|

وقتِ اشاعت :   February 25 – 2020

کوئٹہ :  وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کا تقدس اس وقت بحال ہوگا جب اسے اہمیت دی جائے گی اسمبلی کے فلور پر وہ اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں جو حقیقت کے قریب سے بھی نہیں گزرتے ماضی میں اپوزیشن کے حلقوں میں کیا ہوتا رہا ہے آج ایسی صورتحال نہیں ہے، اپوزیشن خود مان رہی ہے کہ ستر فیصد منصوبوں پر کام جاری ہے، صرف تقاریر حقائق نہیں ہوتے بلوچستان کے لوگ اعداد و شمار سے واقف ہیں انہیں جذباتی تقاریر سے ورغلایا نہیں جاسکتا، بجٹ قریب آتے ہی بلوچستان میں بہت سی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

چوراہوں اور سڑکوں پر احتجاج کرنا ہے تو اسمبلی سے استعفیٰ دیں، آٹھ ماہ پہلے کالی پٹیاں دیکھی نہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا،اپوزیشن اراکین کی ڈکٹیشن نہیں مان سکتے ہر دو ماہ بعد ہمیں کارکردگی کی رام گیتا سنائی جاتی ہے،ہمارے فیصلے اچھے ہیں یا بُرے اس کے ذمے دار ہم ہونگے اپوزیشن نہیں،، ہمیں بلوچستان کے غم اور تکلیف کی تعلیم نہ دی جائے گزشتہ 15سال میں ہونا والا نقصان ہم نے بھگتا ہے نظریہ پاکستان اور بلوچستان کی تصویر پیش کرنے والے کہاں کہاں بیٹھتے ہیں ہمیں معلوم ہے۔

کرونا وائرس نے پوری دُنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں وفاقی حکومت سے رابطے میں ہیں،اپوزیشن اراکین دھرنا دینے سے پہلے سیندک جاتے اور وہاں ملازمین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے حکومت بلوچستان ہر لحاظ سے کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلا س میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے مزید کہا کہ کچھ دنوں سے ہماری مخلوط حکومت پر تنقید کی جارہی ہے جب بھی بجٹ قریب آتا ہے تو ہمیں ایسی ایسی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو آٹھ ماہ میں پہلے کبھی نظرنہیں آئیں نہ ہم نے آٹھ ماہ میں کالی پٹیاں دیکھیں، نہ ہم نے کبھی وزیراعلیٰ کے دفتر کے سامنے دھرنا دیکھا شاید اسکی وجوہات کچھ اور ہونگی۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جوں ہی بجٹ قریب آتا ہے اپوزیشن کے روئیے میں ایسا پیغام ملتا ہے جو غیر سنجیدہ ہوتا ہے حکومت کے ساتھ اگر کسی کو اپنے حلقے،ضلع کے معاملات پر بات کرنی ہے تو اسمبلی سے اچھا فورم ہے ہم اسمبلی کی کاروائی کو سنجیدہ نہیں لیتے یا جو اپوزیشن مسائل کی نشاندہی کر تی ہے اسے ہم سنجیدہ نہیں لیتے لیکن ہمیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ حکومت اپنا کام کرتی ہے اور اپوزیشن اپنا کام کرتی ہے اگراپوزیشن کے اراکین یہ سمجھیں کہ وہ حکومت کو ہر چیز ڈیکٹیٹ کریں گے اور ہم اسے مان لیں گے یہ ممکن نہیں ہو سکتا جب تک حکومت کام کر رہی ہے پالیسی ہماری ہے۔

ہم کابینہ میں سنجیدہ موضوعات پر بات کرتے ہیں اور ان پر فیصلے کرتے ہیں ہمارے فیصلے اچھے ہیں یا بر ے، جیسے بھی ہیں انکی اونر شپ ہماری ہے جو اپوزیشن نہیں لے سکتی، اگر اپوزیشن یہ سمجھے کہ ایک ایسا رویہ ہو کہ ہمارے حلقوں میں مداخلت ہے ہمارے افسران اور کاموں میں مداخلت ہے حکومتی مشینری کسی کی تابع نہیں ہے کہ جیسے وہ چاہیں گے وہ اپنا کام کریگی۔

