کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے رہنماوں نے کہا ہے کہ صوبے میں ترقی کا عمل رک گیا ہے، اپوزیشن ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ اجتماعی عوامی مسائل حل کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ اپوزیشن کے حلقے کے لوگوں کیساتھ زیادتی برداشت نہیں کرینگے۔
صوبائی حکومت بلوچستان کے عوام اور جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کی بات تک نہیں سننا چاہتی، جس وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ماضی میں کھلی کچہریاں لگتی تھیں آج اس کے دروازے بلوچستان اسمبلی کے منتخب اراکین اسمبلی پر بھی بند کردیئے گئے ہیں، 19 مارچ کو اپنے حلقوں کے لوگوں کے ہمراہ احتجاج کرینگے اور بلوچستان میں عوام دوست حکومت کے قیام تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
ان خیالات کا اظہار بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی، ثناء بلوچ، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو، حمل کلمتی، شکیلہ نوید دہوار، ٹائٹس جانسن، حاجی نواز کاکڑ، زابد ریکی، مکھی شام لعل و دیگر نے جمعہ کو وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا و مظاہرہ سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
قبل ازیں بلوچستان اسمبلی سے ریلی بھی نکالی گئی۔بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 70 سال سے جمہوریت کے نام پر مختلف حربوں کے ذریعے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کے عوام کا استحصال کیا جارہا ہے۔ 70 سال سے ہم پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، ہم محرمومیوں و ناانصافیوں کا شکار ہیں۔
ہمیں ہمارے حقوق سے محروم کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ارکان اپنے مفاد کے لئے نہیں سی پیک، ریکورڈک، سیندک، قاتل شاہراہوں کو دو رویہ کرنے، امن و امان اور اجتماعی مسائل حل کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ اپوزیشن کے حلقے کے لوگوں کیساتھ کسی بھی زیادتی اور محرومی کو برداشت نہیں کرینگے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہم سے اتفاق کیا تھا اور اسمبلی فلور پر طے ہوا تھا کے تعلیم کو اولیت دی جائیگی صوبے کے طول و عرض میں لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں گی، تمام اضلاع کے لوگوں کو مساوی حقوق دیئے جائیں گے تاہم ڈیڑھ سال تک ان نکات پر عمل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد مضبوط ہے۔ ہم نے اسمبلی میں کوشش کی پارلیمنٹ میں ایک ایسی پالیسی بنائیں کہ بلوچستان میں ایک امن و امان قائم ہو، حکومت کو اس جانب قائل کرنے کی کوشش کی کہ کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل تک بلوچستان آگئے نہیں چل سکے گا۔
حکومت نے اپوزیشن کو جو یقین دہانیاں کرائی تھیں ان پر عمل کی بجائے حکومت راہ فرار اختیار کررہی ہے حکومت اگر ہمیں اسمبلی میں سننا نہیں چاہتی تو ہم سڑکوں پر اپنا مدعا بیان کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ نان ٹیچنگ آسامیوں پر ہونے والی تعیناتیوں سے متعلق شواہد سامنے آنے کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لاگئی، پشین میں 90 اسامیوں پر تعیناتیوں میں میرٹ کو پامال کیا گیا۔
بلوچستان میں 27 کروڑ روپے کی جعلی ادویات لوگوں کو فراہم کی گئیں، وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹریٹ میں پی اینڈ ڈی اور سی اینڈ ڈبلیو کے دو دو محکمہ قائم ہیں جو ان کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا اظہار ہے اور اس سے سارے معاملات رک گئے ہیں۔ احتجاجی مظاہرے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی نصف آبادی نے ہمیں منتخب کرکے اسمبلی بھیجا ہے۔
