت ہو رہی ہے اس کے باوجود مجھے عوام نے ایک نہیں دو مرتبہ منتخب کر کے اس ایوان میں مجھے بھیجا ہے بی این پی کے اکبر مینگل نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں من پسند افراد کے لئے اربوں روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کو کرپشن کا ذریعہ بنادیا گیا ہے پی ایس ڈی پی بناتے وقت قوانین کا خیال نہیں رکھا گیا پی ایس ڈی پی میں غیرمتعلقہ افراد کو نوازنے کے عمل کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔

اجلاس میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے مشترکہ تحریک التواء پیش کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ 17فروری کو کوئٹہ شہرکے مین شاہراہ اقبال منان چوک کے قریب دہشت گردوں کی جانب سے خودکش دھماکہ کیاگیا جس کے نتیجے میں متعدد بے گناہ، لاچار اور معصوم شہری بشمول پولیس و لیویز اہلکاران شہید وزخمی ہوئے اور ساتھ ہی دوام کی دکانوں، املاک اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا جس کی وجہ سے عوام میں شدید تشویش اورخوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

لہٰذا ایوان کی کارروائی روک کر اس فوری عوامی نوعیت کے حامل مسئلے کو زیر بحث لایاجائے۔ سپیکر نے رائے شماری کے بعد تحریک التواء کو بحث کے لئے منظور کرنے کی رولنگ دی۔قبل ازیں بی این پی کے ثناء بلوچ نے سپیکر سے استدعا کی کہ گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے کے بعد پورا صوبہ غمزدہ اور سوگ کی کیفیت میں ہے اس لئے ایوان کی باقی کارروائی اگلے اجلاس تک کے لئے ملتوی کیاجائے اور اس فوری عوامی نوعیت کے حامل مسئلے پر بحث کی جائے۔

بعد ازاں قائدحزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز پیش آنے والا واقعہ انتہائی دردناک ہے جس سے کئی خاندان متاثر ہوئے ہیں ہم دکھ کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں انہوں نے کہا کہ امن وامان سے متعلق صورتحال انتہائی مخدوش ہے گھر سے نکلنے کے بعد شام کوواپس گھر لوٹنے کی امید ہی کسی کو نہیں ہوتی۔

جب صورتحال ایسی ہوگی تو ذمہ داروں کی جانب انگلیاں اٹھتی ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں حکومت لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اخلاقی اور آئینی تقاضہ بھی ہے کہ جب کوئی حکومت اپنی ذمہ داریوں کو سرانجام دینے میں ناکام ہوجاتی ہے تو پھر وہ مستعفی ہوجاتی ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں ظلم ہورہا ہے صوبے میں عدل نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے نہ ہی انصاف نام کی کوئی چیز نظر آتی ہے ایسے میں احتجاج نہ کرنا بھی بے حسی کی علامت ہے انہوں نے کہا کہ جس کی ذمہ داری ہے وہ اپنی ذمہ داری نبھائے محض یقین دہانیوں سے کام نہیں چلنے والا۔

جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ گزشتہ روز پیش آنے والا واقعہ ان واقعات کا تسلسل ہے جو گزشتہ چالیس سال سے بلوچستان میں بالخصوص اور ملک کے باقی حصوں میں بالعموم رونما ہوتے آئے ہیں اس کی وجوہات کئی ایک ہیں تاہم افغان انقلاب کے بعد وہاں افغانستان میں جو حالات بنے اس کے نتیجے میں یہاں افغان مہاجرین کی آمدورفت ہوئی اور حقداروں کے ساتھ ساتھ تخریب کار بھی یہاں آئے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی افغان پیس ڈائیلاگ کسی مرحلے پر پہنچتا ہے کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے افغانستان کے امن سے پورے خطے کا امن جڑا ہوا ہے کل کا واقعہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب زلمے خلیل زاد اسلام آباد میں بیٹھے تھے جب تک افغانستان میں امن نہیں ہوگا خطے میں امن کے امکانات بہت کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حکومت بلوچستان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے آج ایک اہم مسئلے پر بات ہورہی ہے یہاں قائد ایوان کو موجود ہونا چاہئے لاء سیکرٹری کو موجود ہونا چاہئے تھا اور متعلقہ وزیر کو موجود ہونا چاہئے تھا لیکن کوئی نہیں ہے۔

وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ کل کا واقعہ انتہائی دردناک اورا فسوسناک واقعہ ہے میں حکومت اور اپنی پارٹی کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کرتا ہوں یہ غم صرف متاثرہ خاندانوں کا نہیں بلکہ حکومت، اپوزیشن اور پورے بلوچستان کا غم ہے پورے پاکستان کے لئے یہ ایک دردناک واقعہ تھا گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے ملک میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں یہاں بہت خون بہا وکلاء برادری، سکول کے بچوں، فورسز، فوج، ایف سی، پولیس، لیویز عام لوگ سبھی متاثر ہوئے سب نے شہادتیں دیں 2008ء سے2013ء تک مختلف سیاسی کارکنوں اور ان کی لیڈرشپ کو نشانہ بنایاگیا سب سے زیادہ نشانہ عوامی نیشنل پارٹی بنی جس کے مرکزی عہدیداران سے لے کر کارکنوں تک، ایم این ایز ایم پی ایز اور عام لوگوں کو نشانہ بنایاگیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے 960ء لوگ شہید ہوئے ہم نے ہمیشہ کہا ہے آج بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان پر ہمارے دشمنوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں ہم نے بیٹھ کر اس حوالے سے غور و فکر کرنا ہوگا اور پلاننگ کرنی ہوگی ماسٹر مائنڈ تک پہنچنا ہوگا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو تشویشنا ک قرار دیا اور کہا کہ صوبے میں ایک ہیجانی کیفیت ہے ایک واقعے سے دوسرے واقعے کے دورانیہ کو امن وامان کا نام دیا جاتا ہے بلوچستان میں بم دھماکے، گولیوں کی تڑتڑاہٹ بولتی ہے ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب کوئی واقعہ رونما نہ ہو لوگوں کے آنسو نہیں تھم رہے چار روز قبل اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کئے گئے۔

اجلاس میں ہم نے امن وامان کی صورتحال پر بحث کی مگر اس وقت بھی حکومت کا رویہ ایسا ہی تھا جیسے آج ہے اہم اجلاس میں نہ تو قائد ایوان موجود ہیں نہ وزراء اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے ذمہ دار یہاں موجود ہیں جس سے حکومت کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پورا صوبہ غمزدہ ہے جو بلوچستان کی منظرکشی کررہاہے اٹھارہ مہینوں کے دوران ہمارے صوبے کے مسائل پر ہم نے مسلسل بات کی لیکن حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے باعث صوبہ تنزلی کی جانب جارہا ہے اور صوبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ دلدل میں دھنس رہا ہے بلوچستان بتدریج شعلوں کی زد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت لوگوں کی امیدوں کا موجب ہوتی ہے یہاں بہتر طرز حکمرانی کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن حکومت نے کبھی بھی مشاورت یا مفاہمت، معاملات پر مکالمے اور تجاویز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی۔

انہوں نے نوشکی میں منشیات فروشوں کے ہاتھوں سمیع اللہ مینگل کے قتل پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ سمیع اللہ مینگل نے اپنی ماں کی گود میں جان دے دی ایک سال قبل ہم نے بلوچستان اسمبلی کے ایوان سے قرار داد پاس کرائی تھی مگر آج بھی بلوچستان میں منشیات کا کاروبار سرعام جاری ہے اور سوئی ہوئی حکومت کو جگانے کے لئے خضدار سے نوجوانوں کو کوئٹہ تک لانگ مارچ کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک خودکش حکومت قائم ہے اس حکومت کی موجودگی میں خود کش حملوں کی کیا ضرورت ہے؟سرکاری ہسپتال مذبح خانے ہیں،حکومت سالانہ 12ہزار افراد کو کینسر سے،16ہزار افراد کو منشیات کا شکار بنا کر اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جعلی ادویات اورٹریفک حادثات میں مار دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سیکورٹی اداروں کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا چوالیس ارب روپے غریب صوبے کے بجٹ سے امن وامان کے لئے مختص کئے جاتے ہیں امن وامان کے لئے مختص ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ مجموعی بجٹ کا ساتواں حصہ ہے جو لوگوں کو بم دھماکوں، فائرنگ، سٹریٹ کرائمز، منشیات اور خوف و ہراس سے بچانے کے لئے رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں وزراء کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تو امن وامان پر کون بات کرے گا سمیع اللہ مینگل کی شہادت کے واقعے سے ثابت ہوا کہ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بی این پی کے ٹائٹس جانسن نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں جب اکثریت کوتحفظ حاصل نہیں تو اقلیت کو کون تحفظ دے گا صرف راگ الاپنے سے امن وامان قائم نہیں ہوسکتا حکومت تیاری کرے مزید افغان مہاجرین آنے والے ہیں۔