انہوں نے کہاکہ اپوزیشن ہماری پالیسی پر اسمبلی کے فلو ر پر تنقید ضرور کر ے واک آؤٹ، وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری یا کسی اور دفتر کے سامنے دھرنا دینے سے اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ انکے مسائل حل ہونگے تو ایسا نہیں ہوگا، ہم ایوان کو اہمیت دینا چاہتے ہیں ہم اگر سنجیدہ نہیں لیتے تو اپوزیشن کے پاس ایوان سب سے بڑا فورم ہے جسکا تقدس اس وقت بحال ہوگا جب ہم اسے ہمیت دیں گے َ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ اگر ہم بھی ہر دوسری بات پر کورم کی نشاندہی کریں تو اسکا نقصان اپوزیشن کو ہوگا حکومت اپنا کام کر رہی ہے ہمیں ایوان میں بیٹھنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہر دو ماہ بعد ہمیں کارکردگی کی رام گیتا سنائی جاتی ہے کچھ لوگ ایسے اعداد و شمار کے ساتھ آتے ہیں کہ مجھے افسوس ہوتا ہے وڈھ کے ایم پی اے نے جس سنجیدہ انداز میں تجاویز دیں میں ان سے متاثر ہوا میں جن سے توقع رکھ رہا تھا میں حیرت میں پڑھ گیا کہ ایسے اعداد و شمارجو حقیقت کے قریب بھی نہیں گزرتے کچھ لوگوں کو تقاریر میں کچھ بھی بولنا ہے چاہے و ہ سچ ہو یا غلط ہو اور لوگ اس پر یقین کرلیں گے تو آج کا بلوچستان اسطرح کا نہیں ہے آج لوگ اعداد و شمار سے واقف ہیں۔اراکین کو سڑکوں پر احتجاج کرنا ہے تو اسمبلی سے استعفیٰ دیدیں،جام کمال

محترم ممبر کے کچھ پوائنٹ نوٹ کئے ہیں جب بھی ہم کوئی بات کرنے آتے ہیں تو اپوزیشن اپنا راستہ اختیار کر کے نکل جاتی ہے لیکن ہم ایوان کو سنجیدیگی سے لے رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ ایک رکن نے حوالہ دیا کہ خیبر پختونخواء حکومت نے 75ہزار ملازمتیں دیں جس پر مجھے تعجب ہوا اور تحقیق کی تو اخبار کی 2017کی ایک کٹنگ نظر آئی جس میں کہا گیا تھا کہ خیبر پختونخواء حکومت نے 75ہزار نوکریوں کی ریگولیرائزیشن کی ہے جس میں سے 70ہزار نوکریوں کی پروموشن ہوئی اور 4ہزار نئی آسامیاں تخلیق کی گئیں یہ 2019یا 2020نہیں بلکہ 2017کی بات ہے۔

حکومت بلوچستان نے جتنے اعلانات کئے ان پر آسامیاں مشتہر کیں لیکن 75ہزار کا غلط فگر دینا غلط ہے، اسی رکن نے کچھ محکموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان محکموں کے لئے پی ایس ڈی پی میں 6فیصد مقرر کیا گیا لیکن صرف زراعت کا بجٹ دیکھ لیں تو وہ 6فیصد کے برابر ہے اور معزز رکن نے 8محکموں کو 6فیصد دے دیا، انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جب یہ چیزیں چلتی ہیں تو لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کیا واقعی صرف اتنا رکھا ہے میں ان سے کہتا ہوں حقائق صرف تقاریر سے نہیں ہوتے، پی ایس ڈی پی پڑھیں، محکمہ خزانہ جائیں اعداد شمار لیں اور پھر دیکھیں کہ ہماری بات ٹھیک ہے یا انکی بات ٹھیک ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہی رکن نے کہا کہ بلوچستان کے سارے پولی ٹیکنیک کالج بندہیں اس وقت پورے بلوچستان میں 7پولی ٹیکنیک کالج چل رہے ہیں ہمارے دو پولی ٹیکنیک میڈیکل کالج کے طور پر بھی چل رہے ہیں صوبے میں 9کے قریب پولی ٹیکنیک کالجز ہیں جو اپنا کام کر رہے ہیں میں ایوان میں اگر کہوں کہ سارے پولی ٹیکنیک بند ہیں تو عام آدمی یہی سوچے گا کہ شاید یہ سارے پولی ٹیکنیک بند ہیں کم از کم ایوان میں غلط بیانی نہ کریں۔

