وزیر اعظم عمران خان اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی بجائے پورے ملک کا وزیر اعظم اور رہبر کی سیٹ پر براجماں ہے۔ انھیں 22 کروڑ عوام نے رہنمائی کیلئے ملک کی آئین کے مطابق وزیر اعظم منتخب کیا گیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کو کورونا وائرس جیسی موزی مرض کے مقابلے کا سامنا ہے۔ چین سے شروع ہونے والا کورونا وائرس چین میں تقریباً ختم کر دیا گیا ہے جبکہ دنیا کے 196 ممالک میں آئے روز نئے نئے کورونا کے مریض پیدا ہو رہے ہیں اور اس وقت پوری دنیا میں 18 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔تمام ممالک اپنے طور طریقوں اور اجتماعی عوامی قوت سے اس موزی مرض کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ہمارے ملک میں بھی آئے روز اس وبائی مرض کے نئے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔
ملک کی سیاسی قیادت اپنی اپنی پارٹیوں اور اپنے اپنے مفادات کے حصول میں ابھی تک جھکڑے ہوئے ہیں۔ سندھ کا وزیر اعلیٰ مرض سے نمٹنے کیلئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر تا ہے اور وہاں سے برسر اقتدار پارٹی کا چیئرمین وزیر اعظم سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس مرض کو روکنے کیلئے آگے بڑھے وہ ان کے ساتھ ہوں گے۔ مسلم لیک (ن) اور دیگر سیاسی پارٹیاں بھی اس فیصلے پر حکومت کو تعاون کی پیش کش کر چکی ہے۔اسی طرح صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھی لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ بھی اپنے اپنے طور پر دریا میں ڈبکیاں مار رہے ہیں۔
وزیر اعظم کلیئر نہیں ہے انھیں ایک طرف معیشت کے ڈوبنے کا خدشہ ہے تو دوسری طرف وبائی مرض کے زیادہ ہونے پر خوفناک صورتحال کا سوچ کر ان کے اوسان خطا ہو رہے ہیں۔ ان کا فرض منصبی ہے کہ وہ تمام اداروں کی اجتماعی سوچ سے فیصلے کرنے کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے انھیں ملنے والی حمایت کو بروئے کار لائیں۔ تما م سیاسی پارٹیوں سے مشورہ کرکے ایک قومی فیصلہ ہونے کے بعد اس پر عمل کریں۔ پاپولریٹی اور سیاسی فائدے کے خوف سے نکل کر تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور طبقات اس موزی مرض کا مقابلہ کرے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ رات عوام کیلئے جس ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے وہ کسی حد تک درست سمت میں ایک قدم ہے۔ اس پیکج میں پٹرول، ڈیزل 15 روپے سستا کرنے، کھانے پینے کی اشیاء میں ٹیکس کی کمی، دیہاڑی دار مزدوروں کیلئے 200 ارب روپے دینے، طبعی سامان کیلئے 50 ارب روپے، گندم کی دستیابی کیلئے 280 ارب روپے،قرضہ جات کیلئے 100 ارب روپے مختص کرنے، 150 ارب روپے کا یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے سامان کم قیمتوں پر دینے،دیہاڑی دار مزدوروں کو فی خاندان 3000 روپے دینے جیسے اقدامات عام اور غریب طبقات کو فاقہ کشی سے بچانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نادرا سے معلوم کرے کہ اس وقت کتنے خاندان دیہاڑی دار مزدوروں اور بے روزگار لوگوں کی ہیں اور کتنے خاندان موجودہ صورتحال میں ان کے سرپرست کے بے روزگار ہونے سے ضرورت مندوں کی فہرست میں آجائیں گے۔ ایسے تمام خاندانوں کیلئے کم سے کم 17500 روپے ماہانہ کی رقم فی خاندان دینے سے ان کی کفالت ہو سکتی ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی حکومت نے ایسے مزدوروں کیلئے 17500 روپے دینے کا اعلان کیا ہے جو کہ درست فیصلہ ہے لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان کو چاہیے کہ تمام ضلعوں کے ہسپتالوں کو فعال بنائیں، ہسپتالوں میں دوائیاں، ٹیسٹنگ کٹس،وینٹی لیٹرزاور کام کرنے والے ملازمین کو سینی ٹائزر، ماسک اور صابن کی فراہمی کرے، تمام وزراء، ایم این ایز، ایم پی ایز سے کہا جائے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں کو فاقہ کشی سے بچانے کیلئے خود میدان میں نکل کر شہریوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کریں۔
