بلوچستان کے معاشرے کےبارے میں عام تاثر ہے کہ یہ ایک روایتی اورقدامت پسند معاشرہ ہے،،،اس معاشرے میں خواتین گوناگوں مسائل کا شکار ہیں ،،ان میں تعلیم اور صحت کےمسائل نمایاں ہیں جن کااندازہ صرف دو باتوں سے لگایاجاسکتا ہے کہ جس میں ایک کی شرح ملک میں سب سے کم اور دوسرے کی سب سے زیادہ ہے،،یعنی ملک میں خواتین میں سب سے کم شرح خواندگی اسی صوبے میں ہے اور اسی طرح زچگی کے دوران ماوں کی شرح اموات بھی اسی صوبے میں سب سے زیادہ ہے،،،،،،اور اگر بات ہو غیرت کے نام پر قتل کی تو اس کی شرح بھی کم وبیش بلوچستان میں زیادہ گردانی جاتی ہے،،،،یہ اور اس طرح کےدیگر مسائل بلوچستان کا مثبت کی بجائے ایک منفی تاثر اجاگر کرتے رہے ہیں۔۔
مگر ان مسائل اور پسماندگی کےباوجود بلوچستان کےحوالے سے ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ یہی وہ صوبہ ہے جس کی خواتین کئی شعبوں میں رجحان ساز یعنی trend setterہیں،،،جی ہاں ،،،ملک میں نسبتا کم تعلیم یافتہ صوبہ ہونے کےباوجود کئی شعبوں میں تعداد میں بے حد کم ہونے کے باوجود یہاں کی خواتین نے اپنی حیثیت کو منوایا ہے،،،اس میں نہ صرف عدلیہ بلکہ سیاست ،تعلیم،سماجی خدمات،طب اور کھیل سمیت مختلف شعبے شامل ہیں،،یہی نہیں بلکہ اب صوبے کی خواتین بیوروکریسی میں بھی آگے آ رہی ہیں۔۔
عدلیہ کی بات کی جائے تو یہ بلوچستان ہی کی ایک معززخاتون ہیں جنہیں ملک میں کسی بھی صوبے میں ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہونے کااعزازحاصل ہوا،،میری مراد جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر سے ہے جو اس سرزمین کی ہی بیٹی ہیں۔۔۔۔پہلی خاتون چیف جسٹس مقررہونے سے قبل انہیں 1988میں بلوچستان کی پہلی خاتون سول جج ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے،،،اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر بلوچستان کی خواتین کے لئے عدلیہ کے شعبے میں رجحان ساز یعنی Trend setterکہاجاسکتاہے،،،اب ان کے بعد اگر کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں خواتین وکلاء اس شعبے میں شمولیت کررہی ہیں تو اس میں ان کا بہت زیادہ اثر ہے۔
ابھی حال ہی میں اس سال کے لئے امریکہ میں کوئٹہ کی ایک وکیل خاتون جلیلہ حیدر کو عالمی سطح پر باہمت ترین خاتون International Courage Awardکااعزازملنا بھی بلوچستان کے لئے قابل فخر بات ہے۔۔جلیلہ حیدر صوبے بلکہ ملک میں انسانی اورسماجی حقوق کےحوالےسے جدوجہد کرنےکےحوالےسے نمایاں مقام رکھتی ہیں۔۔وہ پیشے کےاعتبار سے ایک وکیل ہیں،،،انہیں اپنی ہزارہ برادری کی پہلی خاتون وکیل ہونے کابھی اعزازحاصل ہے۔۔۔ انسانی حقوق کےلئے جدوجہد کرنے کےعلاوہ ان کی سماجی شعبے میں بھی نمایاں خدمات رہی ہیں،،اسی بناء پر جلیلہ حیدر کو انسانی حقوق اور سماجی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے،،،،جلیلہ حیدر ۔۔۔وی دا ہیومین پاکستان نامی غیرسرکاری تنظیم کی بانی بھی ہیں۔۔۔۔
