|

وقتِ اشاعت :   March 26 – 2020

زندگی سے محبت دوسروں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور اپنی زندگی کو دوسروں کے لئے کارآمد بنانے میں پوشیدہ ہے۔کرونا وائرس بھی ایک نا دیدہ ظالم دشمن ہے۔انسانیت کے خلاف بیماریاں ہوں یا جنگیں انہیں شکست دینے کے لیے احتیاط کے ساتھ ساتھ اتفاق اور مکمل دانشمندی پہلا عمل ہے، اس کے پھیلنے کی اصل وجوہات وباء کے دنوں میں فطرت سے لاتعلقی کا اظہار ہے وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جب قوموں نے پھیلنے والی بیماریوں اور وباؤں سے دانشمندی کے ساتھ نمٹنے کی بجائے اپنی جاہلانہ طاقت کا مظاہرہ کیا وہ ڈھیر ہوتے گئے۔جس کا ایک ہی نتیجہ نکلا کہ لاکھوں کروڑوں انسان تلف ہوئے۔

ایک باشعور انسان کو بخوبی علم ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے مگر اسے یہ بھی علم ہے کہ تڑپ تڑپ کر مرنے والے کسی نہ کسی جہالت میں مبتلا ہوتے ہیں ہر قسم کی ناانصافی انسانوں کی پیدا کردہ ہوتی ہیں کیونکہ وہ وباء کی صورت میں ہوں یا عالمی جنگوں کی یا پھر آپسی دشمنیاں ہی کیوں نہ ہوں، دینی و دنیاوی تعلیمات میں انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے یہ اور بات ہے کہ انسان اپنے اشرف ہونے سے انکاری ہو، جنہوں نے طب کو بیماریوں سے نجات سمجھا،انہوں نے طب میں کمالات دکھائے، اسی لئے آج وہ کرونا وائرس کی شکل میں اتنی بڑی قوت سے نبرد آزما ہیں جو وائرس کروڑوں انسانوں کو نگلنے نکلا ہے وہ کرونا کو شکست دیکر کروڑوں میں شامل نہیں ہونگے جو طبی سہولیات یا تعلیمات میں یکتا ہو نگے،برائیوں،بیماریوں اور مظالم سے بچاؤ کی معلومات رکھنے والی قومیں ہی زندگی کے مقاصد سے قریب تر ہوتی ہیں کیونکہ انہوں نے زندگی کو محفوظ بنانے کی ترکیبات سے آشنا کر رکھا ہے انہوں نے ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سچ اور جھوٹ سے پردہ اٹھانے کا کام کیا ہے۔

حقیقی مذہبی تعلیمات ہوں یا معاشرتی علوم جدید ٹیکنالوجی نے پیدا گیروں سے گریز میں انسانوں کی مدد کی ہے۔ایٹمی ہتھیار ہوں یا وباء یہ اصل انسانی قوت نہیں ہوسکتے،اصل انسانی قوت محبت کرنا اور محبت بانٹنا ہی تو ہے۔وہ محبت اچھے اور برے دنوں میں انسانیت سے لگاؤ کا پیغام ہے۔جس طرح ایٹم بم پھٹتے وقت یا وباء کے پھیلنے میں انسانوں کی تخصیص نہیں ہوتی اسی طرح انسانوں سے محبت میں بھی تخصیص نہیں ہونی چاہئے۔یہی آج پوری دنیا میں کرونا وائرس سے گرتے انسانوں،خوفزدہ جانوں کو دیکھتے ہوئے نتیجہ نکلتا ہے۔تاریخ میں غلامی انسانوں پر سب سے بڑا ظلم سمجھا جاتا تھا یا برہمن و شودر کی تقسیم، کالے اور سفید کی تعریف کو پست ذہنیت خیال کیا جاتا رہا ہے انسانی و دیگر مذہبی و دنیاوی تعلیم میں ان سے نجات کی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں۔

بے شمار انسانوں کو ان نفرتی فیصلوں سے سے کسی حد تک چھٹکارا ملا، آج کرونا وائرس نے انسانوں کو ایک اور سبق دیا ہے کہ وہ نادیدہ قوتوں کے سامنے بے بس رہے ہیں اور رہیں گے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم، امن اور انسانوں کے درمیان محبت و یکجہتی کی ضرورت ہے۔باقی زندگیوں میں نشیب و فراز یا اپنی ریاستوں میں رعایا و عوام کے لئے سہولیات انصاف کی فراہمی دائمی عمل ہے۔اسے بھی عقل اور شعور کے مطابق دیکھا جائے ایک ملک کے انسان ہمیشہ ایک دوسرے کی ضرورت رہیں گے، دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے سے انسانی بنیادوں پر جڑے رہیں گے۔

اگر ایسا نہیں تو کرونا جیسی قیامتوں سے تاابد انسانوں کو گزرنا پڑے گا۔اپنے پیاروں کو تڑپتے ہوئے دیکھنا پڑے گا، جہا لت کے ہاتھوں ذلیل ہونا پڑے گا۔ قوت آسمانی کے امتحانوں کے سامنے بے بسی سے مرنا پڑے گا۔شاید جدید ٹیکنالوجی کی آمد سے پہلے کسی ملک یا شہر پر گزرنے والی قیامت کا پتا نہ چلتا ہو گا، برسوں بعد لکھی گئی تاریخوں کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہوگا اب تو سیکنڈوں میں دنیا کے انسانوں کی موت پر مبنی فلمیں ہمیں دیکھنا پڑ رہی ہیں۔کیا آج بھی انسانوں کو کرونا وائرس جیسے نادیدہ قوتوں سے انکار ہے، نا دیدہ قوت موجود ہیں لیکن ان کے مقابلے میں انسان بڑی قوت ہے بشرطیکہ انسان علم سے جڑا رہے تخلیق و تحقیق کو ذمہ داری سمجھ کر آگے بڑھتا رہے،انسانوں سے محبت کے نغمے لکھتا رہے، ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنے حصے کا کردار نبھاتا رہے۔

موجودہ کرونا وائرس دنیاوی خداؤں کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہے،اگر انکے عقل دانی میں کچھ سما سکے کہ لشکروں و آمروں کو کہ وہ ذرا اپنے ہتھیاروں سے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے نکلیں۔عام انسانوں کو نہ سہی اپنے جیسوں کو بچانے کی جرات پیدا کریں۔ ممکن نہیں، ممکن یہ ہے کہ سب سے پیار کریں سب کو پیارا سمجھ کر ان کی مدد کو نکلیں، اخلاقی تعلیمات کو پھیلائیں جو کل بھی سچ کی تلاش میں نکلے تھے جو آج بھی نکلے ہیں وہ محض انسانوں کا درد سینے میں رکھتے ہیں۔خواہ وہ ڈاکٹروں کی شکل میں ہیں یا اہل علم و دانش کی صورت میں یا پھر انسانی خدمت گزاروں کے روپ میں پھیلے ہوئے ہیں۔عام انسانوں کو چاہئے کہ وہ انہیں ہی اپنا اصل رہبر سمجھ کر انکی تقلید کریں اپنی اور آنے والی نسلوں کی زندگی کو خوبصورت بنائیں۔