بجلی اور گیس کے غریب صارفین سے 02 مہینے کا بل نہ لینے اور ان کی جگہ حکومت ان اداروں کو سبسڈی دیں تاکہ ادارے بھی چلتے رہیں۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ملک میں انصاف کا ایسا نظام لائیں جو غریب اور امیر کیلئے برابر ہوں۔ ملک میں احتساب کا ایسا ایکٹ نافذ کرے جس میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ جہانگیر ترین، خسرو بختیار، علیم خان اور دیگر کے ساتھ ساتھ شریف خاندان، زرداری خاندان سمیت تمام ایسے بڑے بڑے لوگ جنہوں نے حکومت میں رہ کر کرپشن کی ہو یا حکومت میں رہتے ہوئے ان کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہو ان سب کیلئے احتساب کا بلا امتیاز قانون نافذ ہونا چاہیے اور اس میں،میں نہیں چھوڑوں گا کی بجائے احتساب کا ادارہ قانون کے مطابق کیسز بنائیں اور عدالتیں اپنے حلف کے تحت اللہ کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے انصاف کے اصولوں کے مطابق پکڑنے اور چھوڑنے کا فیصلہ کرے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ 34 سال پہلے کے کیس میں جنگ اور جیو کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمن کو کیس کے ابتدائی مرحلے میں گرفتار کرکے میڈیا اور حکومت کے دومیان بھی فاصلے بڑھ چکے ہیں جو کہ،موجودہ حالات اور وبائی مرض کی موجودگی میں غلط فیصلہ ہے۔حکومت میڈیا کے ساتھ تنازعہ ختم کرکے میر شکیل الرحمن کو رہا کرے اور میڈیا کے واجب الادا 06 ارب روپے کی ادائیگی کرے تاکہ میڈیا کے کارکنوں کو ان کی تنخواہیں مل سکیں اور میڈیا بھی اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا بھرپور حصہ دال سکیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم میں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے نمائندگان موجود ہیں جو اس ملک کے معاشی مفادات کی بجائے اس ملک کی تمام پالیسیوں کو بین الاقوامی غلامی برقرار رکھنے کیلئے بناچکے ہیں۔ وزیر اعظم کا توانائی سے متعلق مشیر ندیم بابر سے متعلق کہا جارہا ہے کہ موصوف آئی پی پیز سے تعلق رکھتا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ پاور سیکٹر کو نیلام کرکے ملک کو اسٹیٹجک اثاثہ جات سے محروم کرتے ہوئے لاکھوں خاندانوں کو روزگار سے محروم کیا جائے اور بجلی بھی پرائیویٹ لوگوں کے رحم و کرم پر چلے۔جس سے معیشت کی تباہی یقینی ہوگی۔
موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کواپنے ارد گرد مشیروں پر نظر رکھنی چاہیے کہ ان کے مشیر کورونا وائرس کی وبائی مرض کی موجودگی میں ان سے کوئی غلط فیصلے نہ کروائیں۔اس وقت پہلی ترجیح وبائی مرض کا خاتمہ اور شہریوں کی زندگیوں کو بچانا ہے جبکہ دوسری ترجیح ملکی معیشت کو زبوحالی سے بچانا ہے تاکہ ملک معاشی طور پر غیر مستحکم ہونے کا شکار نہ ہو جائے۔ وزیر اعظم پورے ملک کے 22 کروڑ عوام کے لیڈر کے طور پر تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلے اور کورونا وائرس جیسے موزی مرض کے خلاف لڑنے والے صحت سے تعلق رکھنے والے ملازمین،پاک فوج کے جوانوں، پولیس، واپڈا، پانی گھروں تک پہنچانے والے ملازمین،خوراک اور ضروری اشیاء کی ترسیل میں کام کرنے والے اور دیگر کام کرنے والے افراد اور مزدور وں کو حفاظتی سامان فراہم کرکے ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کیلئے انھیں بھی خصوصی پیکج دیا جاتا تاکہ فرنٹ لائن پر کام کرنے والے یہ بہادر نوجوان،مزدور،ڈاکٹر اور دیگر اہلکاران اس ناگہانی آفت میں اپنی ملک کے شہریوں کی جان بچانے اور ان کی خدمت کرنے میں حوصلے کے ساتھ کام کر ے۔