روشنی اور تاریکی دو مختلف حالتوں ہی کا نہیں بلکہ دو مختلف کیفیات کا نام بھی ہے۔ روشنی کا سفر کسی بھی جان دار کی زندگی میں تب شروع ہوتا ہے، جب ایک نومولود ماں کے پیٹ سے اندھیرے کا ایک طویل سفر طے کر نے کے بعددنیا میں داخل ہوتا ہے، اور پھر یہی سفر روشنی سے تاریکی کی جانب سفر کرتے تکیمل پاتا ہے۔ وہ اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ جیسے اْجالا زندگی اور اندھیرا موت کی علامت ہو، بالکل اسی طرح اچھائی، نیکی یا خیر بھی اْجالے کے مانند ہے۔ جب کہ برائی یا شر کو اندھیرے سے تشبیہ دینا غلط نہ ہو گا۔ ایسے ہی اْمید اْجالا اور نا اْمیدی گہرا اندھیرا۔ جنت روشنی ہے اور جہنم تاریک گڑھا۔
اندھیرا اور اْجالا انسان کی اپنی ذات میں موجود ہوتا ہے۔ اگر وہ اندر سے روشن ہے، تو اپنے باہر کو بھی روشن کر دے گا۔ جب کہ اس کی ذات میں موجود تاریکی اسے آنکھیں رکھتے ہوئے نا بینا کر دیتی ہے۔ انسان کی ذات کے اندر کا اْجالا، نا بینا ہوتے ہوئے بھی اسے کائنات کے ہر اْجالے کو محسوس کی صلاحیت بخشتا ہے۔ لہٰذا یہ حالت سے زیادہ کیفیت ہے، جو محسوس کرنے والے ہی کو حاصل ہوتی ہے۔
اسے موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے دیکھا جائے، تو کرونا جو ایک وبائی مرض ہے، اندھیرا اْجالا سی کیفیت رکھتا ہے۔ کچھ لوگ اسے عذاب تصور کرتے ہیں، کہ خدا کی ناراضی کے باعث یہ صورت احوال ہے، تو کچھ کا کہنا ہے کہ کرونا نے سب انسانوں کو سدھار دیا ہے۔ جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے۔ دوسری جانب کچھ لوگوں نے اسے مذاق بنا رکھا ہے۔
کرونا کے بارے میں حکومت اور ہیلتھ ڈیپارٹ منٹ نے جو احتیاطی تدابیر بتائی ہیں، انھیں بالکل بھی سنجیدہ نہیں لے رہے۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں، جنھوں نے کرونا کو اعصاب پہ سوار کر لیا ہے۔ دوسروں میں بھی صرف موت کی سنسنی پھیلائے جا رہے ہیں۔ کرونا محض وبائی مرض ہے، مگر اس کا خوف، موت کا خوف ہے۔ اس سے بے احتیاطی موت ہے۔ اپنی سوچ اور اپنے ارد گرد کے اس اْجالے کو دیکھیں، اور محسوس کریں کہ زندگی میں جہاں اندھیرا ہے، وہاں روشنی بھی تو ہے۔
اپنا اور اپنے پیاروں کا از حد خیال رکھیں۔ اس اْمید سے اس مہلک وباء کا مقابلہ کریں کہ ہر تاریک رات کے بعد ایک روشن صبح ہوتی ہے۔ کرونا جیسی آزمائش سے ہمیں کچھ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ جہاں مظلوم پر ہوئے ظلم پہ سب خاموش رہتے ہیں، جہاں معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرم آزاد پھرتے ہیں، جہاں مذہب اور قوم پرستی کے نام پر نفرتیں بانٹی جاتی ہیں، جہاں کشمیر، فلسطین، اور غزہ جیسے ممالک میں ہونے والے مظالم کو ان کا انفرادی مسئلہ سمجھا جاتا ہے، اور سب اپنے حال میں مست رہے، آج ساری دنیا کے انسانوں کو کرونا نے ایک برابر کر کے یہ بتا دیا ہے، کہ انسانیت قوم پرستی کا نام نہیں، بلکہ دوسرے کی تکلیف محسوس کرنے کا نام ہے۔
اس مشکل کی گھڑی میں سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے، کہ نفرتیں، اختلافات اور مظالم پہ خاموشی اختیار کر لینا، کرونا سے بھی مہلک مرض ہے۔ اس کی ویکسین صرف احساس ہے،رشتہ نہیں احساس ضروری ہے۔ اور یہ احساس شاید ہمیں اس مشکل کی گھڑی میں ہو جائے۔