بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔ صوبے میں اکثریت بلوچوں کی صدیوں سے آباد ہے۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات بھی ملے ہیں۔ سکندر اعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کے علاقہ پر ایران کی سلطنت کی حکمرانی ہوتی تھی۔ اور ان کے اونٹ گھوڑے بہت مشہور تھے۔
بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے اگر کوئی سردار (مادہ) گھوڑی پہ سوار ہوتا تھا تو اس گھوڑی کو اس سردار کی بیوی جتنا درجہ دیا جاتا تھا۔ وہی سردار جب انتقال کر جاتا تو اس کی گھوڑی کو اس کے ساتھ دفنا دیاجاتا تھا تاکہ سردار کی گھوڑی پہ کوئی اور سواری نہ کرسکے۔ حتیٰ کہ کچھ سرداروں کی وفات پہ ان کے کھانے پینے کی اشیاء برتن سونے چاندی کے زیورات سمیت ان کو دفنایا جاتا تھا۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی سپہ سالار جتنے ہم حیثیت نہیں رکھتے ہیں حتاکہ چند سال پہلے کئی سپہ سالار کی قبرستانوں کی بے حرمتی کرکے کھودائی بھی کی گئی تھی جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ جو ایک فسوسناک عمل ہے۔
بلوچستان میں چوکوری قبرستان کئی علاقوں میں موجود ہے جن میں اکثریت سندھ اور بلوچستان میں موجود ہیں ان کی عمر کتنی ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے نہ ہم نہ آثار قدیمہ کے لوگ۔ آج تک آثار قدیمہ کے لوگوں نے ان قبرستانوں پہ تحقیق تک نہیں کی ہے جس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان چوکوری قبرستان کے باہر بنے عمارات کی لمبائی ایک سو فٹ سے بھی ذیادہ ہے جبکہ چوڑائی بیس سے تیس فٹ کے درمیان ہوگی۔ بعض بزرگوں کے بقول یہ چوکوری قبرستان اس وقت بنائے گئے تھے جس وقت بلوچستان کی سر زمین کو سخت پانی کی کمی کا سامنا تھا۔ شاید اسی وجہ سے یہ قبرستان پانی کی جگہ اونٹنی کا دودھ سے بنائے گئے تھے۔ کیونکہ اونٹنی کا دودھ آج جتنا نایاب نہ تھا۔
اس وقت اتنا نایاب نہیں تھا کیونکہ اس وقت سرداروں کے پاس ہزاروں اونٹوں کے قافلے ہوتے تھے جبکہ اس وقت سرداروں کی سب سے ذیادہ قیمتی مال متاع اونٹنی کو سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ ان اونٹوں پہ بلوچوں کی آپس کی کئی لڑائیاں بھی ہوئی تھی جو کئی کئی سالوں تک چلی تھی جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں ان نشانیوں کو تلاش کرتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پہ دو بلوچ قبائل بگٹی اور جمالی میں خونی جنگ ہوئی تھی یہ جنگ بھی انہی جانوروں پہ شروع ہوا تھا جس کا انجام دونوں سرداروں کی موت پہ ہوا تھا۔
اس رات گھپ اندھیرا تھا چاند کا نام و نشان دور دور تک نہیں تھا سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان گہری نیند میں اوطاق میں سوئے ہوئے تھے۔ رات کے اندھیرے میں ایک شخص جبل خان بگٹی آ کے گھوڑا اوطاق سے چھوڑ کے لے جاتے ہیں۔ صبع جب سخی صوبدار خان اور لھڑا خان جمالی نیند سے جاگتے ہیں تو گھوڑا نہ دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں چوری یہ مسکراہٹ بدلے کی آگ تھی اور پھر لھڑاں خان اور سخی صوبدار خان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خوب ہنستے ہیں۔
