تعلیم کی اہمیت اورافادیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ تعلیم کے بغیرکوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ علم سیکھنے اورسکھانے سے متعلق قرآن واحادیث میں بیشمارفضائل بیان ہوئے ہیں۔مگرافسوس کیساتھ کہناپڑتاہے کہ صوبہ بلوچستان تعلیم کے حوالے سے پسماندہ صوبہ جاناجاتاہے۔صوبہ بلوچستان دیگرانگت مسائل سے دوچارہونے کیساتھ ساتھ تعلیمی بحران کا بھی سامناکررہاہے۔ بلوچستان میں سینکڑوں سکول زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ہزاروں قابل اساتذہ پرائیویٹ سکولوں میں چکرکاٹتے پھرتے ہیں۔ بلوچستان کے لاکھوں بچے تعلیم وتربیت سے محروم گلی کوچوں میں پھرتے ہیں یاپھرگیرج، تندور یاہوٹل والوں کے رحم وکرم پررہ کرصلاحیتوں کوبرباد کررہے ہیں۔
گزشتہ سال نومبر 2019ء میں محکمہ تعلیم نے ٹیچنگ اسامیوں کااعلان کرکے کیئرئرٹیسٹنگ سروس کوٹیسٹ لینے کاعمل سپردکیا۔ جوانتہائی اچھااور مثبت عمل تھا۔ 74ہزارکے لگ بھگ امیدوارں نے ٹیسٹ میں حصہ لیا۔ اورپورے آٹھ دس مہینے مکمل محنت کرکے انتہائی مشکل اورسخت امتحان دیا۔ سی ٹی ایس پی کے ورکرزامیدواروں کیساتھ بہت سختی سے نمٹتے تھے اوربغیراصل شناختی کارڈاوررول نمبرسلپ کے امتحان ہال میں نہیں چھوڑاجاتاتھا۔ موبائل اورنقل کے تمام موادامتحان ہال میں داخل ہونے سے قبل ضبط کیے جاتے تھے۔ ہرجانب کیمروں کاانتظام تھا۔
مکمل کمپیوٹرسسٹم سے امتحان لیاگیااورنمبربھی کمپیوٹرہی کے حساب سے دیے گئے جواس ادارے کی شفافیت کی دلیل تھی۔سوالات مکمل طورپرنصاب کیمطابق کتابوں کے مختلف اورچیدہ چیدہ مقامات سے دئیے گئے تھے۔ اس ٹیسٹ میں سی ٹی ایس پی نے پوری شفافیت اورخلوص کیساتھ امتحان لیکر تمام بلوچستان کے قابل اور باصلاحیت افراد کو سامنے لایا۔اطلاعات کیمطابق سوفیصدمیرٹ پرامتحان ہوا۔جس کی تمام وزراء اوراسمبلی ممبران تصدیق کرتے ہیں۔علاوہ ازین اس امتحان میں اکثروہ لوگ کامیاب ہوئے ہیں جوپرائیویٹ کالجزمیں لیکچرارہیں۔ 74ہزارمیں سے 13750بمشکل پاس ہوئے اورتقریباً6000 شارٹ لسٹڈہوئے۔
اس طرح یہ مشکل مرحلہ طے ہوا۔ پھرجب سی ٹی ایس پی کی جانب سے اعلان ہواکہ جن کواعتراض ہو وہ اپنی اعتراضات جمع کروائے پھرفائنل میرٹ لسٹ جاری کیاجائیگا۔ جوچندبے بنیادشکایات جمع ہوگئے تھے ان کی تسلی کے بعد تقریباًبہت کم ردوبدل کیساتھ فائنل میرٹ لسٹ جاری کیاگیا۔ اب صرف آرڈر ہی کاانتظار تھا کہ اچانک وزیرتعلیم کی کایاپلٹ گئی، وزیر تعلیم محمدخان لہڑی سے قلمدان چھین لیاگیااور ان کی جگہ سرداریارمحمد رند کو وزیرتعلیم کاقلمدان سونپ دیاگیا۔ کچھ شریراورفسادی لوگ جن کواپنی ناکامی برداشت نہیں ہورہی تھی حالات کافائدہ لیکراسامیوں کی کینسلیشن کی افواہیں پھیلانا شروع کیں۔