صوبائی وزیر عبدالخالق ہزارہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات سے ہم سے بڑھ کر کون متاثر ہوا ہوگا اور ہم سے زیادہ کون ا س درد کو محسوس کرسکتا ہے 10جنوری2013ء اور17فروری 2013ء کے اندوہناک واقعات کو کس طرح سے بھلایا جاسکتا ہے جب ایک ہزار کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا اسی طرح سانحہ آٹھ اگست کو بھی نہیں بھول سکتے یہ واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں ہم صرف اپنے اٹھارہ ماہ کے جوابدہ ہیں۔

حکومت امن وامان پر توجہ دے رہی ہے تاہم خطے کے حالات اور صوبے کی جیو پولیٹیکل حیثیت بھی سب کے سامنے ہے جس کی ایک مثال کلبوشن یادیو کی گرفتاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قومی اور مذہبی منافرت کے خاتمے، بھائی چارگی کے فروغ اور رواداری کو پروان چڑھانے کے لئے ہم سب کو کام کرنا ہوگا ڈیڑھ سال کے دوران بلوچستان کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے حقائق سے چشم پوشی نہ کی جائے۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمارے صوبے کے عوام امن کے لئے ترس رہے ہیں یہ ایک لمبی داستان ہے دہشت گردی کے واقعات کی ابتداء قبائلی علاقوں سے ہوئی وہاں ہماری پارٹی کے رہنماؤں سمیت دیگر لوگوں اور قبائلی مشران کو نشانہ بنایا گیا۔

اس کے بعد خیبرپشتونخوا میں واقعات شروع ہوئے اور اب ہمارے صوبے میں یہ واقعات ہورہے ہیں چمن، پشین، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، سنجاوی، ہرنائی، شاہرگ اور کوئٹہ میں واقعات پیش آئے ہم نے یہاں ڈیمانڈ کی کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایاجائے لیکن حکومت نے توجہ نہیں دی گزشتہ روز پیش آنے والا دہشت گردی کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت واقعہ ہے اور حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ کوئی حکومتی اہلکار، وزیر مشیر نے متاثرہ افراد کے گھر یا ہسپتال جانے کی زحمت نہیں کی انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا جائے اور پارلیمنٹ نے جو بائیس نکات دیئے ہیں۔

ان بائیس نکات پر عملدرآمد کیا جائے ہمیں ان کیمرہ سیشن میں بریفنگ دی جائے کہ دہشت گردی کے واقعات کے محرکات کیا ہیں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا جائے انہوں نے نوشکی میں سمیع اللہ مینگل کے قتل کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سٹریٹ کرائمز پر قابو نہیں پاسکتی دہشت گردی کے واقعات کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے عوام کو سچ بتانے کی ضرورت ہے۔

بی این پی کے اختر حسین لانگو نے دہشت گردی کے واقعات پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج اتنے اہم مسئلے پر ایوان میں بحث ہورہی ہے لیکن حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ وزراء موجود ہیں اور نہ ہی متعلقہ افسران یہاں موجود ہیں حالانکہ سپیکر نے رولنگ بھی دی تھی کہ متعلقہ افسران اجلاسوں میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں حکومت کی کوشش ہے کہ کورم کی نشاندہی ہو اور بحث ختم ہو۔