پھر گھوڑے کے پاؤں کے نشانات لیکر چور کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ان کیلئے چور کو پکڑنا نہ ممکن بات تھی اگلی صبح صادق سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان پاؤں کے نشانات کا پیچھا کرتے چور کے پاس پہنچ جاتے ہیں چور کے پاس اپنا گھوڑا دیکھ کر خاموشی سے آگے گزر جاتے ہیں۔ گھوڑا ان دونوں کی طرف دیکھ کے ناچنے لگتا ہے اس چور کے پاس مقامی سردار کے ایک سو کے قریب اونٹ اور پچاس کے قریب گھوڑے تھے۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان ان کے سارے اونٹ اور سارے گھوڑے کے بدلے میں مار(بدلہ) کر آتے ہیں اور اس شخص کو چوری کے جرم میں قتل کرکے واپس اپنے گوٹھ آتے ہیں اور اس بدلے کی خوشی میں ایک اونٹ سجی بنا کے پورے گاؤں کو کھلاتے ہے۔
اور کہتے یہ بلوچ کے بدلے کی آگ جو کبھی نہیں بجھتی ہے اور اس آگ کو کبھی بجھا بھی نہیں سکتا ہے۔ بلوچوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ کھانہ بنانے کے بعد آگ پہ پانی کبھی بھی نہیں بجھاتے ہے اور نہ جلتی آگ پہ پانی ڈالتے ہیں کیونکہ آگ پہ پانی ڈالنا رزق میں کمی سمجھا جاتا ہے جب تک انگارے خود نہ بجھ جائے تب تک پانی جلتی آگ پہ نہیں ڈالا جاتا ہے۔ اکثریتی بلوچ قبائل کے رات کے جلائے گئے آگ پہ صبع کا ناشتہ بھی بناتے ہیں۔ اور اس عمل کو گھر میں برکت سمجھتے ہیں۔اس روز کے بعد سخی صوبدار خان اور جبل خان کے قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسی ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بدلے کی آگ میں جلتے ہیں اور جنگ کی تیاریاں شروع کرتے ہیں۔
اور ایک بڑے میدان کا بھی انتخاب کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اونٹ گھوڑے اور تلوار تیار کیئے جاتے ہیں سخی صوبدار ایسے دو تلوار لاتے ہیں جس کے کنداق بھی سونے کیبنے ہوتے تھے ان دو تلواروں کے نام بھی رکھے جاتے ہیں ایک نام سسی اور دوسرے کا نام ماروی (سخی صوبدار کے تلوار کا نام سسی تھا جبکہ لھڑاں خان کے تلوار کا نام ماروی تھا) رکھے جاتے ہیں جبکہ سخی صوبدار خان بندوق بھی خریدتے ہیں جو ایک نالی بندوق ہوتے ہیں (جو پہلی بار اس ملک میں وجود میں آیا تھا) اس کا بھی کنداق بھی سونے کا بنا ہوا تھا اور دوسری جانب بگٹی قبائل کے لوگ بھی ہر قسم کے ہتھیار اکھٹے کرتے ہیں اور ساتھ میں میدان شہیدا کا بھی انتخاب بھی کرتے ہیں جہاں پہ مارو یا مر جاؤں آر یا پار کا رسم دو بلوچ قبائل میں شروع ہونے جا رہا تھا۔
اگر کوئی چیز معلوم نہیں تھی تو وہ جنگ کی تاریخ کا اسی میدان میں ہر روز سخی صوبدار خان اور لھڑاں اپنے اونٹ چرانے کیلئے لے جاتے تھے اور دشمن کے ساتھ جنگ کے انتظار میں تھے۔دونوں قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسی ہو گئے تھے جبل خان کے رشتے داروں سمیت ان کے سردار بھی بدلے کی آگ میں جل رہے تھے۔ وہ جبل خان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے تلوار اور لوگوں کو اکھٹے کرنے میں مصروف ہو گئے۔ چھ ماہ میں (نہ گیست) نو + بیس یعنی ایک سو اسی لوگ اکھٹے کر لیئے تھے۔
