|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2020

کوئٹہ:  وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ پچھلے ایک ماہ سے کرونا وائرس نے سراٹھانا شروع کیا ہے جس میں خاص کر چین ہے جہاں سے پہلے کرونا وائرس کا کیس سامنے آیا جس کے بعد اس نے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

بلوچستان حکومت نے اس حساس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری اقدامات اٹھائے اس دوران ہماری حکومت نے پہلے ائیرپورٹ پر انٹرنیشنل پرواز سے آنے والے مسافروں کے ٹیسٹ کیلئے ایک میکنزم تیار کیا مگر جب ایران میں کرونا وائرس کے کیس کی تصدیق اور ہلاکتوں کا معاملہ سامنے آیا تو حکومت بلوچستان نے فوری ایمرجنسی نافذ کردی اس وقت تمام پاک ایران سرحد کو مکمل سیل کردیا گیا ہے۔

ان خیالات کااظہار وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے آزادی ڈیجیٹل نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ میں نے اپنے وزراء اور آفیسران کے ہمراہ تفتان بارڈر اور سیندک کا دورہ کیا پاکستان ہاؤس گئے۔

وہاں پر سہولیات کا جائزہ لیا اس وقت تک سرحد کی بندش کا معاملہ فی الحال نہیں آیا تھا کیونکہ اس دوران ہم نے سیندک پروجیکٹ کا دورہ کیا اور وہاں کام کرنے والے چینی اور پاکستانی باشندوں سے ملاقات بھی کی مگر جیسے ہی میں مجھے غیرملکی خبررساں اداروں کی توسط سے خبریں ملنا شروع ہوئی کہ ایران میں کروناو ائرس سے کیسز سامنے آئے ہیں اور ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں تو فوراََ ہم نے سرحد کو آمدورفت کیلئے سیل کردیا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ فوری طور پر وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیر صحت اور پاکستان میں موجود ایرانی سفیر سے میں نے صورتحال پر بات چیت کی کیونکہ مجھے یہ خدشہ محسوس ہوا کہ اتنی تیزی سے ایران میں کیسز رپورٹ ہورہے ہیں تو صورتحال سے بروقت نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے پھر اس کے بعد چیف سیکریٹری بلوچستان، کمانڈرسدرن کمانڈ، محکمہ صحت، محکمہ پی ڈی ایم اے، رخشان اور مکران ڈویژن کے کمشنر ز کے ساتھ ملکر دودن تک کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ایک مکمل میکنزم کی تیاری شروع کی اور حکومت بلوچستان نے اپنے وسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کام کا آغاز کیا پھر اور مزید آگے کیلئے ایک بہترین لائحہ عمل تیار کرسکیں جس پر میری پہلی تجویز یہی تھی کہ سب سے پہلے سرحدکی بندش کو یقینی بنایا جائے اس حوالے سے میں وفاقی حکومت کو بھی آگاہ کیاکیونکہ جتنے بھی کیسز اس وقت سب سے زیادہ سامنے آرہے تھے تو قم کے علاقے سے ہی رپورٹ ہورہے تھے۔

جہاں پر ہمارے زائرین زیادہ جاتے ہیں اور یہ زائرین صرف بلوچستان سے نہیں بلکہ اندرون سندھ، پنجاب اور کراچی سے زیادہ لوگ یہاں آکر زیارت کیلئے جاتے ہیں کیونکہ بلوچستان سے بہت کم لوگ جاتے ہیں جن میں بیشترکا تعلق کوئٹہ سے ہوتا ہے اس لئے یہ بلوچستان کیلئے نہیں بلکہ زائرین جو ملک کے دیگر علاقوں میں جائینگے تویہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کرجائے گا۔

اس لئے سرحد کی بندش کو یقینی بنایا گیا کیونکہ بعض حلقہ اس پر اعتراض کررہے تھے کہ اس سے تجارت پر بھی اثر پڑے گا مگرہم نے ہنگامی بنیادوں پر سرحدکی بندش کو یقینی بنایا تاکہ اس وائرس کو نہ صرف روکا جاسکے بلکہ اس کے پھیلاؤ کے تدارک کو بھی سمجھا جاسکے کیونکہ یہ معمولی وائرس نہیں کہ کسی علاقے تک محدود رہے بلکہ یہ خطرناک وائرس ہے جو کہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

اس سے قبل وزیر داخلہ کے ساتھ ٹیم کو تفتان بھیجا گیا جہاں علاقے کا جائزہ لیا گیا اور سہولیات اور اقدامات کو دیکھا گیا تاکہ مزید وہاں پر وائرس کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جاسکیں کیونکہ پہلے سے ہی وہاں پر بنیادی کیمپس لگائے گئے ہیں اور ان کو مزید بہتربنانے کیلئے اقدامات اٹھارہے ہیں خاص کر صحت کی سہولیات یقینی ہوسکے اسی طرح چمن، جیونی سمیت دیگر سرحدی علاقوں میں بھی کیمپ لگائے گئے ہیں جبکہ انٹرنیشنل پروازوں سے آنے والے مسافروں کا بھی ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