انہوں نے کہا کہ محض اخباری بیانات اور ٹویٹر پر بیان جاری کرنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے یہ سنجیدہ نوعیت کی حامل بحث ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوشکی میں نوجوان سمیع اللہ مینگل کو محض اس بناء پر قتل کیا گیا کیونکہ اس نے منشیات فروشی کی نشاندہی کی اس وقت بلوچستان میں احساس تحفظ ختم ہورہا ہے۔ انہوں نے اجلاسوں میں افسران کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر بیورو کریسی کا رویہ یہی رہا تو ہم اس کے خلاف تحریک استحقاق لائیں گے۔

کیونکہ ان کے رویئے سے پورے ایوان کا استحقاق مجروح ہورہا ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل نے کہا کہ ہم سے زیادہ لاتعلق اور بے گناہ لوگوں کے غم کو کون محسوس کر سکتا ہے ملک میں دہشت گردی کی طویل تاریخ ہے ہمسایہ ممالک اور خطے کہ سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ پنجاب کے پی کے سے ہوتی ہوئی دہشت گردی کی لہر کوئٹہ پہنچی دہشت گردی کے ان واقعات کے خلاف ہم سب کو اپنا کردار اداء کرنا چاہئے تاکہ بلوچستان کا روایتی امن بحال ہو۔جے یوآئی کے زابد ریکی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات میں بھارت ملوث ہے اور اُس کی کوشش ہے کہ وہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر سکے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

اُنہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو جو ہزاروں لوگوں کا قاتل ہے اُسے منان چوک پر سر عام پھانسی دی جائے اُنہوں نے کہاکہ دھماکے کے زخمی سول اسپتال میں بے یار و مددگار پڑے ہیں حکومتی سطح پر ان کے علاج و معالجے کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے گزشتہ روز ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کو دردناک اور افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دھماکے میں ہماری پارٹی کے قسیم کاکڑ کے بھائی نسیم کاکڑ بھی شہید ہوئے ہم تمام شہداء کے غم اور دکھ میں برابر کے شریک ہیں یہ واقعات ہم سب کی توجہ چاہتے ہیں۔

کیونکہ یہ واقعات پہلے سے ہوتے چلے آئے ہیں اس ایوان میں کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے جس نے اپنے پیاروں کو خون میں لت پت نہ دیکھا ہو پورے بلوچستان میں میں ایسا کوئی قبرستان نہیں ہوگا ایسا کوئی شہر، کوئی گاؤں اور کوئی گھر نہیں ہوگا جو ان واقعات سے متاثر نہ ہوا ہو انہوں نے کہاکہ زمین وہی جلتی ہے جس پر آگ لگی ہوئی ہو میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا میرے دشمن پر بھی وہ وقت نہ لائے جو میں نے خود دیکھا ہے۔

آٹھ اگست کے واقعے کے بعد مجھے فون آیا کہ اس نوعیت کا واقعہ پیش آیا ہے اور اس میں آپ کا بھائی بھی شہید ہوگیا ہے آٹھ نو سال پیچھے جائیں میں پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں شرکت کے لئے پشاور گیا تھا جب مجھے فون آیا کہ آپ کے والد شہید ہوگئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کسی پر ایسا وقت نہ لائے انہوں نے کہا کہ یہاں جے یوآئی کے ساتھیوں نے حکومت حوالے کرنے کی بات کی حکومت حوالے کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ بلوچستان کی تاریخ میں حکومت سب سے زیادہ جے یوآئی کے ہاتھ میں رہی ہے اگر آپ نے ماضی میں ان واقعات کے تدارک کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا تو آج آپ کیا کردار ادا کریں گے یہ مسئلہ حکومت کا نہیں بلکہ ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کی ہم نے تو چالیس سال قبل نشاندہی کردی تھی اورلوگ آج اس جانب آرہے ہیں آج جو حالات ہیں یہ ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کی نشاندہی ہم نے چالیس سال قبل کردی تھی اور آج باقی جماعتیں بھی اسی نکتے پر آرہی ہیں انہوں نے کہا کہ کل اتنا بڑا واقعہ ہوا اور آج کے اخبار میں وفاقی وزیر داخلہ کا بیان آیا ہے کیا۔