اگر سیاست کی بات کی جائے تو اس فہرست میں بھی بلوچستان کی خواتین رجحان ساز رہی ہیں،،،ان میں سب سے نمایاں نام محترمہ زبیدہ جلال کا ہے جو کہ تعلیم اور سماجی شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دینے کےبعد سیاست میں آئیں اور اپنی صلاحیتوں کا زبردست لوہامنوایا،،،محترمہ زبیدہ جلال نے اپنے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کےلئے ایک اسکول کی بنیاد رکھی،،،،زبیدہ جلال کو بلوچستان کی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جنہوں نے 2002کےعام انتخابات میں الپنے آبائی علاقے کیچ / تربت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور پھر وزیرتعلیم بنیں۔۔اس وقت بھی محترمہ زبیدہ جلال 2018کےعام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کےبعد وزیرمملکت دفاعی پیداوار کے منصب پر فائز ہیں۔۔محترمہ زبیدہ جلال کو سماجی اور تعلیم کےشعبے میں خدمات پر صدارتی تمغہ امتیاز سے بھی نوازا جاچکاہے۔۔
محترمہ زبیدہ جلال کےعلاوہ کسی بھی صوبائی اسمبلی میں پہلی خاتون اسپیکر ہونے کااعزاز حاصل رکھنےوالی خاتون سیاستدان کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے،،یہاں مراد محترمہ راحیلہ حمیدخان درانی سے ہے جو کہ 24دسمبر کو بلوچستان اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر منتخب ہوئی تھیں۔۔اس سے پہلے وہ رکن صوبائی اسمبلی اور پراسیکیوشن کی وزیرکےطور بھی خدمات سرانجام دے چکی تھیں۔۔ویسے تو پیشے کےاعتبار سے ایک وکیل ہیں لیکن وہ بطور عامل صحافی اور سماجی شعبے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوا چکی ہیں، انہی خدمات کی بناء پر انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جاچکاہے۔۔۔
بلوچستان میں رجحان ساز خواتین میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر نور جہاں پانیزئی کا ہے، صوبے کے ضلع پشین سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نور جہاں پانیزئی ملک کی پہلی خاتون تھیں جو ڈپٹی چئیرپرسن سینیٹ کے منصب پر فائز ہوئیں۔ یہ بلاشبہ بلوچستان کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ صوبے کی ایک خاتون کو ملک کےآئینی ادارے میں اتنا بڑا عہدہ ملا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کس خوش اسلوبی سے تقریبا تین سال یعنی مارچ 1991سےمارچ 1994 تک انہوں نے بطور ڈپٹی چئیرپرسن سینیٹ فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دئیے۔ اس دوران انہوں نے کئی بار ایوان بالا کے سیشنزکی صدارت بھی کی۔
بلوچستان کی سیاست میں ایک نمایاں نام محترمہ فضیلہ عالیانی کا بھی ہے، انہیں 1972میں بلوچستان اسمبلی کی پہلی خاتون رکن منتخب ہونےکااعزاز حاصل ہے،،یہی نہیں وہ 1976میں بلوچستان کی پہلی خاتون وزیر مقرر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
سیاست میں اندرون بلوچستان سے محترمہ روبینہ عرفان اور محترمہ شمع پروین مگسی کانام بھی نمایاں ہے۔دونوں خواتین صوبائی وزیر بھی رہیں۔۔اور محترمہ روبینہ عرفان اس وقت سینیٹ کی رکن بھی ہیں،اس کےعلاوہ ان کی خواتین کی کھیلوں بالخصوص فٹبال کےفروغ میں اہم کردار رہاہے۔
سماجی شعبے کی بات کی جائے تو بلوچستان میں ایک نمایاں نام محترمہ ثریا الہ دین کا بھی ہے،،ایک فلاحی ادارے تنظیم ادارہ بحالی مستحقین کی بانی اور سماجی رہنماء ہونے کے ناطے ان کی بلوچستان کےمعاشرے میں گراں قدرخدمات ہیں۔۔۔انہی خدمات کےاعتراف میں محترمہ ثریاالہ دین کو بھی صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیاگیا۔۔
