|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2020

ٹیلی کام انڈسٹری، سماجی حقوق کی تنظیموں سمیت طالبہ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ تک معیاری اور سستی رسائی کو یقینی بنائے۔

گزشتہ ہفتوں سے قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے طلبہ نے کورونا وائرس کی وبا کے باعث انٹرنیٹ کی رسائی کی بہتر فراہمی سے متعلق خدشات کا اظہار کیا۔

انہوں نے ٹوئٹر پر #Enable3G4GInExFATA اور #SuspendOnlineClasses کے ذریعے تدریس کے حصول میں پریشانیوں کا تذکرہ کیا۔

علاوہ ازیں سیکڑوں طلبہ نے پرائم منسٹر پورٹل پر آن لائن تدریسی نظام کے معیار اور ناقص انٹرنیٹ کی فراہمی سے متعلق شکایات جمع کرائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق طالبعلم فہد احمد نے ڈان کو بتایا کہ لاہور میں یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) کے تقریباً 50 سے زائد طلبہ چترال سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سبھی کو انٹرنیٹ تک رسائی سے متعلق مسائل کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے بیشتر افراد نے ایک بھی آن لائن کلاس میں شرکت نہیں کی کیونکہ اس علاقے میں موبائل سگنل نہیں آتے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمیں کلاس میں شرکت کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 2 سے 3 گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے، طلبہ مطلوبہ جگہ پہنچنے کے لیے پٹرول کی مد میں 500 روپے یا اس سے بھی زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں، اگر ہم اس رقم کا اندازہ لگائیں تو یہ یونیورسٹی فیس کے برابر ہے۔

طلبہ کی جانب سے متعدد ویڈیو کلپس شیئر کی گئیں جس میں طلبہ بہتر انٹرنیٹ سگنلز کے لیے روڈ کے کنارے یا کھلی جگہ پر بیٹھ کر آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے طالبعلم شیراز نے بتایا کہ یونیورسٹی میں فری وائی فائی اور کمپیوٹرز کی دستیابی کی وجہ سے میرے لیے تمام اسائمنٹ مکمل کرنا مشکل نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میں یومیہ کے حساب سے 6 روپے کا انٹرنیٹ پیکج کرواتا ہوں، جس میں سوشل میڈیا کے لیے 500ایم بی اور 50 ایم بی براؤسنگ کے ملتے ہیں جو کہ آن لائن کلاسز کے لیے ناکافی ہیں۔

دوسری جانب ایچ ای سی کے مطابق ناقص انٹرنیٹ سے متعلق 30 فیصد شکایات موصول ہوئیں ہیں جس کے باعث آن لائن کلاسز متاثر ہورہی ہیں۔

ایچ ای سی کے مطابق قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے طلبہ نے بڑی تعداد میں شکایات جمع کرائیں۔

اس ضمن میں وزیر تعلیم شفقت محمود نے ٹوئٹ میں کہا کہ اسکول کے بچوں کے لیے اپریل کے آغاز میں ٹی وی چینل شروع کیا جائے گا.