محترم جناب عبدالقدوس بزنجو صاحب!
اسپیکر بلوچستان اسمبلی۔
السلام علیکم!
جناب اسپیکر صاحب پوری دنیا دسمبر 2019ء سے ”کرونا“COVID-19نامی عالمی وبا ء کی زد میں ہے۔ دنیا کے باوسائل ممالک چند بنیادی ناقص حکمت عملی اور بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے آج ا ن گنت لاشیں اٹھا رہے ہیں۔
یقینا پاکستان بھی اس عالمی بحران کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکتا تھا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کو تین مہینے کا عرصہ ملا تھا جس میں شعبہ صحت کی انتظامی و ترقیاتی خامیوں کا بروقت جائزہ لے کر اور باہمی مشاورت سے وسائل کا بروقت اور درست استعما ل کر کے اس وبا کی شدت کو روکنے اور کم کرنے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔لیکن بلوچستان میں موجودہ صوبائی حکومت کی ہٹ دھرمی،ناتجربہ کاری، بد انتظامی، اقربا پروری، بے فکری،عدم توجہی، عوام و عوامی نمائندوں سے دوری وشخصی فیصلہ کرنے کا تاریخی نقصان کی صورت بلوچستان و پاکستان کو ہوا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 22فروری کو ہم نے تحریک ِالتوا بسلسلہ کرونا وائرس اور اس کے ممکنہ اثرات و نقصانات سے نمٹنے کے حوالے سے میں نے اسمبلی میں جمع کروایاجس پر 24فروری کو بحث بھی ہوئی۔ لیکن حکومت نے ہماری تجاویز کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر جلد بازی میں ایسے فیصلے کیے جو تاریخی طور پر بلوچستان کے ماتھے پر سیاہ داغ ثابت ہوں گے۔
ہم اراکینِ اپوزیشن نے اسمبلی کا اجلاس اس لیے طلب کرنے کی درخواست دی ہے کہ 22فروری سے لے کر تاحال بلوچستان و پاکستان کے عوام کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے، بغیر مشاورت، رابطہ، ہم آہنگی اور ایک متفقہ صوبائی حکمت عملی نہ ہونے کے باعث مسلسل غلط فیصلے کیے جارہے ہیں جن کے اثرات بلا تفریقِ رنگ و نسل، حلقہ، علاقہ پورے بلوچستان بلکہ پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔
لہٰذا درج ذیل نقاط کو زیرِ بحث لانے اور اس وبا کے انسانی، جانی، مالی، معاشی، معاشرتی و تعلیمی اثرات و حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے بلوچستان اسمبلی کے فورم سے اہم ادارہ کوئی نہیں۔
جناب اسپیکر صاحب!
وبا ء اور جنگ میں قومیں بھوک، پیاس اور اموات کو گلے لگا سکتی ہیں بشرطیکہ ان کی قیادت مستحکم، بااعتماد، قابلِ بھروسہ اور مشاورت پر یقین رکھنے والے اشخاص کے پاس ہو۔
آج کرونا سے زیادہ ہمارا معاشرہ بالخصوص بلوچستان کے عوام اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھے ہیں۔ وہ کرونا سے زیادہ صوبے کے حکمرانوں سے خوف زدہ ہیں جنہوں نے بلا مشورہ ”تفتان“ جیسے فیصلوں سے لے کر لاک ڈاؤ ن تک کردیا لیکن کوئی معاشی اور حفاظتی اقدامات حال متعارف کرنے سے محروم ہیں۔جس کے باعث کرونا سے زیادہ بلوچستان کے غریب افراد بھوک اور دیگر امراض سے گھروں میں مرنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
جناب اسپیکر صاحب!
