|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2020

پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جانب سے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے قوانین وضع کئے گئے ہیں جس کے تحت ہر سوشل میڈیا کمپنی پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کرے گی اور کمپنی ہر اس مواد کو چوبیس گھنٹوں کے اندر حذف کرنے کی پابند ہوگی جو مواد پاکستان کے مجریہ قوانین کے مخالف ہوں۔

تاہم بلوچستان کے صحافی اس قانون کو عوام کی آواز کو دبانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔مذکورہ قانون (سوشل ایکٹ) کے خلاف آج بلوچستان اسمبلی کے باہر (پی ایف یو جے) فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے احتجاجی کیمپ لگایا گیا جس میں صحافیوں سمیت وکلاء نے بھی شرکت کی۔

روزنامہ آزادی سے گفتگو کرتے ہوئے (بی یو جے) بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر ایوب ترین کا کہنا تھا کہ ” جب عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہماری جیت میں سوشل میڈیا کا بڑا نمایاں کردار رہا ہے”لیکن بدقسمتی سے آج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے جو کہ ایک غلط اقدام ہے۔

ایوب ترین سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے قوانین سے جمہوریت کو نقصان ہوگا۔انکا مذید کہنا تھا کہ مین سٹیریم میڈیا پر غیر اعلانیہ سینسرشپ ہے تو ان حالات میں لوگ سوشل میڈیا کے سہارے اپنی آواز اٹھا رہے ہیں جو کہ حکومت سے برداشت نہیں ہورہی۔”عمران خان نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں کے خلاف سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور اقتدار میں آنے کے بعد اب وہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا ان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے”ایوب ترین کے نذدیک سوشل میڈیا پر پابندی بائیس کروڑ سے زائد عوام کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ عوام کی آواز کو دبائے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ حکومت کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی اور ہم نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ مین سٹریم میڈیا کی بحالی کے لئے ملک گیر احتجاج کریں گے۔