ہمیں اسمبلی فلور پر ان ریکارڈ ان کے مسائل کے حل کیلئے بات کرنی چاہیے۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ چند افراد تک متحددو ہوکر رہ گیا ہے حالانکہ اسی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں سردار عطاء اللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی، سردار اختر مینگل کے دور حکومت میں کھلی کچہریاں لگتی تھیں اور لوگوں کے مسائل حل کئے جاتے تھے آج وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے دروازے بلوچستان اسمبلی کے منتخب اراکین اسمبلی کیلئے بند کردیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسمبلی کا کورم پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی مگر یہاں ایسا لگ رہا ہے کہ کورام پورا کرنا نہیں بلکہ کورم توڑنا حکومت کی ذمہ داری بن چکی ہے۔ حکومت سچ سننا پسند نہیں کرتی اور نہ وزیراعلیٰ اسمبلی آنا پسند کرتے ہیں گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان بلوچستان اسمبلی میں موجود ہونے کے باوجود ایوان میں نہیں آئے، انہوں نے کہاکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی کی تعداد اس وقت 25 ہے وزیراعلیٰ چاہیں تو انہیں بلاکر کورم پورا کرسکتے ہیں۔
تاہم رواں سیشن کے دوسرے اجلاس میں اسمبلی کی کارروائی مکمل ہونے پر جب وزیراعلیٰ کی موجودگی کے دوران اپوزیشن ایوان سے چلی گئی تو وہ ڈپٹی اسپیکر پر غیرقانونی طریقے سے اجلاس چلانے کیلئے دباؤ ڈالتے رہے۔اس موقع پر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک بلوچستان کے حقوق سے متعلق معاملات طے پانے تک جاری رئیگی 19 مارچ کو عوامی مارچ ہوگا۔
بلوچستان کے عوام کو ساتھ لیکر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کا گھیراؤ کرینگے۔ بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے اراکین کی تعداد 23 ہے تاہم حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اکثر ارکان اسمبلی نا خوش ہیں تاہم وہ جس طرح یکجا ہوئے ہیں وہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ان مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جنہیں بارہا اسمبلی کے فورم پر اٹھایا گیا تاہم کورم کی نشاندہی کرکے حکومت نے ان مسائل سے راہ فرار اختیار کی جس کے بعد انہی مسائل کے حل کیلئے ہم نے دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے اجتماعی مسائل جن میں صحت، تعلیم، امن وامان، گیس، بجلی، بے روزگاری شامل ہیں کے حل تک ہماری جدوجہد جاری رہیگی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت عملاً عوامی مسائل کے حل میں ناکام ہوچکی ہے۔ ثناء بلوچ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان کے عوام اور جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کی بات نہیں سننا چاہتی، حکومت نے اپوزیشن سے اب تک مذاکرات کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل نہیں دی اور نہ ہی مذاکرات کا عمل شروع ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے خواہاں ہیں اس وقت بلوچستان میں سلگتے مسائل ہیں صوبے میں ترقی کا عمل رک گیا ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسپتالوں اور شہروں کی حالت ابتر ہے، امن و امان کی ابتر صورتحال، میڈیا کو بحران کا سامنا ہے ہم بی ایم سی کے طلباء کے مسائل بالخصوص کرونا وائرس کے تدار ک کیلئے بات کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم حکومت نے اس سلسلے میں اب تک اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ حکومتی ارکان نے حکومت کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں کورم کی نشاندہی کی ایسی چیزیں تاریخ میں پہلے کھبی نہیں ہوئیں۔
انہوں نے کہاکہ 19 مارچ کو اپنے حلقوں کے لوگوں کے ہمراہ احتجاج کرینگے اور عوام فیصلہ کریں گیکہ اس تحریک کو صوبے بھر میں پھیلائیں گے اور جب تک حکومت تبدیل نہیں ہوتی ا س وقت تک بلوچستان کی سڑکیں بلاک کردیں گے اور حکومتی مشینری کو اس وقت تک روکنے کی کوشش کرینگے جب تک بلوچستان میں عوام دوست حکومت نہیں آتی۔