اجلاس میں ہم اسٹاف کو زحمت نہیں دیں گے، ہمیں پرنٹڈ(printed) ایجنڈا کی ضرورت نہیں،اسٹاف کو کم سے کم بلا کراجلاس کے انعقاد کو اس بحران میں یقینی بنائیں۔ دورانِ جنگ و وبا قومو ں کی قیادت صبح و شام بھوکے وپیاسے ایک جگہ جمع رہتے ہیں، اجلاس و مجالس کرتے ہیں، بدلتے حالات کے مطابق حکمت عملی میں تبدیلی لاتے ہیں،عوام کے اعتماد کو بحال رکھتے ہیں۔ہمارا بحیثیت منتخب نمائندہ اپنے عوام کی طرح گھروں میں رہنے سے صورت حال بہتر نہیں بلکہ ابتر ہوگی۔
جناب اسپیکر صاحب! ان حالات میں جو اہم موضوعات پر بحیثیت ذمہ دار شہری کے ہم درج ذیل امور پر مفصل بات بھی کریں گے اور اپنی رائے و تجاویز سے حکومت کی رہنمائی بھی کریں گے۔
1۔ کرونا جیسی وبا سے نمٹنے کے لیے متفقہ و قابلِ عمل حکمت کا فقدان اور ایک جامع حکمت عملی کی ترتیب
2۔ غربت زدہ بلوچستان کے عوام، تاجر، زمیندار و مال داروں پہ کرونا کے معاشی اثرات
ہمارے موجودہ وسائل اور اِن کی از سرِ نو تشکیل و ترتیب تاکہ اس سے صحت کے شعبہ و غربت کے خاتمے و غریب عوام کو جلد از جلد ریلیف دیا جاسکے۔
3۔کرونا بحران و اس کے تناظر میں کے بعد تیل و اشیائے خورونوش کی قلت پر بحث
اس سے متعلق واضع فیصلے اور عوام کے لیے امدادی پیکج وعمل درآمد کے لیے فاقی حکومت سے رابطہ و لائحہ عمل طے کرنا
4۔کرونا جیسی وبا سے براہ راست نبردآزما شعبہ صحت کے تمام ملازمین کے اعتماد و حوصلوں کو بلند رکھنے کے لیے ”صحت پیکج“ کا اعلان
5۔ بلوچستان میں 200کے قریب بند دیہی مراکز ِصحت کی فوری بحالی کی حکمت عملی
6۔کرونا کے تعلیمی عمل پر پڑنے والے اثرات او ر تعلیم کو جاری رکھنے کے متبادل ذرائع پر بحث و حکمت عملی کی تشکیل
جناب اسپیکر!
یہ وہ اہم امور ہیں جن پر اگر منتخب نمائندے مل کر بات، بحث اور حکمت عملی مرتب نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟کیا ہمیں عوام نے اس لیے منتخب کیا تھا کہ جب قوم حالاتِ وبا و جنگ میں ہوتو ہم ان کو صرف صابن سے ہاتھ دھونے کے مشورے دیتے رہیں؟یا ان کو گھروں میں بند رہنے کی تلقین؟
جناب اسپیکر!قوموں کی قیادت ایسے مواقعوں پر اپنی کوتائی و خامیوں کو سمجھنے و حل کرنے کے لیے اجتماعی فیصلے و کوششیں کرتی ہیں۔ اچھی و مخلص قیادت راشن کے چند تھیلے، صابن کی ٹکیا اور ماسک تقسیم کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوتی۔یہ وبا بہت سے قومی مسائل جنم دینے کا باعث بنے گی۔ہمارے پاس وسائل اور دولت کی کمی نہیں بس اگر کمی ہے تو حکمت عملی اور بہتر منصوبہ بندی کی جو قیادت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہمارا فرض ہے کہ ہم بلوچستان و پاکستان کو اس دلدل سے با حفاظت نکلنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا راستہ و منزل فراہم کریں۔
مجھے امید ہے کہ آپ میرے اس مراسلہ یا خط پر غور کرکے اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے تحت فوری طور پر اجلاس طلب کریں گے۔
ثنا ء اللہ بلوچ
ممبر صوبائی اسمبلی
بلوچستان و کرونا کے حوالے سے واجہ ثناء بلوچ کا اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے نام خط
وقتِ اشاعت : March 29 – 2020