اسی طرح سماجی شعبے میں محترمہ روشن خورشید بروچہ کی بھی بےحد قابل تحسین خدمات ہیں،ایس او ایس چلڈرن ویلیج کی بانی اور دیگر مختلف فلاحی اداروں کی سرپرستی کی وجہ سے پارسی خاندان سے تعلق رکھنےوالی محترمہ روشن خورشید بروچہ کو بلوچستان کے سماجی شعبے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاسکتاہے،،،، وہ صوبے سے سینیٹر کےعلاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں نگران وزیرکےطوربھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔۔۔اور یہ ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ انہوں نے صوبے کےعوام کےمسائل اور ان کے حقوق کےلئے متعلقہ فورم پر بھرپور آواز اٹھائی۔۔پارسی خاندان سے تعلق رکھنےوالی محترمہ نیلوفرابادان اور مسز منوچر کی بھی سماجی اور تعلیم کےشعبے میں گراں قدر خدمات رہی ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی،سماجی اور تعلیمی شعبے میں خدمات کےحوالےسے ایک اور معتبر نام محترمہ ثمینہ سعید کا ہے، محترمہ ثمینہ سعید متحدہ مجلس عمل کےٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئی تھیں، انہوں نے صوبے میں دینی اور عصری تعلیم کےعلاوہ بچیوں / خواتین کےلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں، اس حوالےسے جامعتہ المحصنات کےنام سے ایک ادارے کی بنیاد بھی رکھی گئی،،،اس ادارے کے تحت نامساعد حالات کے باوجود ان کی کاوشوں کی بدولت بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں بچیوں کی دینی اور عصری تعلیم پر خاص توجہ دی گئی، اس حوالے سے مختلف علاقوں میں بیٹھک اسکولوں کا اجراء بھی ہوا، یہی نہیں بلکہ انہیں ہنرمند خواتین کی حیثیت سے معاشرے میں مضبوط و مستحکم مقام دلانے کےلئے ان کی فنی حوالے سے تربیت کابھی خاص اہتمام کیاگیا۔۔۔اس مقصد کے لئے محترمہ ثمینہ سعید نے اندرون صوبہ کئی علاقوں کےخود دورے بھی کئے۔۔۔یہ آج کل جماعت اسلامی خواتین کی مرکزی نائب ناظمہ اور حلقہ خواتین بلوچستان کےامور کی نگران کےفرائض سرانجام دے رہی ہیں۔۔
ان کےعلاوہ جمعیت علمائے اسلام کی محترمہ شاہدہ روف،محترمہ حسن بانو رخشانی اوردیگر خواتین بھی بلوچستان میں نمایاں کارکردگی کی حامل خواتین میں شامل ہیں۔ سیاسی اور سماجی حوالوں سے ان خواتین نےبلوچستان کے معاشرے میں اپنا علیحدہ باوقار تشخص قائم کیا۔۔
بلوچستان میں تعلیم کے شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے والوں میں پروفیسر رضیہ بابر، ذکیہ درانی، ڈاکٹر شاہدہ جعفری جمالی، پروفیسرڈاکٹر رخسانہ جبیں،پروفیسر ڈاکٹر فردوس انور قاضی،پرفیسر شگفتہ اقبال، پروفیسر جمیلہ قاضی، پروفیسر زاہدہ دوست محمد،ڈاکٹر قرۃ العین بختیاری،پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر،پروفیسر طاہرہ جتک اور دیگر خواتین شامل ہیں۔ جن میں سے کئی خواتین بلوچستان یونیورسٹی ،سرداربہادرخان ویمن یونیورسٹی ،گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ ڈگری گرلزکالج کوئٹہ ، بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز کےعلاوہ دیگر تعلیمی اداروں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔۔ڈاکٹرشاہدہ جعفری جمالی ویمن یونیورسٹی کی پہلی وائس چانسلر بھی رہیں۔۔ان کےعلاوہ تعلیم کےشعبے میں ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی کا بہت اہم کردار رہا ہے۔۔ویسے تو ڈاکٹر رقیہ ہاشمی کا تعلق طب کے شعبے سے ہے مگر وہ تعلیم کےعلاوہ سیاست میں بھی سرگرم رہی ہیں،،،،اور صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہونے کےبعد وہ صوبائی وزارت کےبھی منصب پر فائز رہیں۔۔وہ پرائمری ایجوکیشن کےلئے کام کرنےوالی یونیسکو سے ایوارڈ یافتہ غیرسرکاری تنظیم سوسائٹی فار کمیونیٹی اسپورٹ فار پرائمری ایجوکیشن ان بلوچستان کی بانی اراکین میں سے بھی ایک ہیں۔