مرحوم جبل خان (بگٹی) کے قبیلے کے سربراہ نے ایک خط سخی صوبدار خان (جمالی) قبیلے کے سربراہ کو بھیجا کہ ہم اب آپ سے آمنے سامنے جنگ کے لئے تیار ہیں اور آپ کے علاقے میں جنگ کرنے فلا تاریخ کو آئیں گے۔ مگر کاشی (موت یا جنگ کی خبر پہنچانے والا) نے سخی صوبدار خان کا خط مقامی وڈیرے کو دے دیا جس نے وہ خط چھپا لیا۔ تاکہ اچانک گھمسان کی جنگ ہو اور جنگی لاٹ(سپہ سالار کمانڈ ان چیف) دونوں ختم ہو جائیں۔ سخی صوبدار خان نے اس وقت پہلی بار بندوق کا نام سنا تھا اور وہیں سے ایک نالی بندوق لیا جس کی قیمت دس اونٹوں کے برابر تھی یہ بندوق دیکھنے والوں کے لئے ایک عجیب چیز تھی۔ سب لوگ بندوق کی آواز سن کے پریشان ہو جاتے تھے کہ آخر یہ کس چیز کا نام ہے۔
جس کی آواز کے ساتھ نشانہ بھی کرتا ہے نشانہ کرنے کے بعد آواز باہر گونجتی ہے۔ شروع شروع میں لوگ اس کی آواز سن کر اتنا خوفزدہ ہو جاتے تھے کہ نو ماہ کی حمل شدہ عورت دوران حمل عورتیں اپنا بچے تک بھی خوف سے گرا دیتی تھی۔ حتاکہ جو عورتیں حمل کے دوران سخت درد میں مبتلا ہوتی تھی ان کو ایک بیل گاڑی میں بٹھا کر بیلوں کو دوڑایا جاتا تھا اور سخی صوبدار کو بولا جاتا تھا ایک فائر دلیر بچے کیلئے کر دیں تاکہ وہ دنیا میں آ سکیں۔ تو سخی صوبدار خان فائر کر دیتا تو بندوق کی آواز سن کر عورت خوف سے اپنا بچہ پیدا کر دیتی تھی پھر لوگ خوشی سے نہال ہوکر اونٹ یا بکرے کی قربانی کرکے غریب غربا میں تقسیم کر دیتے تھے اور ایک بکرا سخی صوبدار کو بھیجا جاتا تھا جس کا اوطاق میں سجی بنا کر سب دوست احباب آپس میں کھاتے تھے۔
اور بلوچی شاعر و شاعری کی محفل کی جاتی تھی جسے سننے کیلئے دور دور سے لوگ آتے تھے اور شاعری سننے میں مشغول ہوجاتے تھے گاؤں میں کسی بھی جنم گھٹی (بچے کی پیدائش) پہ بہت ساری خوشیاں منائی جاتی تھی جب سخی صوبدار خان کو شاہو خان پیدا ہوا تو اس نے اتنے جانوروں کی قربانی کی تھی کہ لوگ گوشت کھا کھا کے تنگ ہوگئے تھے۔ بلوچ قوم نے ہمیشہ اپنے قول و فعل کی پاسداری کی ہے اسلیئے جب جنگ کا میدان سجایا جاتا تو سب سے پہلے سردار سپہ سالار کا کردار ادا کرتا تھا اور میدان جنگ کا جھنڈا اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جب تلواروں کی جنگ ہوتی تھی تو اس جنگ میں تلواروں کے نام رکھے جاتے تھے جیسے سخی صوبدار کے تلوار کا نام سسی تھا جبکہ لھڑاں خان کی تلوار کا نام ماروی تھا اس کے چلانے کا انداز دیکھ کر لوگ آنکھیں ملتے رہتے تھے۔
آخر یہ لوگ تلوار کیسے چلاتے ہیں حتیٰ کہ لھڑاں خان جانوروں کا شکار بھی ماروی سے کرتے تھے۔ جب وہ کسی بھی جانور کا شکار کرتے تھے تو ایک منٹ میں اس جانور کے دس ٹکڑوں میں بانٹ دیتے تھے۔ لھڑاں خان کے تلوار چلانے کا چرچہ دور دور تک مشہور تھا۔ لھڑاں خان اور سخی صوبدار خان یہ جانتے تھے کہ اب بگٹی قبائل کے لوگ جنگ کرنے ہمارے پاس ضرور آئیں گے اور تاریخ بتائیں گے اس لیے انہوں نے پہلے ہی جنگ کی مختصر تیاری کی ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ اونٹ چرانے لے جاتے تھے تو ہر طرف سے ایک بندہ کھڑا کرتے تھے تاکہ مد مقابل اشخاص کا مقابلہ آرام سے کیا جائے۔اس روز صبع سویرے ایک طرف سے آندھی کی طرح ایک لشکر دیکھائی دے رہا تھا جو نہ گیست (ایک سو اسی) لوگوں پہ مشتمل قافلہ تھا۔
