کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ایک ہی دن میں دو بار حکومتی اراکین کی جانب سے کورم کی نشاندہی، حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان نوک جھونک، کورم پورا نہ ہونے کے باعث کاروائی مکمل ہوئے بغیر اجلاس غیر معینہ مد ت تک کے لئے ملتوی،بلوچستان اسمبلی کا اجلاس دو روزہ وقفے کے بعد جمعرات کوحسب معمول ایک گھنٹہ 20منٹ کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا۔
تاہم اجلاس شروع ہوتے ہوئے اپوزیشن اور حکومتی اراکین بیک وقت اجلاسوں میں اراکین کی عدم شرکت کا نکتہ اٹھانے لگے سابق سپیکر میر جان محمد جمالی نے کورم کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اراکین اجلاسوں میں اپنی موجودگی اور شرکت کو یقینی بنائیں سپیکر نے کورم کی گھنٹیاں بجانے کی رولنگ دی اور بعدازاں جب اجلاس شروع ہوا تو وقفہ سوالات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء بلوچ،جے یوآئی کے سید فضل آغا اور دیگر اپوزیشن اراکین نے متعلقہ وزراء کی عدم موجودگی پر تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اراکین اور وزراء اسمبلی کے اجلاسوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
اور نہ ہی متعلقہ وزیر وقفہ سوالات میں اپنی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں حالانکہ قواعد کی رو سے یا تو متعلقہ وزیر خود اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں یا اگر وہ کسی وجہ سے نہیں آپاتے تو کابینہ کے کسی بھی رکن کو اختیاردیا جاسکتا ہے تاکہ وہ جواب دیں۔ ثناء بلوچ نے کہا کہ اکثر محکمے وزیراعلیٰ کے پاس ہیں اور وہ اجلاسوں میں نہیں آتے۔ سید فضل آغا نے کہا کہ ہر بار وقفہ سوالات موخر نہیں ہونا چاہئے۔
متعلقہ وزیر کی جگہ کوئی بھی دوسرا وزیر تیاری کرکے آئے اور ایوان کو مطمئن کرے اس موقع پر محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی سے متعلق پہلے سوال کا جواب صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے دیا تاہم محرک ثناء بلوچ نے عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے ضمنی سوال میں سی پیک سے متعلق 2016ء میں گوادر میں منعقدہ کانفرنس کی تمام تفصیلات اور یکارڈ ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ کانفرنس کا انعقاد ہنگامی بنیادوں پر کیا گیا بلوچستان کے حوالے سے جو غلط تاثر تھا اس کے ازالے کے لئے اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد ضروری ہے اس موقع پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے مابین کافی دیر تک مباحثہ ہوتا رہا تاہم سپیکر نے وقفہ سوالات اگلے اجلاس تک موخر کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے وزراء کو تاکید کی کہ وہ وقفہ سوالات کے دوران اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں اگر متعلقہ وزیرخود کسی وجہ سے نہیں آپاتا۔
تو وہ کابینہ کے کسی بھی دوسرے رکن کو پابند کرسکتا ہے اگر وزراء اور اراکین اسمبلی اجلاسوں میں نہیں آئیں گے تو پھر اجلاس بلانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے صوبے میں کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح سے متعلق اپنا توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر صحت سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ صوبے میں کینسر کا مرض تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔
اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو حکومت نے اب تک کینسر کی وجوہات جاننے، روک تھام اور علاج معالجے کی سہولت کی فراہمی کے حوالے سے کونسے اقدامات اٹھائے ہیں نیز یہ تفصیل بھی فراہم کی جائے کہ صوبے میں کینسر کی سو فیصد تشخیص و علاج کی سہولیات کو کب تک ممکن بنایا جاسکے گا۔ثناء بلوچ نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ سوال بھی ہم پوچھتے ہیں اور جواب بھی ہمیں ہی دینا پڑتا ہے۔