جب اعداد و شمار کی بات کریں تو حقیقی اعداد و شمار کی بات ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے دوستوں نے شاید کبھی اپوزیشن کا ماحول دیکھا نہیں ہے ماضی کا نقشہ نکالیں تو اپوزیشن کے حلقوں میں کیا کام ہوتا تھاآج اپوزیشن کہتی ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے ہم کہتے ہیں ہم نے پہلی باربرد بار اور اچھے انداز میں کام کرنے والی حکومت بنائی ہے جو کسی کے حلقے میں مداخلت نہیں کرتی اگر حکومت چاہے تو اپنی مشینری کو بہت حد تک استعمال کر سکتی ہے۔

اپوزیشن کا کوئی ایک رکن بھی بتا دے کہ اسکے حلقے میں کام نہیں ہو رہا کوئی ایسا حلقہ نہیں جس میں 50سے 60کروڑ کے کام نہ ہو رہے ہوں اگر دیگر پروگرام بھی ملا لیں تو ایک ارب سے زائد کے کام جاری ہیں ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، ہماری مخلوط حکومت نے فیصلہ کیا کہ بھلے کسی حلقے میں ہمارا نمائندہ نہیں وہاں بلوچستان کے لوگ رہتے ہیں اور انکا کوئی قصور نہیں ہے،ہم بلوچستان کے ہر ضلعے میں ترقی کا جال بچھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسی تقاریر ہوئیں کہ جن سے بلوچستان کو بہت بڑا نقصان ہوا ہم جب مائیک پر آکر بات کرتے ہیں تو یہ نہیں سمجھتے کہ اسکا اثر کہاں کہاں تک جاتا ہے ہم نے پچھلے 15سال میں بلوچستان کے لوگوں کا خون اتنا گرم کیا کہ جسکا نقصان ہم نے بھگتا ہے جن لوگوں نے کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں بڑی بڑی تقریریں کر کے نظریہ پاکستان اور بلوچستان کی تصویر پیش کی تھی آج ہمیں بھی پتا ہے کہ وہ لوگ کہاں کہاں بیٹھتے ہیں اور کن کن لوگوں کے حوالے سے انہوں نے فیصلے کئے ہیں ہمیں بلوچستان کے غم اور تکلیف کی تعلیم نہ دیں صوبے کے لوگ بہت واقف ہیں انکے پاس 8سال پرانی سوشل میڈیا کی تقاریر بھی ہیں اخبارات کی کٹنگ، جلسوں کی تقاریر اور 8ماہ کی اسمبلیوں کے اندر اور باہر کا ریکارڈ موجود ہے۔

، انہوں نے کہا کہ ایوان میں تجاویز ضرور دیں لیکن جذباتی انداز میں لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کریں گے تو بلوچستان کے لوگ اب نہیں ورغلاتے اب لوگ انگلیوں پر چیزیں گنتے ہیں اور انہیں سب پتا ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ کنکریٹ اور اسٹیل پر پیسے خرچ ہورہے ہیں اگر 8ماہ کی تقاریر سن لیں تو کہتے ہیں کہ کام نہیں ہورہا سڑکیں،اسکول نہیں بن رہے ترقیاتی کام نہیں ہو رہے۔