یہ بیان لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ان واقعات کے تدارک کے لئے از سرنو بیٹھ کر سوچنا ہوگا ہم کب تک خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔ آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد پوری سیاسی قیادت نے بیٹھ کر 22نکات ترتیب دیئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہا کہ آج جو کچھ ہورہا ہے یہ ہماری کل کی بوئی ہوئی فصل ہے ہزار حکومتیں تبدیل کریں جب تک اوپر سے فیصلے ٹھیک نہیں ہوں گے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز پیش آنے والا دہشت گردی کا واقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے زمین پر ٹپکنے والے ہر انسان کے خون کا رنگ سرخ ہوتاہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی قبیلے، مذہب یا نسل سے ہو۔

ڈیڑھ سال کے دوران جب بھی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہوا ہے اس کی ابتدا ء کسی نہ کسی دہشت گردی کے واقعے یا ٹریفک حادثے میں شہید ہونے والے افراد کے درجات کی بلندی کے لئے دعا سے ہوا ہے کوئی ایسا دن نہیں ہوتا جب اس قسم کے واقعات نہ ہوں انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز اپوزیشن کی ریکوزیشن پر امن وامان سے متعلق طلب کئے گئے۔

اجلاس میں حکومت نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوشش کی کہ کورم ٹوٹ جائے۔انہوں نے اپوزیشن نے ہمیشہ حکومت کو بلوچستان کے عوام کے اجتماعی مسائل کے حل کے لئے ساتھ دینے کی پیش کشی کی ہے ہم کوئی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنا چاہتے اور اب بھی بھلے حکومت ہمیں پی ایس ڈی پی، سیندک، ریکوڈک، سی پیک سمیت دیگر معاملات پر اعتماد میں نہ لے لیکن امن وامان پر ہم حکومت کے ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے اور حکومت کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔

جے یوآئی کے اصغر علی ترین نے کہا کہ امن وامان کے حوالے سے حکومت بلوچستان کو اپنی پالیسی پر از سرنو غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سب سے مشاورت کرنی ہوگی کہ ان واقعات سے کس طرح بچاجاسکتا ہے دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں جہاں چیک پوسٹ نہیں لیکن دہشت گردی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ امن وامان سے متعلق اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کئے گئے۔

اجلاس کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو شاید کل کا واقعہ پیش نہ آتا انہوں نے خود کش حملہ آور کو روکنے والے پولیس اہلکار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکار نے اپنی جان کی قربانی دے کر کوئٹہ کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچایا بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں لاتعداد چیک پوسٹ ہیں۔

اس کے باوجود اس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں ذمہ داروں کے تعین کے لئے تحقیقات کی جائیں بم دھماکے کے زخمیوں کو علاج کے لئے کراچی منتقل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت داخلہ اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے کب تک ہم اپنے نوجوانوں کی لاشیں دفناتے رہیں گے تاکہ پاکستان اور بلوچستان کو اس طرح کے واقعات سے بچایا جاسکے۔

بی این پی کے شکیلہ نویددہوار نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ لاشوں پر سیاست نہیں کرنی چاہئے نہ ہی ایسی بات کرنی چاہئے کہ اراکین یہاں سوشل میڈیاکے لئے تقاریر کرتے ہیں صوبے میں امن وامان پر ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے اس کے باوجود اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور ٹریفک حادثات میں باقی صوبوں سے زیادہ لوگ بلوچستان میں شہید ہوئے ہیں۔

اس کے باوجود حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ آج تمام نشستیں خالی پڑی ہیں انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ کہاں گیا؟ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر ہونے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اکبر مینگل نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کا آئے روز پیش آنا ایک معمول بن چکا ہے امن وامان پر ایک خطیر رقم خرچ ہورہی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم مطمئن نمائندے جب کوئٹہ میں داخل ہوتے ہیں تو شہر کے داخلی راستے پر ہمیں روک کر شناختی کارڈ چیک کیا جاتا ہے مگر یہاں بارود کے ڈھیر کس طرح پہنچ رہے ہیں۔

