|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2020

مبصرین، ناقدین اور تجزیہ نگار حالات ِ حاضرہ پہ اپنے تبصروں، تنقیدی اور اصلاحی رائے سے صورتحال کو پرکھنے، سمجھنے اور مزید بہترین لائحہ عمل کی تحریک میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ میڈیا پلیٹ فارم پر محقق و تجزیہ نگار کسی بات کی اصل و نقل بنیاد پر بحث کرتے، تجاویز پیش کرتے، اپنے اپنے مشاہدے، علم اور تجزیے سے بات کرتے ہیں تو جچتا بھی ہے۔ لیکن عوامی سطح پر جب پڑھی لکھی جاہل عوام مبصر، ناقد اور بے جا محقق بن کر سوشل میڈیا کے سہارے دانشوری جھاڑتی ہے تو ملک و عوام کی تباہی کا سامان خود ہی تیار کر لیتی ہے۔

حالات ِ حاضرہ پر غور کروں تو مجھے اس بات کی سمجھ ہی نہیں آتی کہ جو تبصرے ہم دوسرے ممالک پر کررہے ہیں ان کو اپنی ذات یا اپنے ملک و عوام پر کیوں نہیں لاگو کرتے۔ کیا شرافت کے چوغے میں ہم نام نہادی اسلام کے بہت بڑے مبلغ ہیں؟بات تو تب ہو نا جب ہم خود اس وباء میں مبتلا نہ ہوں، خود اس مشکل میں نہ ہوں۔ ہم خود لاچار,بے بس اور کمزور ہیں۔ہمارے یہاں کچھ لوگ آج کر اسلام کے علمبردار بنے اسلام کی حقانیت ماسک اور حجاب کی افادیت کے موازنے سے ثابت کرنے میں جْتے ہوئے ہیں۔غیر مسلم کے وبا ء سے متاثر ہوتے ہی یہ منافقانہ طرز ِ عمل شروع ہو گیا۔

یہ بھولتے ہوئے کہ ہمارے ہی اسلامی جمہوریہ ملک پاکستان کی خواتیں کونسا پردے کو پردہ سمجھ رہی ہیں۔ افسوس ناک امر ہے، جس پہ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہمارے یہاں بھی غیر مسلم ممالک جیسی بے راہ روی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مساجد نمازیوں سے خالی ہیں، گھر قرآن کی تلاوت سے بے بہرہ ہیں۔ہم ملکی معیشت کی بات کریں تو دو نمبری آجکل جائز ہے۔ ہماری تجارت ہو یا صنعت و حرفت حلا حرام کی تمیز سے نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ موازنہ کرنا ہی ہے تو ان کی معاشیات سے کیجیے، انکے عوامی فلاحی قوانین سے کیجیے۔

ہمارے یہاں تو سو میں سے بمشکل دس یا پندرہ فیصد اساتذہ اپنا کام ایمانداری سے انجام دیتے ہوئے اپنے کام کو پیغمبری پیشہ جانتے فخر محسوس کرتے ہیں۔باقی ماندہ افراد تو بس خانہ پری کرتے ہیں۔ ہم خود بددیانتی اور جھوٹ جیسی برائیوں سے بچوں کی تربیت کرتے ہیں اور پھر روشن مستقبل کی تاریکی میں جاتا دیکھ سر پیٹتے ہیں اور نہ آنے والے سابقوں سے سیکھتے ہیں نہ اپنی حالتوں میں سدھار لاتے ہیں۔۔۔آجکل دنیا میں جس طرح کے سنگین حالات پیدا ہورہے ہیں، وہیں ہم ان پر غوروخوض اور تدبر کرنے کی بجائے دوسرے ممالک کی اسلام دشمنی اور اپنے ملک میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔

کہ ” فلاں نے حجاب پر پابندی لگائی تو کیسے اللہ پاک نے انکی پکڑ کی اب سب ماسک لگاؤ اللہ پاک کی پکڑ سے بچنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں ” اور ایسی ہی دوسری کئی باتِیں۔۔۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے ہاتھ میں لیے اس آئینہ میں اپنی اصلیت دیکھتے ہیں یا پھر دیکھنا ہی نہیں چاہتے؟ ہم دیکھتے ہیں، سب دیکھتے ہیں لیکن نظر چراتے ہیں۔ جانتے ہیں! ہم پر توکسی نے پابندی نہیں لگائی تھی کہ ہم حجاب نہ کریں، پردہ نہ کریں، اپنا لباس شریعت کے مطابق نہ پہنیں۔۔۔یہ سب ہمارا اپنا انتخاب ہے۔ کیونکہ ہم خود ایسے ہیں اور اسلام و مذہب کو مفاد کی غرض سے استعمال کرنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔

ہمارے ملک میں بیشتر لیبرل طبقہ حجاب کی پابندی تو دور دوپٹے کو ہی اہم نہیں سمجھتا، لباس کی کاملیت انھیں ہضم ہی نہیں ہوتی،پھرفیشن کے نام پر اور ایڈورٹائزنگ کے نام پر بے حیائی کو جیسے کمرشل کیا جارہا ہے۔ یہ سب دیکھتے، پرکھتے ہمیں اپنی اصلیت کیوں نہیں نظر آتی۔ اسطرح اگر ملک کی معیشت اور ایکسچینج مندی میں جارہی ہے تو یہ بھی ہماری بدترین پالیسیز کا نتیجہ ہے۔ ملک کوقرضوں تلے دبا کر امراء کی امارت وسیع ہو رہی ہے، غریب کو غربت کی چکی میں پیس پیس کر اس کے حقو ق کو غصب کیا جارہا ہے۔ نہ ملازمتی کوٹہ معیار کی دسترس میں ہے نہ تقرریاں۔

انسانیت کی بات کی جائے تو یہ جن لوگوں پر ہم اسلام مخالف قوتوں کے فتوے لگا لگا کر خود کو پکا مسلمان بلکہ بندہ مومن ثابت کرنے میں کوشاں ہیں تو آنکھیں کھولیے! ہم سے زیادہ انسانیت ان لوگوں میں نظر آتی ہے، انکی عوام حا لات کی کشیدگی دیکھ کر ذخیرہ اندوزی نہیں کرتی, قیمتوں کو چار گناہ بڑھا کر اشیائے ضروریہ فروخت نہیں کرتی بلکہ” عوامی ریلیف” دیتی ہے۔اب چاہے یہ کاوش ملکی سطح پر ہو یا عوامی سطح پر۔ مزید آئینہ میں اپنی اصلیت کو بغور دیکھا اور اسکا مطالعہ کیا جائے تو اپنا احتساب کیجیے کہ اگر انکے ہاں حرام و حلال کا تصور نہیں تو ہمارے ہاں تو ہے نا، لیکن ہم پھر بھی ناجائز طریقے سے کماتے ہیں۔

کھاتے ہیں اور ایسے حرام کو حلال کہتے ہیں۔ پھر کون بہتر ہوا وہ جنہیں علم ہی نہیں یا وہ جنکے لیے فلاح و ہدایت کے تمام تر راستے روشن اور کشادہ کیے گئے ہیں۔اگر ہم اپنا آئینہ دیکھیں تو ہم سے وہ ممالک اور قومیں بہتر ہیں جو مذہب اور شریعت سے واقف نہیں،ہم پر یہاں کوئی کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کہ آپ اسلام کے بتائے گئے بہترین اور منظم ضابطہ حیات کے مطابق زندگی بسر نہ کریں۔

ہمیں چاہیے کہ اس وقت ہم دوسروں کے اندر جھاکنے کی بجائے تھوڑا سا خود میں بھی جھانک لیں جو کہ انتہائی ضروری ہے۔۔۔۔ہمیں خود کی حقیقت دیکھنا ہو گی کہ ہم اندھی تقلید میں پڑے ہوئے ہیں۔ شخصی و ذہنی غلامی میں باجود آزاد قوم ہونے کے، اپنا آپ اور ملک تباہ کر رہے ہیں۔ دوسروں کے سامنے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اسلئے اب ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے قبلے سیدھے کرنے کی بجائے اپنا قبلہ درست کریں اور دوسروں کو آئینہ دکھانے سے پہلے وہی آئینہ خود دیکھیں۔۔۔۔ اللہ پاک ہمارا حامی و ناصرہو آمین۔