|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2020

لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہر کی اکثر دکانیں بند تھیں، شاہراہوں پر معمول سے کم ٹریفک رواں دواں تھا۔ منچلے نوجوان اس لاک ڈاؤن کو ایک مذاق اور تفریح سمجھ کر پکنک منانے مختلف پکنک پوائنٹس کی طرف جا رہے تھے۔ محلے کے اکثر گلی کوچے کرکٹ گراؤنڈ بن چکے تھے۔لوگ یہ جانتے ہوئے کہ شہر میں کیوں لاک ڈاؤن ہے؟ پھر بھی گھروں میں رہنے کی بجائے آوارہ بن کر شاہراہوں، دکانوں کے سامنے اور عوامی مقامات پر اجتماع لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔

شہر کے زیاد تر دکاندار اس لاک ڈاؤن کو زحمت کی بجائے رحمت سمجھ کر پرانے اسٹاک میں موجود اشیاء کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہوئے فخریہ انداز میں کہہ رہے تھے کہ کراچی اور ایران کا بارڈر بند ہے۔عجیب منظر تھا کہ پٹرول کی دکانیں بند تھیں پھر بھی موٹر بائیک اور گاڑیاں شاہراہوں پر تیزی کے ساتھ دوڑ رہی تھیں۔ مارکیٹ اور کاروباری مراکز بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگاری سے آوارہ پھر رہے تھے۔ اور ذخیرہ اندوز اس لاک ڈاؤن کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے۔

مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو سوشل میڈیا میں مشورے دیتے دیکھ کر میں یہی سمجھا کہ یہ لوگ اگر ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نہیں تو کراچی اور کوئٹہ کے کسی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی میں میڈیکل کے طالب علم ضرور رہے ہیں جنھوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے ڈاکٹری کی نوکری کے بجائے سیاست اور سماجی کارکن بننا پسند کیا۔کہیں ایک عدد صابن اور ماسک دے کر فوٹو سیشن جاری تھا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا میں جو دانشور کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اور گھروں میں رہنے کا مشورہ دے رہے تھے، وہ خود بازاروں، گلیوں اور پتہ نہیں کہاں کہاں آوارہ گردی کر رہے تھے۔ شہر میں افواہوں اور جھوٹ کا بازار گرم تھا۔

میں دنیاوی غموں سے آزاد اپنے گدان میں اپنے لاڈلے بیٹے مہروان کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھا کہ اسی اثنا میں مہروان اٹھ کر کھڑکی کے قریب گیا اور باہر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ بچے کی ضد کے آگے ہار مانتے ہوئے میں بھی کھڑکی سے جھانک کر باہر کا نظارہ دیکھنے لگا تو میری نگاہیں ایک بلڈنگ پر رک گئیں۔جب بھی کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھتا ہوں کہ کئی خیالات خود بخود میرے ذہن میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ جب میری نظریں بلڈنگ پر پڑتی ہیں تو میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ بلڈنگ آخر کب تک فعال ہو گی۔ یہ بلڈنگ عمانی گرانٹ سے تعمیر ہونے والا چالیس بستروں کا ایک ہسپتال ہے۔ مگر یہاں ڈاکٹر اور طبی سہولت موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ خوبصورت بلڈنگ مریضوں کے لیے ترس رہی ہے۔

پھر خیال آتا ہے کہ حالیہ کرونا وائرس کی وجہ سے اس بدقسمت بلڈنگ کو صاف کر کے آئسولیشن وارڈ کا نام دیا گیا ہے۔ جہاں کرونا کے مشتبہ مریضوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔ یہ وہی بھوت بنگلہ ہے جس کا کئی بار افتتاح ہونے کے باوجود یہ فعال نہ ہو سکا۔ عمانی حکومت نے جس مقصد کے لیے فنڈز دے کر یہ ہسپتال بنوایا تھا، اب تک محض یہ ایک ادھورا خواب ہے اور یہاں اکثر خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