سال 2019ء کے آخر میں چین کے شہر اوہان میں پہلی بار ایک وائرس نے جنم لیاجس کو بعد میں کورونا وائرس کا نام دیا گیا جو چند ہی دنوں میں وباء کی شکل اختیار کرگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف چین میں 81ہزار سے زائد لوگوں کو متاثر کیا اور کورونا وائرس سے 3ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے۔اس کے کورونا وائرس نے ایران کا رُخ کیا اور وہاں بھی اپنے فتح کے جھنڈے گھاڑ دئیے اور کورونا وائرس نے ایران میں ساڑھے 19ہزار کے لگ بگ افراد کو متاثر کیا اور تقریباً 15سو کے قریب لوگ جاں بحق ہوئے۔
یوں کرتے کرتے کورونا وائرس امریکہ، چین،اٹلی،سعودی عرب، عرب امارات، روس، آسٹریلیا، افغانستان، پاکستان، ہندوستان،بنگلہ دیش، منگولیہ،قازکستان،کمبوڈیا،کینیڈا،میکسیکو،وینزویلا، برازیل، فرانس،سپین سمیت 177ممالک پر حملہ آور ہوا اور ہر ملک میں اپنے پنجے گھاڑتا رہا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت تقریباً 2لاکھ 75ہزار کنفرم کورونا کے مریض ہیں اور تقریباً 11ہزار افراد کورونا مرض سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ قاتل وائرس سے 91ہزار 9سو سے زائد افراد صحتیاب ہوکر اپنے گھروں کو منتقل ہوچکے ہیں۔
چین سے شروع ہونیوالے اس عالمی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے چین نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وائرس میں اضافے ہوتے ہی اپنے متاثرہ شہر اوہان کومکمل طور پر بند کردیا اور سب سے پہلے مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنے کیلئے 9دنوں میں 12سو بستروں کا ایک ہسپتال تعمیر کیا اور وائرس سے متاثرہ مریضوں کو وہاں ابتدائی طبی امداد کی فراہمی شروع کی۔ چین کی حکومت نے عوام کو اپنے گھروں میں رہنے اور باہر نہ نکلنے کا کہا اور چین کی عوام نے حکومت کے فیصلے کا بھرپور ساتھ دیا۔
ذرائع کے مطابق ایک دفعہ تو حکومت نے ہار مان کر چین کے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ حکومت کو اجازت دی جائے کہ حکومت متاثرہ 2ہزار کے قریب افراد کو قتل کردے تاکہ اس وباء کو پھیلنے سے روکھے لیکن عوام نے حکومت کا اس طرح ساتھ دیا کہ ایک شہر سے کورونا وائرس باہر نہ نکلنے پایا اور تقریباً 3ماہ کے عرصے میں چین نے اپنی عوام کی مدد سے کورونا وائرس پر قابو پالیا۔
چین کے بعد کورونا وائرس نے اٹلی کو سب سے زیادہ متاثر کیا جہاں مذکورہ وباء پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اٹلی میں اس وقت47ہزار سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے اور 4ہزار سے زائد افراد وائرس کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اس عرصے میں پاکستان میں ایک بھی کورونا وائر کا مریض موجود نہ تھا۔ ایران میں وائرس کی تشخیص کے ساتھ ہی پاکستان نے اپنے تمام سرحدوں کو سیل کرکے تمام سرحدوں پر سکینر نصب کردئیے تاکہ ہر آنے اور جانے والے کو مانیٹر کیا جاسکے۔
اگر پاکستان یہی لائحہ عمل تاآخر تک اختیار کرتا تو شاید پاکستان مذکورہ وباء سے بچ جاتا لیکن صرف ایک وزیر کے کہنے پر اپنے گنے چُنے رشتہ داروں کو ایران بارڈر پار کروانے کے بہانے بارڈر پر موجود تمام افراد کو بغیر کسی سکیننگ و تصدیق کے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کو بلا کسی احتیاط کے پاکستان میں لانا ایک بڑی حماقت ہے اور اس سے بھی بڑی حماقت یہ ہے کہ مذکورہ افراد کو تفتان بارڈر تک محدود کرنے کے بجائے پورے پاکستان میں پھیلا دیا گیا جس سے سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہوا۔