بلوچستان حکومت اپنے وسائل کی بنیاد پر جو بھی کرسکتی ہے وہ اقدامات اٹھارہی ہے کیونکہ کرونا وائرس کوئی معمولی وباء نہیں جسے ایک میڈیکل سینٹر یا آفیسر کے ذریعے روکا جاسکتا ہے کیونکہ ملکی سطح پر بھی اسے روکنے کے حوالے سے مشکلات درپیش ہوسکتی ہیں اس قدر خطرناک وائرس ہے مگر محدود وسائل میں رہتے ہوئے وائرس سے نمٹنے کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومت کام کررہی ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ سب سے پہلے ہماری ترجیح صحت کے مراکز کو فعال رکھنا ہے مگر بلوچستان کی سرحدی پٹی اتنی طویل ہے جو لگ بھگ 800اور 900 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے جو کہ ایران سے ملتا ہے جہاں پر بہت زیادہ آمد ورفت ہوتی ہے لیکن ان میں بعض علاقوں میں باڑ لگانے کا عمل بھی جاری ہے باڑ مکمل سرحد پر نہیں لگائے گئے کہ سرحدوں میں آمدورفت کو روکا جاسکے مگر یہ بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ سرحدی علاقوں میں اس وائرس کا پھیلاؤ اتنا نہیں ہے۔

وائرس کا مرکز اس وقت ایران کا سینٹرل علاقہ ہے مگر اس حساس معاملے کو ہم بالکل ہی نظرانداز نہیں کرسکتے نقل وحرکت کو روکنے کی مکمل کوشش کی جائے گی ویسے سرحد پر تجارت کا کوئی خاص میکنزم تو نہیں ہے مگر راہداری کے ذریعے لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے ایران سے پاکستان اور پاکستان سے ایران لوگ جاتے ہیں یہاں پر لوگوں کی آپسی رشتہ داریاں بھی ایران میں ہے مگر اس حوالے سے ہمیں سب سے زیادہ موبائلائزیشن بھی کرنی چاہئے اور میڈیا نے اس میں اچھا کردار ادا کیا ہے ہماری کوشش ہے کہ کرونا وائرس کی یہاں منتقلی کو روکنے کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں اس وائرس کی ٹیسٹنگ اس وقت صرف اسلام آباد اورکراچی میں ہوتی ہے ملک کے دیگر حصوں میں فی الوقت یہ سہولیات موجود نہیں،کرونا وائرس اس وقت ملک کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

بہرحال ہم اس وائرس کو روکنے کیلئے تمام کوششیں اور وسائل کو بروئے کار لارہے ہیں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر آگے جارہے ہیں جبکہ صحت پر خاص توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں وہ تمام صحت کے بنیادی سہولیات جس کی سکت حکومت رکھتی ہے اسے پورا کررہے ہیں تاکہ عوام کو اس وباء سے بچایاجاسکے، اگر دیکھاجائے تو اس وائرس کی تشخیص کے حوالے سے ملکی سطح پر خاص ماہرین موجود نہیں بلکہ دنیا کے بیشترممالک کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے۔

بہرحال ہم اپنی پوری کوشش اور جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ روک سکیں اور عوام کو بہترسے بہترسہولیات فراہم کریں اس وقت بھی آئسولیشن وارڈ، آئسولیشن کیمپ ہم نے بنائے ہیں۔

اس وائرس کے ہوا میں وائرل ہونے کا میں نہیں کہہ سکتا کیونکہ کرونا وائرس ہوا کے ذریعے اتنا نہیں پھیلتا ہے بلکہ میری جو معلومات ہے اس کے مطابق وائرس کسی چیز کے چونے اور قریبی روابط کی وجہ سے تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے ایک اندازے کے مطابق چھ سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ایک دوسرے کو یہ وائرس متاثرکرتا ہے کھانسی اور نزلہ سے بھی یہ وائرس لگتا ہے جہاں پرمتاثرہ شخص کسی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو یہ وائرس اسے لگ جاتا ہے۔

اس لئے جہاں پر یہ وائرس موجود ہے وہ ممالک اسپرے بھی کررہے ہیں تاکہ مزید یہ وائرس پھیل نہ سکے البتہ ہوا کے ذریعے اس وائرس کے پھیلنے کا کوئی تعلق نہیں اگر ایسا ہوتا تو آج چین میں صورتحال انتہائی گھمبیر ہوجاتی بہرحال اس وائرس کے حوالے سے آگاہی مہم پر بھی توجہ دی جارہی ہے تاکہ لوگوں میں وائرس سے بچاؤ کا شعور آسکے۔