دوسری طرف صرف نہ مرد(نو مرد)تھے سخی صوبدار خان یہ دیکھ کے حیران رہ گیا تھا کہ آخر یہ لشکر بغیر بتائے کیسے جنگ میں آ رہا ہے ہمیشہ بلوچ قبائل کی جنگ بغیر بتائیں نہیں کی جاتی تھی۔ مگر یہ جنگ بغیر بتائیں کی جارہی تھی مٹی کا طوفان اڑ رہا تھا۔ وہی پہ ایک بوڑھی عورت نار (کنویں سے بیلوں کے ساتھ پانی نکالنا) پہ کپڑے دھو رہی تھی بگٹی قوم کے سردار کو اس عورت نے للکار کے کہا۔(اے جوان بکھے روغے)اے جوانوں کہاں جار ہے ہو۔ اتنی بڑی لشکر لیکر تو اس سردار نے گھوڑا روکا اور کہا بی بی آج جنگ ہے آپ کے قبائل کے مردوں کے ساتھ اچھا تو پتا ہے سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان اس لشکر کو جیتنے نہیں دے گے سردار اے بلوچ عورت آپ اسی جگہ ٹھہرنا ہم جنگ جیت کے اسی جگہ آپ کو بتائیں گے کہ ہم اپنا بدلہ لیکر واپس جار ہے۔
اور جیت کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہوگا اس عورت نے کپڑے دھوتے ہوئے کہا یہ جنگ بھی جنگ ہوگی جس کی جیت کا پتا واپسی پہ چلے گا لشکر آگے بڑھتاچلا جا رہا تھا مٹی کا طوفان اونٹوں اور گھوڑوں کے پاؤں سے اڑتا جا رہا تھا۔اب گھمسان کی لڑائی دو قبائل میں شروع ہونے جارہی تھی سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان نے جب اچانک لشکر دیکھا تو حیران رہ گئے کہ یہ لوگ بغیر پیغام دیئے کیسے جنگ پہ آ گئے میدان سج گیا ایک طرف نو لوگ دوسری طرف نہ گیست(ایک سو اسی) لوگ آمنے سامنے تھے گٹی قبائل کے سردار کو للکار کر سخی صوبدار نے کہا کہ ارے واہ جانی واہ آپ لوگ اتنے کمزور ہوگے آج مجھے پتا چلا کہ آپ بنا بتائے جنگ میں آ گئے؟
دوسری طرف سے آواز آئی کہ ہم نے تو جنگ کا پیغام کاشی (جنگ کا پیغام پہچانے والا)کے ساتھ بھیجا تھا دوسری جانب سے سخی صوبدار خان کی آواز آئی کاشی نے ہمیں پیغام نہیں دیا ہے اسلیئے تو ہم اس میدان میں صرف نو لوگ آپ کے مد مقابل ہے مگر یاد کرو ہم نو لوگ آپ کی لشکر کو ایسے جیتنے نہیں دے گے مقابلہ کانٹے کا ہوگا۔مقابلہ شروع ہوتا ہے۔ایک شخص آگے بڑھتا ہے سخی صوبدار بندوق چلاتا وہ وہی پہ ڈھیر ہوتا ہے اسی طرح دس منٹ میں سخی صوبدار اپنی بندوق سے بیس لوگوں کو فائر کرکے مار دیتا ہے تو بیس لوگ ڈھیر ہو جاتے ہیں باقی ایک سو ساٹھ لوگوں کا مقابلہ نو لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
پھر اچانک خاموشی طاری ہوتی ہے بگٹی قبائل کے سردار کی آواز تیز گونجتی ہیں ارے واہ سخی صوبدار خان اور لھڑا خان ہم جنگ لڑنے تلوار کے ساتھ آئے ہیں اور یہ آپ یہ کیا چیز لائے ہو جو دور دور سے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے اپنا یہ ہتھیار پھینک دو اور ہمارے ساتھ تلوار کی لڑائی لڑو تاکہ مقابلہ برابری کا ہو۔پھر سخی صوبدار خان کی آواز گونجتی ہے اور کہتا ہے آؤں پھر یہ لو میں بندوق میں پھینکتا ہو اب پھر نہ کہنا برابر کا مقابلہ نہیں ہوا ہیں۔ بندوق پھنکتے ہی سخی صوبدار خان ماروی تلوار نکالتا ہے سخی صوبدار خان کے دو لوگ ایک سو ساٹھ لوگوں کو دیکھ کہ بھاگ جاتے ہے جن پہ بلوچی میں آج بھی شاعری موجود ہے پھر بھائی خان سخی صوبدار خان کو کہتا ہے۔
زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے جو سرخ سالن کھاتے تھے وہ بھاگ گئے ہے ہمیں ان کی کوئی فقر نہیں ہے شاید وہ لوگ یہ سمجھ کہ بھاگ گئے کہ ہم جنگ ہار جائیں گے مگر ہم مقابلہ کریں گے جیت ہار میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔ مقابلہ دوبارہ شروع ہوا لوگوں کا قافلہ تلواروں کے نیچے آ رہا تھا لوگ مر رہے تھے سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان کے تلوار سے ایک پلک جھپک میں دو دو لوگ اپنے گھوڑوں سے نیچے گر رہے تھے لشکر لٹ رہا تھا لوگ اونٹوں کے نیچے آ رہے تھے گھوڑے مر رہے تھے۔ اچانک ایک شخص لھڑاں خان کو پیچھے سے وار کرتا ہے اور لھڑاں خان پیچھے مڑ کر اس شخص کا سر دھڑ سے جدا کر دیتا ہے اور کہتا ہے جنگ ہمیشہ آمنے سامنے سے لڑی جاتی ہے۔
وہ اپنا پگڑی اس زخم پہ باندھ کے دوابارہ جنگ میں داخل ہوتا ہے سب لوگ اس کی بہادری دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں اور سات لوگوں کا قافلہ مد مقابل کے لشکر کو صرف ساٹھ لوگوں تک پہنچاتا ہیں۔
سات لوگ ایک طرف دوسری جانب ساٹھ لوگ مقابلہ سخت تھا اونٹ گھوڑے میدان جنگ میں دوڑھ رہے تھے لاشیں جگہ جگہ پہ بکھری پڑی تھی اچانک ایک شخص تیز تلوار سخی صوبدار خان کے پیٹ سے آر پار کر جاتا ہے تو بگٹی قبائل کے سردار سمیت سب کی آواز گونجتی ہے جمالی سردار کو تلوار لگی ہے۔ اس وقت لھڑاں خان ہوش و حواس کھو جاتا ہے۔
اس کچھ پتا نہیں چلتا وہ کتنے لوگوں کو میدان جنگ میں مار رہا ہے۔اچانک اس کو دو تلوار ایک ساتھ پیٹھ سے گزرتے ہیں وہ زمیں پر گر جاتا ہے سخی صوبدار خان دیکھ کر بہت افسردہ ہوتا ہے گٹی قبائل کا سردار سخی صوبدار کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اب اپنی ہار مان لو اور اپنا تلوار مجھے دے دو ہمت ہے تو خود تلوار لے لو کیونکہ بلوچ قوم میں تلوار(ماروی) کی بڑی عزت ہے اور میں یہ عزت زمیں پہ نہیں رکھ سکتا ہو جیسے ہی وہ آگے بڑھتا ہے سخی صوبدار خان اپنا پیارا تلوار(ماروی) گھماتا ہے کہ بگٹی قبائل کے سردار کا سر قلم ہوجاتا ہے اور سخی صوبدار خان بولتا ہے۔
اب ہوا حساب ہو برابر اب لے جاؤں اپنے سردار کو اور کوئی پوچھے تو کہنا کہ سخی صوبدار خان مارا ہے سب لوگ سخی صوبدار خان کی طرف دیکھ رہے تھے اس کی بہادری پہ سلام دل ہی دل میں پیش کر رہے تھے اسی دوران بگٹی قبائل کے نو لوگ بچ جاتے ہیں اور باقی بگٹی اور جمالی قبائل کے تمام لوگ وہیں شہید ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس جنگ زدہ علاقے کو شہیدا کے نام سے آج تک پکارا جاتا ہے جہاں پہ ایک سو اکہتر لوگ دونوں قبیلے کے شہید ہوئے تھے۔ جنگ ختم ہوگیا بگٹی قبائل کے لوگوں نے تمام شہیدوں کو وہیں پہ دفن کیا اور اپنے سردار کی لاش واپس لے جارہے تھے وہی عورت نار پہ کپڑے دھو رہی تھی اور بگٹی قبائل کے لوگوں نے اس سے کہا دیکھوں یہ سخی صوبدار خان اور لھڑا خان کا تلوار سسی اور ماروی ہے ان کو ہم نے شکست دے دیا ہے۔
وہ عورت بولتی ہے اس اونٹ پہ کیا لدا ہوا لے جا رہے ہو۔ اس شخص نے کہا اس پہ ہمارے سردار کی لاش ہے تو وہ عورت ہنستے ہوئے بولی سردار گنوا کے اور جیت کا پرچم لہرا رہے ہو یہ آپ کی ہار ہے ہار سب لوگ خاموش ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور آگے بڑھنے لگے آج بھی لھڑاں خان مقبرہ سمیجی میں موجود ہے جو ابھی تک قائم ہے جبکہ سخی صوبدار کا مقبرہ شہیدا میں تھا جو گزشتہ مسلسل سیلابوں کی وجہ سے گر گیا ہے جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ آج بھی جمالی قبیلے کا کوئی بچہ جب بولنے لگتا ہے تو یہ جنگ زدہ بلوچستان کی داستان سنائی جاتی تاکہ بچہ بڑا ہوکر دلیر بنیں۔