|

وقتِ اشاعت :   March 6 – 2020

رقبے کے لحاظ سے بلوچستان مملکت خداداد کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بلوچستان کی سرزمین سے نکلنے والی گیس سے ملک بھر کا صنعتی پہیہ چل رہا ہے۔ مگر کوئٹہ کے علاوہ باقی صوبے میں لوگ چولہا جلانے کیلیے اب بھی لکڑیاں استعمال کررہے ہیں۔ سونے اور تانبے کے ذخائر بھی اس پسماندہ صوبے کی قسمت نہیں بدل سکے۔ ریکوڈک اور سیندک بھی اس صوبے کی پسماندگی دور نہ کرسکے۔پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کے نام پر بلوچستان کو دوسرے صوبوں اور چین سے ملانے کیلیے ایک شاہراہ تو بنائی گئی، مگر کراچی کوئٹہ شاہراہ کو ڈبل نہ کیا جاسکا، جہاں سالانہ حادثات کی وجہ سے ہزاروں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بلوچستان کا طویل ساحل جو کہ بین الاقوامی بحری گزرگاہ ہے۔ جبکہ اس پسماندہ صوبے کے بین الاقوامی فضائی روٹ بھی سالانہ ملکی خزانے میں اربوں روپے کا اضافہ کررہے ہیں۔

لیکن بحری اور فضائی روٹ بھی اس صوبے کے عوام کی قسمت نہ بدل سکے۔1970 میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بلوچستان کو صوبائی حیثیت تو مل گئی، مگر بلوچستان کے لوگوں کو بنیادی سہولیات نہ مل سکیں۔ بلوچستان کی طویل سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا ذرائع آمدن یہی دونوں سرحدیں ہیں۔بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی لوٹ ماری کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا گیا کہ یہاں چند ایک اچھے اسپتال بناکر یہاں کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جائے۔ یہاں سڑکوں کا جال بچھانے کے بارے میں کسی نے سوچنا تک گوارا نہیں کیا۔ اس لیے اعداد وشمار یہی بتارہے ہیں کہ بلوچستان میں روڈ حادثوں میں ہلاکتوں کی تعداد دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں سے زیادہ ہے۔ ویسے کینسر اور دیگر موذی بیماریوں سے اس پسماندہ صوبے میں سالانہ سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں، جبکہ دور دراز علاقوں میں حاملہ خواتین کی، دوران ڈلیوری اموات کی شرح دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے۔

ایران میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد ایران بلوچستان بارڈر کو سیل کیا گیا۔ بلوچستان میں فیول اور دیگر بنیادی ضروریات کی اشیا ء ایران سے آتی ہیں۔ درجنوں چیک پوسٹوں سے گزر کر ایرانی فیول اندرون بلوچستان سپلائی ہوتا ہے۔ جو کہ ماہی گیری کے شعبے کے بعد یہاں کے لوگوں کی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ ایران کے بعد کراچی میں کورونا وائرس کی موجودگی بلوچستان کے عوام کیلیے کسی پریشانی سے کم نہیں کیونکہ روزانہ ہزاروں افراد کراچی سے بلوچستان اور بلوچستان سے کراچی کا سفر کرتے ہیں۔ جہاں سے یہ وائرس بلوچستان کا رخ کرسکتا ہے۔بلوچستان میں صحت کی ناقص صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 12 ملین آبادی پر مشتمل صوبے میں کوئی ایک ایسا اسپتال نہیں جہاں علاج معالجے کی تمام سہولیات دستیاب ہوں۔ حتیٰ کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے لوگ بھی علاج معالجے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ جبکہ اندرون بلوچستان سیکڑوں ایسے گاؤں ہیں جہاں صحت کے بنیادی مراکز تک موجود نہیں۔

بلوچستان کے بڑے بڑے اضلاع میں بھی ملیریا اور بخار کا بمشکل علاج ہوتا ہے۔ جبکہ برننگ سینٹر بھی نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کیلیے ہنگامی بنیادوں پر کیا اقدامات کررہی ہے؟ جس سے پسماندہ صوبے کے غریب لوگ اس وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔ ویسے بھی اس وقت بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں صوبائی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بلوچستان میں بیڈ گورننس کی وجہ سے صحت عامہ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کورونا وائرس کو روکنے کیلیے ضروری ہے کہ کراچی سے آنے والے لوگوں کی اسکریننگ کرکے کورونا وائرس کو بلوچستان میں داخل ہونے سے بچایا جائے۔ اور ایران بارڈر کو بند کرنے کے بجائے وہاں اسکریننگ اور آئسولیشن وارڈ بناکر وائرس کو بلوچستان آنے سے روکا جاسکتا ہے۔ کیونکہ بارڈر کی بندش بلوچستان کے لوگوں کا معاشی قتل ہوگا اور بلوچستان میں فیول ناپید ہوجائے گی۔ زمینی راستے کے علاوہ ایران اور بلوچستان کے درمیان بحری راستہ بھی موجود ہے۔ بلوچستان حکومت کو ایسا میکنزم بنانا چاہیے کہ کورونا وائرس سمندری راستے سے بلوچستان میں داخل نہ ہوجائے۔دوسری بات کورونا وائرس کی تشخیص کیلیے بلوچستان کے اکثر اضلاع میں ٹیسٹ کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی بلوچستان میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی پہلے سے شدید کمی ہے۔ کورونا وائرس بلوچستان میں داخل ہوا تو اس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حکومت کو فوری طور پر اس جانب توجہ دینی چاہئے۔