|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2020

شکوہ تو عوام سے کیا جارہا ہے کہ وہ اس خطرناک وباء کا تمسخر اڑارہے ہیں اور اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے مگر گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی سنجیدہ گفتگو سنی تو عوامی مزاج کی جو برآمدگی کی سوچ ہے پھر تو عوام پرہی ترس آرہا ہے کہ وہ اب بھی نظام اور قدرت کے سہارے کوئی کرشمہ دیکھنے کے منتظر ہیں،خدا کرے کہ کوئی ایسا چمتکار ہوجائے اور اس وباء سے پاکستان اس طرح متاثر نہ ہوجس طرح سے اس انتہائی مہلک مرض نے دنیا کے اہم ترین ممالک کو شدید متاثرکرکے رکھ دیا ہے۔ اس وقت دنیا کیلئے یہ وباء ایک چیلنج بن چکا ہے جسے ایک بڑی جنگ سمجھ کر اس سے نمٹنے کیلئے تمام وسائل کو نہ صرف بروئے کار لایاجارہا ہے بلکہ آئندہ چند سالوں میں جومعاشی صورتحال درپیش ہوگی اس کیلئے بھی پیشگی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اٹلی میں اس وقت سب سے زیادہ خوفناک صورتحال ہے جہاں اموات کی شرح روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں میں ہے۔

جبکہ امریکہ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد دنیا بھر کے ممالک سے سب سے زیادہ ہوگیاہے تقریباََ ایک لاکھ لوگوں میں اس مرض کی تشخیص ہوچکی ہے جبکہ اموات کی شرح بھی زیادہ ہے، اسی طرح دیگر یورپی ممالک بھی اس خوفناک صورتحال کا سامناکرر ہے ہیں جبکہ چین جہاں سب سے پہلے اس وباء نے سراٹھایا تھا اور بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کو نگل لیا تھاخطرناک حد تک ہے اب وہاں پر حالات کنٹرول میں آچکے ہیں مگر ایران میں اب بھی اموات تیزی کے ساتھ ہورہی ہیں اور صورتحال کنٹرول سے باہر ہے۔ بہرحال دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صحت اورمعیشت کا پاکستان کے ساتھ موازنہ نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی اس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔البتہ عوامی رویوں پر جب افسوس کیاجارہا تھا تو دوسری جانب ہمارے ملک میں جس طرز کی حکمرانی رہی ہے تو اس سے یہی نتیجہ برآمد کیا جاسکتا ہے جہاں پر سائنس کو روایتی تعلیم پر زیادہ اہمیت دی گئی اور اسی طرح سے یہاں شعوری معیار پنپتاگیا۔

جس کے نتائج آج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ عوام آج بھی اس وائرس کو سنجیدہ نہیں لے رہی جبکہ لاک ڈاؤن میں سختی کی جارہی ہے کاروبار مکمل بند کردیا گیا ہے، سرکاری وپرائیویٹ ادارے بھی بند ہیں گویا تعطیلات کو موسمی تعطیلات سمجھ کر بھرپور لطف اٹھایاجارہا ہے اور چھٹیوں کا مزہ دوبالا کیا جارہا ہے۔ مگر دوسری طرف ان غریب خاندانوں کی حالت قابل رحم ہے جو اس سنگین صورتحال میں فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں جبکہ سفید پوش بھی اب اس بحران کی وجہ سے زیادہ دن اپنی سفید پوشی کو نہیں چھپاسکیں گے۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک میں اگر عوام کو ریلیف دیا گیا ہے تو وہ ان کی دہلیز نہیں بلکہ ان کے ہاتھوں میں ہی موجود ہے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے موجود ان کے پاس سرکاری کارڈموجود ہیں جن کے ذریعے وہ ہر قسم کی بنیادی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔

انہیں کسی قطار میں کھڑے رہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور نہ ہی فراڈ کا کوئی طریقہ موجود ہے چونکہ ریاست خود ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ نظام کے اندر کام کرتی ہے، حکمران اپنے آپ کوعوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں کیونکہ جمہوری کلچر میں عوام اپنے حکمرانوں کا نظام کے اندر کڑا احتساب کرتی ہیں گویا وہ کسی طرح کی بھی غفلت کے مرتکب ہوں جبکہ ہمارے ہاں عوام نہ جانے کس خوش فہمی میں مبتلاہے بجائے کہ اپنی حالت اور نظام پر سنجیدگی سے غورکریں کہ ان کے حکمرانوں نے لوٹ کھسوٹ اور تجارت کی بنیاد پر سیاست سے نہ صرف فائدہ اٹھایا بلکہ اپنے کاروبار کو اتنی وسعت دی کہ آج ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ ان کی آنے والی سات پشتیں لگژری زندگی گزار سکتے ہیں جبکہ عوام کو شارٹ کٹ اور فراڈ کے طریقے سکھائے گئے کہ باآسانی کرپشن کرکے اپنی ذات کیلئے آسانیاں پیداکریں اور نظام کا حشر نشر اجتماعی طریقے سے کریں۔