تفتان سے متاثرین کو لاکرکوئٹہ،لورالائی،دُکی،نوشکی چمن،پشین و دیگر اضلاع میں زبردستی آباد کروایا جارہا ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کے عوام کو کورونا وائرس سے متاثر کرنا چاہ رہی ہو۔بہر حال کچھ اضلاع کے غیور عوام نے متاثرہ افراد کو اپنے اضلاع میں رکھنے کیخلاف شدید احتجاج کیا جس کے بعد حکومت نے کوئٹہ شہر کو اپنا ٹارگٹ بنایا اور کوئٹہ کے مغربی علاقے میں تفتان سے لائے گئے افراد کیلئے قرنطینہ سینٹر قائم کیا گیا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں متاثرہ افراد کو گزشتہ کافی عرصے سے رکھا گیا ہے جن بسوں میں متاثرہ افراد نے سفر کیا ان کے ڈرائیوز اور کنڈیکٹرز کو بھی مذکورہ قرنطینہ میں بند کیا گیا ہے۔
شیخ زید ہسپتال کو بھی وائرس سے متاثرہ افراد کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ چمن اور تفتان میں عارضی کیمپوں پر مشتمل ایک بڑے ہال کی طرح قرنطینہ سینٹرز قائم کئے گئے ہیں جن کے اندر متاثرہ افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح چھوڑ دیاگیا ہے۔وزیر اعظم صاحب یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ایک غریب ملک کی حالت اس سے پہلے بھی کافی حد تک بد تر تھی کورونا وائرس کے متاثرہ مریضوں کو پاکستان میں تو لایا جاچکا ہے لیکن جن ہسپتالوں میں پہلے سے سر درد کی گولی اور انجکشن موجود نہ ہو تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہاں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج ممکن ہے؟
کوئٹہ کے مغربی علاقے میں قائم قرنطینہ سینٹر میں سہولیات کے فقدان کے باعث 5ڈاکٹروں نے ڈیوٹی کرنے سے انکار کردیا جسے بعد میں بھلی کا بکرا بنایا گیا اور انہیں فارغ کردیا گیا۔ ایک سرکاری ادارے کے افسر سے پتہ چلا کہ بلوچستان کے ہر بارڈر پر موجود ہیلتھ ورکرز کے پاس صرف ایک،ایک تھرما میٹر گن میسر ہے جس سے کورونا وائرس کی تشخیص ناممکن ہے،مذکورہ تھرما میٹر گن صرف انسانی جسم کی تپش/ٹمپریچر دکھاتی ہے۔ گزشتہ روز شیخ زید ہسپتال میں ایک دل کا مریض ہسپتال سیل ہونے، سہولیات کے فقدان اور ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔ تو جب سرحدوں پر موجود ہیلتھ ورکرز کے پاس سہولیات کا یہ عالم ہے تو سوچیے کہ صوبے کے ہسپتالوں میں کیا حالت ہوگی۔
اب تک پاکستان میں 5سو سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے اور 3افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اب کورونا وائرس کا پاکستان میں آنے یا لے آنے سے کیا مشکلات پیش آئیں گی،؟ سکول بند، دفاتر بند، دُکانیں بند، بازاریں بند، ہوٹلیں بند، کھیلوں کے مراکز بند، بچوں کی پڑھائی لکھائی بند گویا ملک کو لاک ڈاؤن نہیں بلکہ انسانی زندگی کو لاک ڈاؤن کردیا گیا ہو، ایسا لگ رہا ہے جیسا کہ حکومت خود اپنے عوام کو مارنے کے درپے ہو۔
اب جب کورونا وائرس ہمارے ملک میں آ ہی گئی ہے تو حکومت کو انتہائی احتیاط برتنی ہوگی۔ حکومت کو معاشی ٹیم کے علاوہ کورونا وائرس سے بچنے کیلئے ایک صحت مندانہ ٹیم کی بھی ضرورت ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹی وی،ریڈیو،اور سڑکوں پر اشتہارات لگوانے کے بجائے پورے پاکستان سے سب سے قابل ڈاکٹروں کو مکمل تحفظ فراہم کرکے کورونا وائرس کے خاتمے کی تحقیق پر لگائے تاکہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جاسکے اور کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کو چین کی طرح ایک ہی شہر،جس کیلئے تفتان بہتر ہے،میں جگہ رکھا جائے تاکہ وائرس مزید نہ پھیلے اور باقی تمام اضلاع و صوبوں کا لاک ڈاؤن ختم کروایا جائے تاکہ انسانی زندگی متاثر ہونے سے بچ جائے، اس سے مملکت کا معاشی پہیہ بھی چلتا رہے گا اور کورونا وائرس پر بھی آسانی سے قابو پایا جاسکے گا۔