صوبے میں کینسر کی شرح تشویشناک تک حد تک بڑھ گئی ہے جس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق صوبے میں سالانہ12ہزار افراد کینسر کا شکار ہورہے ہیں ہم نے کینسر کا تدارک اور علاج نہیں کیا اب توکرونابھی آگیا ہے کوئی شک نہیں کہ دعاؤں سے بلائیں ٹلتی ہیں لیکن یہاں صرف دعانہیں بلکہ دوا کی بھی ضرورت ہے بلوچستان کواچھی طرز حکمرانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد میں کینسر کے علاج کے لئے پانچ ہسپتال قائم ہیں، سندھ، خیبرپشتونخوا اور پنجاب ہر صوبے میں سات سات ہسپتال قائم ہیں جبکہ بلوچستان میں حالت یہ ہے کہ یہاں سینار کے پرانے انفراسٹرکچر کو چھوڑ کر کوئی ہسپتال نہیں جو سوال میں نے پوچھا ہے اس کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں جو افتتاح وزیراعلیٰ صاحب نے کیا وہ ہسپتال کا نہیں۔
بلکہ صرف ایک بلاک کا سنگ بنیاد تھا 1557ملین کی لاگت سے شیخ زید ہسپتال میں کینسر کے علاج کے لئے ایک بلاک بنایا جارہا ہے اوریہ بات نوٹ کی جائے کہ یہ بلاک اگلے کئی برس تک فعال نہیں ہوسکے گا کیونکہ ایک خطیر رقم تو کنسٹرکشن پر خرچ ہورہی ہے پھر آلات آئیں گے پھر انہیں فنکشنل کیا جائے گا حالانکہ ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ آپ کو کنسٹرکشن کی ضرورت ہی نہیں ہمارے پاس عمارتیں ہیں۔
آپ صرف ہسپتال اسٹیبلش کریں لیکن ہماری تجویز پر توجہ نہیں دی گئی۔ صوبائی وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ نے طب کے شعبے میں حکومتی اقدامات سے ایوان کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ایک غریب صوبہ ہے یہاں کے لوگ غریب ہیں موجودہ حکومت نے صوبے کے غریب عوام کو متعدد ایسی بیماریوں کے علاج کے لئے بلوچستان عوامی انڈوومنٹ فنڈقائم کیا ہے۔
جس کے تحت اب تک پانچ سو سے چھ سو مریضوں کا کینسر سمیت دیگر موذی امراض کا علاج کرایاگیا ہے ایسے بھی مریض ہیں جن کے علاج معالجے پر 70سے80لاکھ خرچ ہوئے اور واپسی پر صحتیاب ہو کروہ دعائیں دیتے ہوئے آئے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں جدید سہولیات سے آراستہ کینسر ہسپتال کی ضرورت ہے۔
لیکن معزز رکن اگر اس سوال کو یہاں اٹھانے کی بجائے قومی اسمبلی میں اٹھاتے تو شاید اس کا زیادہ فائدہ ہوتا کیونکہ یہ جنگ صرف حکومت کی یا صرف اپوزیشن کی جنگ نہیں ہم سب نے مل کر یہ جنگ لڑنی ہے۔ اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ، میر حمل کلمتی اور اختر حسین لانگو کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی وسائل کی بد ترین صورتحال کو دیکھتے ہوئے صوبے کے ہر یونین کونسل میں اعلیٰ تکنیکی کالجز کے قیام ان کے لئے پالیسی مرتب کرنے اور فنڈز مختص کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
لہٰذا صوبائی حکومت ہر یونین کونسل کی سطح پر تکنیکی کالجز کے قیام کے ساتھ ان کے لئے پالیسی مرتب کرنے اور فنڈز مختص کرنے کو یقینی بنائے تاکہ عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی اور بے چینی کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے علاقے چاغی، نوشکی، خاران اور ان سے متصل اضلاع کے لوگ ایران میں پھنسے ہوئے ہیں حکومت ترجیحی بنیادوں پر انہیں کھانے پینے اور بنیادی ضروریات کی اشیاء فراہم کرکے انکی حفاظت کو یقنی بناتے ہوئے۔
اسکیریننگ کے بعد انہیں انکے گھروں کو منتقل کرئے۔ صوبائی وزیر خوراک سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کرونا وائرس کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کو یقنی بنانے کیلئے شروع دن سے وفاقی حکومت انتظامی افسران سے رابطے میں ہیں وفاقی حکومت نے اس ضمن میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے گزشتہ روز وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی وزیراعلیٰ سے ہونے والی ملاقات میں تمام امور کا جائزہ لیا گیا ہے ہمیں بلوچستان کے لوگوں کو تحفظ کرنا ہے، وزیراعلیٰ، صوبائی وزیر داخلہ، اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے تفتان بارڈ کا دورہ کرکے انتظامات کا جائزہ لیا ہے۔ پی ڈی ایم اے اور محکمہ صحت کو ہنگامی صورتحال سے نمنٹنے کیلئے ہر ممکن تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کورم کی نشاندہی کی جس پر اجلاس آدھے گھنٹے کے لئے ملتوی کردیا گیا بعد ازاں اجلاس شروع ہواتو کورم پورا نہیں تھا جس پر اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیاگیا۔