قرض اتارو ملک سنوارو، بینظیر انکم سپورٹ فنڈکارڈمیں جس طرح سے کرپشن کی گئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی،بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے اور مزید مواقع کی تلاش میں دکھائی دیتے ہیں چونکہ سیاسی نظام ہی کرپٹ ہوجاتا ہے تو ادارے اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکتے،میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں اوپر سے نچلی سطح تک نوسرباز ہی دکھائی دیتے ہیں تو بھلاایمانداری کی توقع کس سے اور کیسے کی جاسکتی ہے۔ جہاں پر این جی اوز کی بھرمار، دسترخوانوں کی سجاوٹ اور ساتھ ہی فوٹونمائش کے ذریعے کام چلایاجاتا ہے اب جو سنگین اور خوفناک صورتحال خدا نہ کرے کہ آئے جس کا قوی امکان ہے۔

کہ وہ ہمارے دروازے پر دستک دینے پہنچ چکی ہے ایک بہت بڑا انسانی بحران جنم لے گا، پھر آہیں ا روسسکیاں ہی ہر طرف سنائی دینگی ایک افراتفری کی کیفیت ہوگی اور یہ فراڈی بزنس مین اور سیاستدان آپ کو کسی بھی نکڑ پر دکھائی نہیں دینگے تو پہلے سے ہی اپنی جان کی امان پاؤ اور اس وباء کو خود سے دوررکھو کیونکہ جس طرح میں نے وزیراعظم صاحب کے متعلق فرمایا تو اس تمام بحران کاحل جو فی الوقت ڈھونڈا گیا ہے وہ عوام کی خدمت میں پیش ہے”وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے خلاف ٹائیگرز فورس بنانے کا اعلان کر دیاہے جو کورونا کا مقابلہ کرے گی، نوجوانوں کی رجسٹریشن 31مارچ سے شروع کی جائیگی اور ان کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچائیں گے، وزیراعظم صاحب کی اس وضاحتی جملہ پر بھی غور کیجئے کہ وہ دبے لفظوں میں کہنا کیا چاہتے ہیں ”امریکہ نے اپنی معیشت اور عوام کے لیے 2 ہزار ارب ڈالر کا پیکج دیا ہے جبکہ ہماری ٹیکس کولیکشن 45ارب ڈالر ہے۔“اندازہ اس ٹائیگرز فورس اور ٹیکس سے ہی لگائیں کہ حکومت آپ کیلئے آنے والے دنوں میں کیا کرسکتی ہے؟ وزیراعظم عمران خان بخوبی آگاہ ہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ توجہ صحت کے مراکز پر دینے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹرز اور طبی عملہ کے حوالے سے ملازمتیں بھی موجود ہیں جہاں پر بہترین سرجن کی بھی اس وقت پوسٹیں خالی ہیں مگر انہیں پُر کرنا نہیں ہے،ٹائیگرز فورس کے کارناموں اور کرامات کا انتظار عوام کریں جبکہ معاون خصوصی نے بھی کسی حد تک اس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے کیلئے عوام کو اشارہ دیدیا ہے کہ گھروں کے اندر قرنطینہ بنائیں اور اس حوالے سے مریضوں کو گھروں میں ہی منتقل کیاجارہا ہے تاکہ وینٹی لیٹرز کی کمی کی شکایات سے حکمرانوں کی جان چھوٹ جائے اور ڈنکے کی چوٹ پر آکر کہہ دیں کہ ہم نے تو پہلے ہی اس حوالے سے آگاہ کیا تھا کہ عوام گھروں کے اندر اپنا بہتر علاج کرسکتے ہیں،لاپرواہی کے ذمہ دار ہم تو نہیں یعنی جو خوفناک صورتحال بنے گی اس پر ماضی کی طرح موجودہ حکومت صفائی سے نکل جائے گی، اگر پھنس گئی تو ثاقب نثار جیسے مسیحا ڈیم فنڈز کے چندے پر کس دن کام آئینگے جنہوں نے بلیک منی کو وائٹ کرنے کی رعایت دیتے ہوئے بزنس فراڈ ٹائیکون پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا۔