اگر طب کے شعبے کی بات کی جائے تو اس شعبے میں بھی بلوچستان سے کئی خواتین نمایاں ہیں،،ان میں پروفیسرڈاکٹر شہناز نصیر بلوچ، پروفیسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ،پروفیسر ڈاکٹر نائلہ احسان،ڈاکٹر ذکیہ تمجید سمیت کئی ماہرین طب شامل ہیں۔۔پروفیسر شہناز نصیر اس وقت خواتین کی مخصوص نشستوں پر بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی بھی ہیں۔۔جبکہ پروفیسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کو کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان کی پہلی خاتون کونسلر منتخب ہونے کابھی اعزاز حاصل ہے۔۔
ان کےعلاوہ بلوچستان کی ایک بیٹی ڈاکٹر مصباح راٹھور کو بلوچستان کی پہلی سویلین فلائٹ سرجن ہونے کااعزاز حاصل ہے،ڈاکٹر مصباح راٹھور کا تعلق ضلع کچھی / بولان کےعلاقے کولپور سے ہے۔
کھیلوں کی بات کی جائے تو بلوچستان میں کئی خواتین کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی نمایاں کارکردگی سے ملک و قوم کا نام روشن کیا،،ان میں مارشل آرٹس میں اپنی صلاحیتوں سےسب کو حیران کردینے والی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنےوالی کلثوم ہزارہ ،نرگس ہزارہ اور دیگر کا نام نمایاں ہے۔۔
یہی نہیں بلکہ اب بلوچستان کی خواتین سول بیوروکریسی کا بھی حصہ بن رہی ہیں،،،، اگرچہ ان کی تعداد ابھی بہت کم ہے تاہم جو بھی ہیں وہ یہ ثابت کررہی ہیں کہ انتظامی معاملات اور نظم ونسق چلانے میں ان کی صلاحیتیں مردوں سے کسی طور کم نہیں،،،چند نمایاں بیوروکریٹس میں محترمہ سائرہ عطا،سائرہ آغا، نائمہ بتول، بتول جمعہ اسدی، ندا کاظمی، روحانہ گل کاکڑ ،عائشہ زہری اور اسی طرح دیگر چند شامل ہیں۔۔ بتول اسدی کو کوئٹہ کی پہلی خاتون اسسٹنٹ کمشنر کااعزاز حاصل ہے،،،اسی طرح روحانہ گل کو کچھ عرصہ قبل پاکستان انٹیگرٹی آئیکون ایوارڈ Pakistan Integrity Icon Awardسے بھی نوازا گیا۔
بلوچستان ہی کی ایک بہادر بیٹی سائرہ بتول پاکستان کی ان چار بیٹیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے 2006میں فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔۔۔اور اپنے لئے ایک انتہائی مشکل شعبہ منتخب کیا،،تاہم بعد میں انہوں نے اس میں اپنی بہترین صلاحیتیں منوائیں۔۔
اور اگر بات ہو صحافت کے شعبے کی تو اس میں بلوچستان میں گل فرزانہ اور شاہین روحی بخاری کو رجحان ساز خواتین صحافی کہاجاسکتاہے۔۔وہ ایک ایسے وقت میں اس شعبہ سے وابستہ ہوئیں کہ جب یہ مردوں کےلئے بھی ایک کٹھن کام تھا۔۔۔۔
بلوچستان میں ان خواتین اور دیگر کئی کو مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیتےاور اپنی صلاحیتوں کابھرپور اظہار کرتے دیکھ کر یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ۔۔۔۔ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہےساقی
یہ اور مختلف شعبوں میں بے لوث خدمات سرانجام دینے والی ان جیسی دیگر خواتین یقیننا بلوچستان کافخر اورسرمایہ ہیں،،،، اس کےساتھ ساتھ یہ خواتین صوبے کی ترقی اورمسائل کےحل کےحوالےسے امید کی کرن اور صوبے کاروشن رخ بھی ہیں ۔۔۔۔