عام انسانوں کے ذہنوں میں یہ سوال اکثر ابھرتا ہے کہ کیا گناہوں کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے۔عام طور پر اس حوالے سے دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گناہوں کا عذاب صرف قبر اور آخرت میں ملتا ہے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں بھی کچھ گناہوں کی سزا ملتی ہے۔
اس طرح پھر گناہ بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔کچھ صغیرہ ہوتے ہیں تو کچھ کبیرہ اور کچھ گناہ انفرادی ہوتے ہیں کچھ اجتمائی،تو انکی سزائیں بھی اسی نوعیت کی ہوتی ہیں۔اگر فرد واحد کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو سزا بھی اسی کو ملتا ہے۔اور اگر پوری قوم کسی گناہ میں ملوث ہو تو سزا بھی پوری قوم کو ملتی ہے کیونکہ اللہ تعالی عادل ہے اور عدل کو پسند بھی کرتا ہے پھر سزا کی بھی مختلف صورتیں ہوتی ہیں بعض دفعہ ہم سزا کی وجہ کو تھوڑی بہت سمجھ لیتے ہیں کہ میرے فلاں گناہ کی شاید سزا مل رہی ہے لیکن اکثر اوقات ہم اس سزا کو امتحان،آزمائش یا دوسروں کی سازش اور غلطی قرار دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اس سزا سے عبرت اور سبق حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔
جن اعمال اور معاملات کی وجہ سے سزا ملتی ہے وہ بھی دو طرح کے ہوتے ہیں کچھ معاملات میں بندوں کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے۔جسے حقوق اللہ کہتے ہیں اگر کوئی شخص اس میں سستی اور کاہلی کرتا ہے تو اللہ مہربان ذات ہے وہ سزا دے یا بخش دے کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں۔دوسرا معاملہ وہ ہے جن میں بندوں کا تعلق بندوں کے ساتھ ہوتا ہے جیسا کہ کسی ساتھ ظلم و زیادتی کرنا کسی کا حق مارنا جھوٹ بولنا وعدے کی خلاف ورزی کرنا وغیرہ تو غالب امکان ہے کہ ان گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی دیتا ہے کیونکہ دنیا والوں کے لیے عبرت کا سامان بھی بنانا ہوتا ہے اور دنیا کی نظام کو بھی چلانا ہوتا ہے۔
اسی طرح کچھ گناہوں کی سزا اللی تعالیٰ نے متعین و مقرر بھی فرمائے ہیں۔جیسے کہ قتل،زنا،چوری وغیرہ اگرچہ ہمارے معاشرے میں ان گناہوں کی سزا اسلامی احکامات کے مطابق نہیں دی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے طور پر زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر سزا ضرور دیتا ہے۔کیونکہ جب دنیا والے انصاف نہیں کر رہے ہوتے تو وہ دیکھ رہا ہوتا ہے اس لیے وہ خود انصاف کرتا ہے اللہ تعالی اپنے قرآن مجید کے سورہ الشوریٰ30، میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ۔اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے تو اس (بداعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے )جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سے کوتاہیوں سے وہ در گزر بھی فرما دیتا ہے۔
اس سے عیاں ہے کہ انسانی زندگی میں پریشانی کے اسباب خود اس کے گناہ اور برے اوصاف ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ مختلف صورتوں میں عبرت کا نشانہ بناتا ہے دوسرے لوگ تو ہم سے عبرت حاصل کر لیتے ہیں لیکن ہم خود نہیں کر پاتے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ “بے شک انسان اپنے گنایوں کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے (بلوغ المرام)
یہ وہ سزائیں ہیں جو ہمارے برے اعمال کی وجہ سے ہمیں ملتی ہیں کرونا وائرس بھی ایک سزا کے مانند ہے اور ساتھ ساتھ ہمارے لیے آزمائش بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے کچھ فطری اصول بنا رکھے ہیں۔ جو شخص قوم ریاست یا مخلوق ان اصولوں کی خلاف ورزی کرکے اللہ تعالیٰ کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں تو خالق کائنات بلاتفریق مذہب قوم ملک کے ان کو مستقبل کے لیے عبرت کا نشان بنا دیتا ہے انسان مال ودولت طاقت اور اقتدار کے نشے میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت طاقت اور قدرت کا منکرین انکار کر بیٹھتے ہیں اور اہل ایمان کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ انسانوں کو ان کی اوقات دکھانے کے لیے مختلف طرح کی موذی وباؤں کو پھیلاتا ہے اور یہ باور کرانے کے لیے کہ تمام حاکموں کے اوپر ایک حاکم ہے۔
تمام طاقتوں سے بڑھ کر ایک طاقت ہے اور تمام سپر پاوروں کے اوپر ایک سپر ہاور ہے جو چاہے تو ابابیلوں کے ذریعے ہاتھیوں کا خاتمہ کروا دے چاہے تو تین سو تیرہ کو ایک ہزار پر غالب کر دے چاہے تو خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود جیسے متکبر کو ایک مچھر سے ہلاک کرکے نشان عبرت بنا دے اور چاہے تو کرونا جیسے نظر نہ آنے والے چھوٹے سیوائرس سے بڑے بڑے ایٹمی طاقتوں کو ہلا کر رکھ دے کبھی ہم بحیثیت قوم اور کبھی انفرادی طور پر ظلم اور تکبر کا شکار ہو کر مخلوق خدا کی تزلیل کرتے ہیں تو بدلے میں مصیبت صرف ظالموں پر نہیں آتی بلکہ خاموشی سے ظلم کو دیکھنے والے بھی اسکا شکار ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ کون میرے قادر مطلق اور حاکم اعلیٰ ہو نے پراور تقدیر پر ایمان رکھتا ہے۔ کون میرے نعمتوں پر شکر بجا لاتاہے اور کون میری آزمائشوں پر صبر کرتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ترجمہ۔اورہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے دشمن کے ڈر سے بھوک پیاس سے مال و جان اور پھولوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجیے۔”
تمام احباب تقدیر پر ایمان رکھتے ہوئے تدبیر کے تمام طریقوں پر بھی عمل کریں حفاظت اور پرہیز گاری کے ساتھ ساتھ دعا اور دوا پر بھی یقین رکھیں۔کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر بیماری کی دوا ہے اور دعا اور صدقہ بیماری کو ٹال دیتے ییں اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو اس وباء سے محفوظ رکھے جو اس بیماری میں مبتلہ ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ انکو شفائے کاملہ عطا فرمائے اہل ایمان کے ایمان میں تقویت عطا فرمائے اور منکرین کو ہدایت نصیب فرمائے آمین۔