یعنی فنڈز دو کیسزسے بچ جاؤ، ایک اچھی بات یہ ہے کہ چین سے طبی ماہرین اور آلات آچکے ہیں جس سے قوی امکان ہے کہ اس وباء سے متاثرہ مریضوں کا علاج بہتر ہوسکے جبکہ ہمارے ڈاکٹرز اور طبی عملہ نے بھی محدود وسائل اور سہولیات میں رہتے ہوئے بہترین کارنامہ انجام دیا ہے جنہیں عوامی سطح پر بھی خراج تحسین پیش کیاجارہا ہے جس کے مستحق ہیں بہرحال جو کچھ گزشتہ ستر سالوں سے زائد عرصہ میں صحت کے حوالے سے کام کرنا چاہئے تھا وہ نہیں ہوسکاموجودہ بحران سے ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ بھلا ہو سعودی حکام کا جنہوں نے ایک بڑا فیصلہ کرکے پاکستانی عوام پر احسان کیا کہ خانہ کعبہ میں فی الحال عمرہ اور دیگر عبادات پر پابندی لگادی ہے کیونکہ ہمارے غریب عوام انتہائی سادہ لوح ہیں ان کے جذبات اور احساسات کے ساتھ چند مولوی حضرات نے جس طرح کھیلواڑ کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی اور اب بھی بعض حکومتی احکامات پر بجائے عمل کے بضد دکھائی دے رہے ہیں۔

جبکہ ہماری سادہ لوح عوام ان پر اعتبار کرکے ہر بحران کو یہودی سازش قرار دیتی ہے تاکہ اصل حقائق سے عوام دوررہیں اورحکمرانوں کی نالائقی کی طرف توجہ نہ جائے اور کسی قدرتی کرشمہ کے منتظر رہیں، مگر رب العالمین نے انسان کو آزمائش میں بھی ڈالا ہے کہ وہ اپنے علم و عقل کے ذریعے کسی بھی مشکل سے نکلنے کیلئے ان کی دی گئی نعمت عقل اورعلم کا استعمال کریں کہ وہ کیسے اس وباء اورآفت سے نکل سکتی ہے لہٰذا قراء اسی کو سمجھتے ہوئے جدید علوم سے آشنا ہوکر حقائق کا سامنا کرتے ہوئے اس چیلنج کا مشترکہ مقابلہ کریں اور اس وباء کو اجتماعی طور پر شکست دیں جوکہ سائنسی بنیادوں پر ہی ممکن ہے اور اس کیلئے عمل اور دعا دونوں کی ضرورت ہے چونکہ دنیا میں اب تک اس وباء کو روکنے کیلئے کوئی ویکسیئن نہیں بنی ہے مگر عالمی ماہرین اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں اور ایک سال کا وقت بھی دیا ہے۔

پاکستانی عوام کی زندگی میں پہلی بار اس طرح کابڑا انسانی بحران آیا ہے مگر شام،عراق، لیبیا اور خاص کر افغانستان تو دہائیوں سے انسانی بحرانات کا سامنا کرر ہے ہیں۔ایک نظر اپنے اردگرد ان افغان بچوں کی طرف دوڑائیں جو کئی دہائیوں سے آپ کے گلی کوچوں میں کچرے چنتے دکھائی دیتے ہیں ان کی آنکھوں اور چہرے کی خوبصورتی کے نقش نگار اور جو معصوم چہرے زندگی کو جینا چاہتے ہیں اور افغان قوم کے متعلق جو سوچ تھی اس پر بھی نظر ثانی کریں شاید یہ احساس ہوکہ واقعی بحرانی کیفیت انسان کو کس قدر لاچار اور بے بس کرتی ہے جوخودداری کے ساتھ جینا چاہتا ہے مگر ان کے اختیار میں نہیں ہوتا جن کا فیصلہ زمینی خدا کرتے آئے ہیں۔ یہ اب پاکستانی عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آنے والے دنوں کو بہتر بنانے کیلئے اس وباء کو نہ صرف شکست دیں بلکہ موجودہ حالات کے پیش نظر زمینی خداؤں پر بھروسہ کرنے کی بجائے مستقبل کیلئے بھی سوچیں کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار کن کے ہاتھوں میں دینگے۔

دنیا کے بیشترممالک میں اس وقت لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے جبکہ بعض جگہوں پر کرفیو تک نافذ کردی گئی ہے تاکہ لوگ گھروں میں محدود رہے او ر اس وباء سے بچ سکیں۔ کورنٹائن کا مطلب گھرکے اندر بالکل الگ خود کو رکھاجائے جوکہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں چونکہ وباء سے بچنے کا واحد ذریعہ یہی ہے جبکہ کورونا وائرس جیسے وباء کی صورت میں جواموات ہوتی ہیں ان کے آخری رسومات پر بھی بہت احتیاط برتی جاتی ہے البتہ اس حوالے سے حکومت اور علمائے کرام کی بیٹھک تو نہیں لگی مگر اسے سائنسی اور مذہبی تناظر میں دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا چونکہ خطرناک وبائی امراض کے شکار افراد کی تدفین اور دیگر رسومات کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے جو عموماََ ہمارے کلچر کے عین مطابق نہیں ہوتامگر اس وبائی صورتحال کے پیش نظر عوام کو اپنی سوچ سے ہٹ کر عمل کرنا ہوگا تاکہ اس مہلک مرض سے بچنے میں مددملے سکے۔