نوشکی میں سمیع مینگل کو منشیات فروشوں کی نشاندہی پر قتل کیا گیا کیونکہ پولیس اور منشیات فروش ایک ساتھ کاروبار چلارہے تھے انہوں نے کہا کہ حکومت امن وامان سے متعلق سنجیدہ ہوتی تو آج قائد ایوان اس ایوان میں موجودہوتے وہ پورے ایوان کے قائد ایوان ہیں صرف حکومتی اراکین کے قائد ایوان نہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کے واقعے کو میڈیا پر نظر انداز کیا گیا لاہور میں گھریلو مسئلے پر کسی کو تھپڑ پڑے تو اس کی گونج کئی دنوں تک میڈیا میں گونجتی ہے لیکن یہاں آٹھ لوگ شہید تیس سے زائد زخمی ہوئے میڈیا نے اسے نظر انداز کیا انہوں نے مطالبہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا جائے۔

بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے آج اتنے اہم مسئلے پر بات ہورہی ہے لیکن حکومتی اراکین نہیں ہیں اگر پی ایس ڈی پی کی بات ہوتی تو سب موجود ہوتے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر لہو لہان ہے اور وزراء یہاں موجود نہیں ہیں ہم نے حکومت ٹھکرادی ہے اور ہم صوبے کے عوام کے حقوق اور ساحل وسائل کے لئے جدوجہد کررہے ہیں دھماکے میں زخمی ہونے والے کسمپرسی کی حالت میں ہیں ہسپتال میں علاج معالجے کی کوئی سہولت میسر نہیں بلوچستان وہ بدقسمت صوبہ ہے جہاں وزیرصحت کا عہدہ خالی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیپ ٹاپ گورنمنٹ کو جانا چاہئے۔بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ 2018ء کے بعد سے صوبے میں جو بم دھماکے ہوئے ہیں اس کے حوالے سے عدالتی تحقیقاتی کمیشن بننا چاہئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن ضروری ہے، نیشنل ایکشن پلان پر بلوچستان حکومت نے کتنا عملدرآمد کیا ہے اس کی رپورٹ طلب کی جائے اور بدامنی کے واقعات کی تفصیلی رپورٹ بھی طلب کی جائے سپیکر اس حوالے سے رولنگ دیں تاکہ یہ تفصیلات ایوان میں آسکیں۔

انہوں نے کہا کہ خطیر بجٹ کے باوجود اگر بلوچستان حکومت چند زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولت نہیں دے سکتی تو یہ اس کی ناکامی ہے محکمہ صحت سے بھی تفصیلی رپورٹ مانگی جائے۔بلوچستان کے نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنایا جارہا ہے اس حوالے سے بھی ایوان میں تفصیلات طلب کی جائیں۔

صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے ثناء بلوچ کے موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تحریک التواء پر بحث سے قبل ہی کہا تھا کہ اس پر اگلے اجلاس میں بحث کرائی جائے تاکہ وزیر داخلہ آکر ایوان کو تمام صورتحال سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز پیش آنے والے دہشت گردی کا واقعہ افسوسناک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اپوزیشن کاکام ہی حکومتی اقدامات کو نہ سراہنا ہے اپوزیشن بے شک پی ایس ڈی پی کی مخالفت کرے لیکن حکومتی اقدامات کو سراہے بھی۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت صوبے میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے قومی شاہراہوں پر جہاں شام کے بعد سفر کرنا مشکل تھا وہاں آج لوگ راتوں کو بھی سفر کرتے ہیں صوبے میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے سیکورٹی اہلکارنے گزشتہ روز اپنی جان کا نذرانہ دے کر دہشت گرد کو روکا جس سے واقعے میں نقصان کم ہوا۔زبیدہ خیر خواہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات اٹھائے۔

اراکین کے اظہار خیال کے بعد ڈپٹی سپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل نے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیااورکہا کہ ہمیں اپنی فورسز کے ساتھ کھڑے ہو کر ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند فرمائے اور زخمیوں کو صحت عطا فرمائے انہوں نے رولنگ دیتے ہوئے پولیس حکام کو پابند کیا کہ 21فروری کے اجلاس میں اراکین کو بریفنگ دیں اور منشیات کے انسداد کے حوالے سے بھی پولیس کے اقدامات سے اراکین کو آگاہ کریں۔ بعدازاں انہوں نے اجلاس جمعہ 21فروری تک کے لئے ملتوی کردیا۔