دنیاکے تمام ممالک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث افراتفری اور خوف میں رہتے ہوئے فیصلے کررہے ہیں لیکن ڈیڑھ ارب آبادی والے ملک چین سے پھیلنے والے وبائی مرض میں چین کی حکومت اور عوام نے اپنے مصمم ارادے اور محنت سے کام کرنے کے بعد اس وبائی مرض پر قابو پالیا ہے بلکہ اب چین کی حکومت پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اپنے ڈاکٹرز، ماہرین اور حفاظتی سامان و آلات بھجوا کرانسانیت کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
دنیا کا سپر پاورملک امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک اٹلی، جرمنی، فرانس، دیگر یورپی ممالک اور دولت مند مسلمان ممالک میں بھی اس وبائی مرض کے روز بروز پھیلنے کی وجہ سے پورے پورے ملک، بڑے بڑے شہر اور علاقے لاک ڈاؤن ہوچکے ہیں کیونکہ اس وقت اس بیماری کا واحد علاج حفاظتی اقدامات ہیں اورفی الحال اس وائرس کی کوئی ویکسین یا دوائی دریافت نہیں ہوئی جبکہ دنیا کے ڈاکٹرز اور سائنسدان اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔کورونا وائرس ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ ملنے جلنے سے پھیل رہا ہے اس لئے پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے نہ ملے اور اسی وجہ سے اجتماعات منعقد کرنے کی بھی ممانعت کی گئی ہے، سعودی عرب کی حکومت نے مکہ، مدینہ اور ریاض کے درمیان ٹرانسپورٹ اور شہریوں کے آنے جانے اور تمام ممالک سے عمرہ زائرین پر پابندی لگا دی ہے اور اس وقت بیت اللہ شریف کا طواف موقوف کردیا گیا ہے اور مسجد نبوی میں بھی نمازِباجماعت کا انعقاد معطل ہوچکا ہے۔
اس وبائی مرض سے متعلق بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں اب بھی شش و پنج کا شکار ہیں کہ انسانی جانوں اور معیشیت بچانے میں کس طرح کے فیصلے کیے جائیں۔عوام کی نظریں ملک کی سیاسی قیادت اور اداروں کی طرف ہیں لیکن صد افسوس کہ وزیر اعظم آج بھی اپنی انا پرستی سے باہر نہیں نکل رہے اور اپوزیشن پارٹیاں بھی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی پالیسی پر اپنے سیاسی مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں انہیں یہ فکر نہیں ہے کہ غریب اور لاچار عوام پریشانیوں کا شکارہوکر ان کے فیصلوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔
دوسری طرف ہمارے ملک میں جہالت اور غربت کی وجہ سے پریشانی اور اضطراب زیادہ ہے ہم اپنے علماء اکرام کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ موذی وباء سے متعلق فتویٰ جاری کریں تاکہ وباء کی روک تھام کی جاسکے۔رسول پاک ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ انٹنی کو باندھ کر اللہ پر توکل کیا جائے۔امیر المومنین عمر فاروقؓ کے دور میں طاعون پھیلا اور اتنی سختی سے فیصلہ کیا گیا کہ طاعون کی وباء شام اور عراق سے باہر نہیں نکلی اس اثناء میں حضرت عمر فاروقؓ شام کی طرف روانہ ہوچکے تھے کہ تبوک کی طرف پہنچے اور وباء کی اطلاع ملی تو انہوں نے آگے جانے کے بجائے فیصلہ بدل دیااس وباء سے 25ہزار مسلمان طاعون کی نظر ہوئے جس میں کئی جلیل القدر صحابہ اکرامؓ بھی شامل تھے۔
ہمارے ملک کے شہری آج اس ایک سوال کا جواب حاصل نہیں کرپارہے کہ مصافحہ سنت ہے اسے کیسے چھوڑا جائے جبکہ وباء اور طاعون کی صورت میں مصافحہ چھوڑنا سنت ہے حضور پاک ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ کوڑھی سے یوں بھاگو جیسے شیر سے خوفزدہ ہوکر بھاگتے ہو۔ علماء اکرام آج پورے ملک میں اس وباء کے پیش نظر ایسے پیغامات شہریوں کو دیں کہ وہ اس وبائی مرض سے محفوظ ہوجائیں اور ان کا دین ایمانی پر پختہ یقین قائم و دائم رہے۔ پورے ملک بالخصوص صوبہ بلوچستان کے اکثر علاقوں کی عوام تک آگاہی کے پروگرام نہیں پہنچ رہے ہیں کوئٹہ شہر میں اس وبائی مرض سے بچاؤ کے طور طریقے تو بتائے جارہے ہیں لیکن اس پر بھی غربت اور جہالت کی وجہ سے عمل کم ہورہا ہے کیونکہ غریب مزدور روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے کیلئے گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت بلوچستان نے ایسے غریب محنت کشوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کیلئے امداد کے اعلانات کیے ہیں جن پر فوری طور پر عملدرآمد سے لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کو کامیاب بناکر مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ غریبوں اور محنت کشوں کو فاقہ کشی سے بھی بچایا جاسکے۔اس سلسلے میں عوام سے ووٹ لینے والے20 قومی اسمبلی کے ممبران، 23 سینیٹرز اور 65 صوبائی اسمبلی کے ممبران جن میں وزراء اور مشیر بھی شامل ہیں وہ سب اپنے اپنے حلقے میں اپنے ڈپٹی کمشنرز اورڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کے ذریعے ایسے غریب اور محتاج شہریوں کی فہرست بنائیں اور انہیں فوری طور پر یہ امدادی رقوم منتقل کرکے لاک ڈاؤن کے حکومتی اعلانات کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے ووٹ لینے کیلئے گھر گھر پر جاتے ہیں آج ان کا فرض ہے کہ وہ ان ووٹرز کی جان بچانے کیلئے اپنے گھروں سے نکل کر ان کے گھروں تک خوراک، ادویات، حفاظتی کٹس، صابن اور سینیٹائزر وغیرہ پہنچائیں ان کی سیاسی پارٹیوں کے نوجوان کارکن اس مہم میں شریک ہوکر انسانیت کی خدمت کریں،علماء اکرام سے مدد لے کر تمام مساجد کے اسپیکرز کو شہریوں کی جانوں کی حفاظت کے آگاہی پروگرام کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے، اخبارات اور پمفلیٹ کے ذریعے عوام کو تحفظ سے متعلق آگاہی دی جاسکتی ہے آگاہی مہم اور حفاظتی اقدامات پر عمل سے عوام اگر کچھ عرصے تک گھروں میں رہے تو اس وبائی مرض کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔حکومت بلوچستان اس سلسلے میں اچھے فیصلے لے رہی ہے لیکن ان فیصلوں میں مزید مستعدی کی ضرورت ہے۔
حکومت بلوچستان کو علم ہونا چاہیے کہ بہت سے زائرین افغانستان کے راستے توبہ اچکزئی اور توبہ کاکڑی سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پہنچ رہے ہیں جبکہ راستے میں موجود ناکے پوچھ گچھ کے بجائے فیس پر اکتفا کرکے ایسے لوگوں کو جانے دے دیتے ہیں اس کا تدارک ہونا چاہیے اس کے علاوہ محکمہ ہیلتھ کے ماتحت تمام ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور اسٹاف کی حاضری کے ساتھ ساتھ دوائیوں کی فراہمی ضروری ہے، لیبر ڈپارٹمنٹ پر سالانہ اربوں روپے کا بجٹ خرچ ہورہا ہے آج ان کے سوشل سیکورٹی کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور اسٹاف کی غیر حاضری اور دوائیوں کی عدم موجودگی کی خبریں عام ہیں۔
محکمہ لیبر کے پاس غریب محنت کشوں، دیہاڑی دار مزدوروں اور بے روزگارجوانوں کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے ان کے پاس کوئی ایسی ویب سائٹ بھی موجودنہیں ہے جس میں صوبہ بلوچستان کے مزدوروں اور بے روزگاروں کی تعداد اور نام پتے موجود ہوں۔بد قسمتی یہی رہی ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ملک کو جہالت اور غریب میں دھکیل کر حکمران طبقہ اپنے مفادات حاصل کرتارہا ہے اور آج یہی حکمران طبقہ اپنے گھروں میں خوراک اور دوائیوں سے لیس ہے اور انہوں نے اپنے اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرلی ہے اس لئے بے یارومددگار غریب شہریوں کو بیماری اور فاقہ کشی کے نقصانات کا سامنا زیادہ ہے۔
اب اگر ملک میں فوری طور پرحالات بہتر نہیں بنائے جاتے تو پورا ملک اس جہالت اور غربت کی وجہ سے افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے جس میں حکمران اور مراعات یافتہ طبقہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔حکومت کو مزید مستعدی سے کام کرتے ہوئے وباء کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے انتظامات کے ساتھ ساتھ غریبوں کو فاقہ کشی سے بچانے کے فوری اقدامات کرنے چاہییں تاکہ پورا معاشرہ اور تمام شہری محفوظ ہونے کا احساس کریں اور ملک اور صوبے میں اس وبائی مرض کو کنٹرول کیا جاسکے۔