|

وقتِ اشاعت :   March 21 – 2020

کراچی کے ایک عالم پیر مفتی خان محمد قادری کا بیان ایک دوست نے مجھے وٹس اپ پر بھجوایا جسے میں نے سنا ’تو دل کو ٹھنڈک محسوس ہوئی کہ کس طرح انہوں نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے ماسک سمیت دیگر اشیاء کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کی کلاس لی ہے۔ کاش کے ہم اس وبائی مرض کا مقابلہ بحیثیت قوم چین کی طرح کرتے جنہوں نے ایک قوم بن کر نہ صرف اس وبائی مرض کا دلیری سے مقابلہ کیا بلکہ کسی بھی ملک یعنی امریکا کی امداد لینے سے بھی انکار کیا جبکہ ایک ہم ہیں کہ ملک کو بنے ستر سال کا عرصہ ہوچلا، بھکاری تھے بھکاری ہیں اور اگر یہی صورت حال رہی تو ہماری آنے والی نسلیں بھی بھکاری رہیں گی۔ اس لیے کہ ہم نے نہ تو انسان بن کر کبھی سوچا اور نہ ہی مسلمان‘ وہ مسلمان،وہ رسول پاکﷺ کی امتی جس امت کے لئے ہمارے نبیوں نے دعاکی کہ انہیں نبی پاکﷺ کا امتی بنا کر روز محشر میں اٹھایا جائے۔

میں پڑھ رہا تھا کہ یہ وہ خوش قسمت امت ہے کہ نہ تو اس امت کے سربراہ نبی پاکﷺ کے بغیر کوئی دوسرا نبی جنت میں داخل ہوگا اور نہ ہی اس کی امت سے قبل دیگر ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء کی امت داخل ہوگی۔ کہنے کا مقصد اس قدر فضیلت والی ہماری امت ہے اور اسکا نبی‘ جو آخر الزامان بنا دئیے گئے، اس کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا۔لیکن آج ہم اپنے گریبانوں میں جھانکھیں کہ اس فضیلت کی امت کہاں کھڑی ہے۔

اس کا کردار اس قدر گھناؤنا اور مکروہ بن چکا ہے کہ یہ کسی طور نہ تو انسان کہلانے کے لائق ہے اور نہ ہی مسلمان‘ نبی پاکؐ کے طفیل‘ آج ان کی دعائیں جو انہوں نے روتے روتے اللہ تعالیٰ سے منوائیں کہ میری امت کو سابقہ امتوں کی طرح خنزیر نہ بنانا، ان کے چہرے مکروہ بنا کر پیش نہ کرنا، ان پر آگ اور طوفان برپا نہ کرنا جس طرح تو نے پہلی والی امتوں پر ان کی نا فرمانیوں کی بدولت کی لیکن افسوس کہ آج ہم رسول پاکﷺ کی گارنٹی کا جس طرح ناجائز فائدہ لے کر اپنی اس عارضی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کررہے ہیں انسانی تاریخ میں اس سے بد ترین دور کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ملک میں یہ وباء ایران اور کراچی ائیر پورٹ کے ذریعے داخل کیا ہوگئی کہ نت نئے ڈرامے بازیاں شروع ہوگئیں۔ وفاق کی جانب سے ایک ڈاکٹر صاحب نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے ایران سے آنے والوں زائرین کا تمام بوجھ بلوچستان حکومت کے کاندھوں پر ڈالتے ہوئے اپنی راہ لی یعنی جس وفاقی دارالحکومت سے پریس کانفرنس کرنے آئے تھے۔

واپس خالی ہاتھ چلے گئے۔چائیے تو یہ تھا کہ ڈاکٹر ظفر صاحب وفاق اور پنجاب سے ڈاکٹروں کی ایک بڑی ٹیم کے ذریعے کوئٹہ اور تفتان جا کر صورت حال کو اپنے ہاتھوں لیتے کہ دیکھئیے ہم اپنی ڈاکٹروں کی اعلیٰ ٹیم کے ہمراہ آ پہنچے ہیں،کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب تفتان قرنطینہ کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنے لگیں تو ان کیمپس کی بگڑتی صورت حال کو ملک بھرکے لوگوں نے دیکھا کہ یہاں پر کس طرح صحت مند افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح یکجا خیموں میں رکھا گیا ہے۔ جہاں بیت الخلاء سے لے کر کیمپوں کی صفائی تک کی صورت حال انتہائی مخدوش نظر آئی، مقصد یہ کہ ہم نے قرنطینہ کو محض تماشائی بنا کر چھوڑا۔

جس طرح سابق وزیراعلیٰ پنجاب”شو باز شریف“ دور حکومت میں پنجاب کے ہسپتالوں کے دوروں کے موقع پر ”نقلی وارڈ اور نقلی مریض“ بیڈوں پر لٹا کر فوٹو سیشن کرائے جاتے،جوں ہی وزیراعلیٰ موصوف کی واپسی ہوتی، ہسپتال کے خوبصورت وارڈوں میں موجود کرائے کے گملے اور بیڈ واپس ہونے لگتے۔ وہ مریض جوانہی اسپتالوں کے درجہ چہارم کے ملازم ہوتے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے دوبارہ اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر جاتے نظر آتے۔

بالکل یہی ڈرامے بازیاں تفتان میں ہیں، سندھ اور پنجاب کے وزراء اعلیٰ صاحبان کو اس بات کا علم تھا کہ ایران سے آنے والے زائرین میں ان دو صوبوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختوانخوا کے لوگوں کی تعدادزیادہ ہوگی لیکن انہوں نے تفتان کا دورہ کرکے نہ تو انتظامات کا جائزہ لیا اور نہ ہی اس جانب آمادہ نظر آئے،جب ان زائرین نے جن میں کرونا کے مریض بھی شامل تھے، نے اپنے اپنے صوبوں میں پہنچنا شروع کیا۔

اب انہوں نے بھاگم بھاگ فوٹو سیشن کراتے ہوئے اپنے اپنے انتظامات کی تعریفیں اور بلوچستان حکومت کے اقدامات پر انگلی اٹھانا شروع کردی۔ افسوس کہ اگر اس صورت حال کو چین کی طرح سنجیدگی سے لیا جاتا تو اس موذی بیماری کو تفتان ہی میں دفن کیا جا سکتا تھا، بہتر انتظامات اور بہترین ڈاکٹروں کے ساتھ‘لیکن نہیں، ہم نے ثابت کردیا کہ ہم ناکام ریاست کے ”مسلمان باسی“ ہیں ہمیں انسانوں تو کیا جانوروں کے حقوق کا نہ تو کبھی پاس رہا ہے اور نہ رہے گا۔