جس سے کامیاب امیدواروں میں تشویش پھیل گئی مگرسیکریٹری تعلیم طیب لہڑی کے انٹرویونے سب کی امیدیں کو سہارا دیا۔ جس میں انہوں نے صاف الفاظ میں کہاکہ بالکل مکمل طورپر صاف شفاف ٹیسٹ ہوئے ہیں اس لیے کینسل نہیں ہوسکتے۔ چنددن ہی گزرے تھے کہ سکیٹری تعلیم کوبھی تبدیل کیاگیا۔ اب فیل امیدواروں نے پھرایک لیٹر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نام کے سے بناکرشئیرکیاجس میں کینسلیشن کی بات واضح طورپرلکھی گئی تھی۔سرداریارمحمدرند صاحب کی جانب سے ٹویٹ کے ذریعے اس لیٹر کی تردیدکی۔ اب پھرسننے میں آرہاہے کہ سرداریارمحمدرندنے ایک سمری وزیراعلیٰ جام کمال صاحب کوبھیجی ہے جس میں کچھ شکایات ہیں۔
یہ واضح بات ہے کہ شکایات فیل امیدواروں کی جانب سے ہے جن کواپنی ناکامی برداشت نہیں۔عربی میں ایک شعر ہے”اذااتتک مذمتی من ناقص فھی الشھادۃ لی بانی کامل”اگرکسی ناقص کی طرف سے میری مذمت کی جائے، تویہی میرے کامل ہونے کی گواہی ہے۔ ایسے میں سرداررند نے نہ صرف امیدواروں کاحوصلہ بڑھایابلکہ جونااہل تھے ان کونوازنے کیلیے پاس امیدواروں کے حقوق پرڈھاکا ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جومنفی پروپیگنڈہ کرنیوالے ہیں انھیں ایک نئے عزم اورولولے سے نوازاجارہاہے ان کی دلجوئی کیلیے صرف سوشکایات پر 6000کے حقوق پرڈھاکا ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
چونکہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اوراس نظام کی گاڑی رشوت کی پہیوں پرچلتی ہے۔ روزگارکے متلاشی رشوت کے ذریعے ملازمتیں حاصل کرتے ہیں۔ پہلے ہی عوام رشوت سے تنگ تھے اب بھی وہی ہے چال بے ڈھنگی، جوپہلے تھی سواب بھی ہے۔ اوراس سے قبل بھی عوام کابیڑہ رشوت سے غرق ہوگیاتھا مگراب پوری قوم باشعور ہے۔ادراک وآگاہی رکھتی ہے۔اب ان چالوں سے و ہ خوف زدہ نہیں۔ اب عوام اپناحق لینے کیلیے تیارہے۔ احتجاج کی صورت ہویاپھرکورٹ جاناپڑے۔ حکومت کے پاس وسائل ہیں اختیارات ہیں جن کااگردرست استعمال کیاجائے توتعلیمی میدان میں بہت سارے کام ہوسکتے ہیں۔
حالانکہ حکومت اس سال کونوکریوں کاسال کہہ رہی ہے، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک میں لاکھوں بیروزگار نوکریوں کی تلاش میں جوتے چٹخاتے پھررہے ہیں۔ اب حکومت کوخاص کروزیراعلیٰ بلوچستان کوچاہیے کہ ٹھوس اقدامات اٹھائیں کیونکہ لگتاہے حالات بدل رہے ہیں۔محبت واخوت، امن وآشتی،علم وآگہی کے چراغ جلتے نظرآرہے ہیں۔ ویسے بھی بلوچستان کے عوام جام کمال صاحب کونیک دل اورمخلص وزیراعلیٰ جانتے ہیں اگروہ تعلیم یافتہ بلوچستان دیکھناچاہتے ہیں، اور روشن بلوچستان کاعزم رکھتے ہیں توان باصلاحیت قابل اساتذہ کرام کوہاتھ سے جانے نہ دیں۔ اگرجام کمال صاحب یہ کام کریں تواس سے ہزاروں خاندان کے گھرآباد ہونگے۔