پیسے لیپس ہو رہے ہیں یہ ہمارے لئے اعزاز ہے کہ اپوزیشن اپنی زبا ن سے مان رہی ہے کہ 70فیصد کام اچھا چل رہا ہے کیونکہ سریا، اسٹیل، کنکریٹ سڑکوں اور بلڈنگ پر لگیں گے اگر ہم آج اپنا پی ایس ڈی پی 80فیصد مکمل کر نے جارہے ہیں تو یہ حکومت کی کامیابی ہے شاید انہی کاموں کی تکمیل کی وجہ سے انہیں محسوس ہورہا ہے کہ اگر یہ کام مکمل ہوگئے تو وہ ہم سے ترقیاتی کاموں پر بات نہیں کر سکتے باقی چیزوں پر بھی ہم انہیں موقع نہیں دیں گے ہم نے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت کام کرنے کا طریقہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے حکومت صوبے میں روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کا نہیں سوچ رہی، حکومت کو پالیسی بنانی نہیں آتی مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ جو پی ایس ڈی پی کی کتاب میرے دوست بار بار دیکھاتے ہیں شاید وہ پرانی ہوگی اگر وہ کہیں گے تو میں انہیں موجودہ پی ایس ڈی پی کی کاپی بجھوا دونگا تا کہ وہ اسکو پڑھیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ میں روزانہ رات کو سونے سے پہلے پڑھتا ہوں اسکا مطلب ہے کہ اس پی ایس ڈی پی نے بہت سے لوگوں کو ہلایا ہوا ہے اور بہت سارے لوگوں کی نیندیں اڑ گئیں ہیں وہ18ماہ سے اس میں نقص تلاش کررہے ہیں لیکن انہیں نقص نہیں مل رہا۔

اس پی ایس ڈی پی میں ہر ایک کو اپنے ضلعے کے کام نظر آئیں گے میری تجویز ہے کہ وہ اس میں زیادہ قوت خرچ نہ کریں اگر کینسر اور امراض قلب کے ہسپتال، بارڈر مارکیٹ،ماربل سٹی بنتی ہیں،اخوت پروگرام سے قرض دیا جاتا ہے اور ٹریکٹر اسکیم آتی ہے اور انڈومنٹ فنڈ سے مفت علاج ہوتا ہے اگر ساحل کی ماسٹر اور سارے اضلاع کی ٹاؤن پلاننگ ہوتی ہے اور سیاحت پر کام شروع ہوتا ہے، ریونیو تین گنا بڑھتا ہے،ریفامز ہوتے اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوتے ہیں۔

ایم ایس ڈی ضلعی سطح پر جارہی ہے،15ہزار بچوں کو ٹرین کرنے کے لئے حکومت ٹریننگ کیمپ بناتی ہے،180طلبا ء کی بزنس ماڈل اور کمپنیوں کی تشکیل میں معاونت اگر منصوبہ بندی اور پالیسی نہیں ہے اورمثالی پی ایس ڈی پی بنانا منصوبہ بندی نہیں ہے تو میں اپنے معزز دوست کو چیلج دیتا ہوں کہ وہ دو صفات پر مشتمل جامع پلان لائیں پالیسی بنائیں،18ماہ میں حکومت آدھے صفحہ پر بھی ہماری پالیسی میں خامیاں نہیں لائی اگر چارلائنیں بول لیں تو اسے ہم ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن رکن نے وزیراعظم عمران خان کی بات پر تنقید کی جو انہیں وفاق میں پی ٹی آئی کے اتحادی ہونے، فنڈنگ لیتے ہوئے کے ناطے نہیں کرنی چاہیے تھی میں نے قومی اسمبلی میں انکی جماعت کے کسی رکن کا بیان نہیں سنا، عمران خان نے یہ کہاتھا کہ ریکوڈک کے وسائل ایسے ہیں کہ جو پورے پاکستان کے قرض اتا ر سکتے ہیں، ریکوڈ ک ایک وسیلہ ہے جسے جب حکومت بلوچستان چلائے گی تو صوبائی اور وفاقی ٹیکسز سے قرضے اتارنے میں معاونت ملے گی، ہمیں چیزوں پر غور کرکے بات کرنی چاہیے۔

وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ اپوزیشن ایوان کے تقد س کاخیال رکھتے ہوئے اسے عزت دے خالی کرسیاں ایوان کو عزت نہیں دے رہیں کیا ہم نے بلوچستان کے لوگوں کا ووٹ اس لئے حاصل کیا کہ چوراہوں اور سڑکوں پر احتجاج کریں اگر یہی سب کرنا ہے تو اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں ہم اسمبلی میں اپنے علاقے،صوبائی وفاقی حکومتوں،بین القوامی معاملات پر بات کرتے ہیں ہم مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اگر ہم اپنی تنخواہ اس حوالے سے پوری کرنی ہے کہ ہمیں ہر دوسرے دن کورم کی نشاندہی کریں تو سب سے ناجائز طریقے سے عوام کی دی ہوئی جگہ سے انصاف نہیں کر رہے،انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے کچھ ممبران جب بھی کوئی حوالہ دیں وہ یہ نا سمجھیں کہ ہم انہیں جواب نہیں دے سکتے،اعداد و شمار کا خزانہ ہمارے پاس بھی ہے اپنا وقت ہم نے بلوچستان میں لگایا ہے ہم نے بال ایسے ہی سفید نہیں کی لیکن بہت سارے لوگ اگر بات نہیں کر رہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم واقف نہیں ہیں ہم اپنے اعداد و شمار خود اکھٹے کرتے ہیں ہم نے چھ چھ لڑکے نہیں بیٹھائے ہوئے کہ جو انٹرنیٹ سے ہمیں چیزیں لا کر دے دیں اور مجھے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میں جو بات کر رہاہوں کہ وہ درست ہے یا غلط ہے ہم محنت کر کے ایک ایک لفظ کا وزن دیکھتے ہیں اعداد و شمارضرور بیان کریں لیکن حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کریں۔

حکومت زمینی حقائق پر کام کرنے پر یقین رکھتی ہے ہم پرامید ہیں کہ مخلوط حکومت ایک سال میں مثالی پلیٹ فارم مہیا کریگی۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے کرونا وائرس سے متعلق ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس ایک خطرناک بیماری ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہ ممالک جہاں ٹیکنالوجی، کارکردگی،صحت کی سہولیات، مستقبل کی پلاننگ دنیا بھر سے آگے ہیں انکا نظام بھی کرونا وائرس کے سامنے ناکا م ہوگیا ہے۔

بلوچستان کو پاکستان کے مسائل کو ہم کرونا وائرس کے ساتھ ایسے منسلک کر رہے ہیں جیسے ہم ترقی یافتہ ممالک میں سب سے آگے ہوں اس کے باوجود ہم تین دن سے کرونا وائرس کے حوالے سے صورتحال کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اس حوالے سے وزیراعظم،وفاقی وزیر صحت سے رابطہ ہوا ہے جبکہ چیف سیکرٹری بلوچستان، محکمہ داخلہ و پی ڈی ایم اے، محکمہ صحت، کمشنر مکران اور رخشان ڈویژن سے رابطے میں ہوں ہم نے حکمت عملی مرتب کی ہے۔

سدرن کمانڈ کے ساتھ بھی رابطے کئے ہیں، کرونا وائرس لا علاج ہے اس بیماری نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں حکومت بلوچستان صوبے میں کیمپ، نگرانی، آلات کی فراہمی کے لئے اقدامات کر رہی ہے اور مزید اقدامات بھی کئے جائیں گے، صوبائی اوروفاقی حکومتوں میں اس حوالے سے حکمت عملی مرتب کرنے کے لئے بھی مشاورت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ زائرین کے ٹور آپریٹرز کو بھی احتیاطی تدابیر لینے کا کہا ہے امید ہے ہم اس بیماری کو روک سکیں گے،اس بیماری کا جلد علاج نکلنا ضروری ہے کیونکہ اس سے چین سمیت دیگرممالک کو جانی اور مالی نقصان پہنچ چکا ہے جب کرونا وائر س کی اطلاع ملی تو حکومت بلوچستان کا وفد سردار یار محمد رند کی قیادت میں چینی سفیر سے ملا۔

انہوں نے کہا کہ میں خود تفتان گیا اور سیندک پلانٹ کا دورہ کیا وہاں موجود چینی اور پاکستانی مزدور وں کے ساتھ ملے تاکہ وہ یہ محسوس نہ کریں گے کہ انہیں چینی کمپنی سے وابسطہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا ہے۔