|

وقتِ اشاعت :   April 2 – 2020

وزیراعظم نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ ٹائیگر فورس تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ سن کر تعجب ہوا ماضی کی سیاسی جماعتوں نے اسی طرح کے کئی تجربات کیے،جب بھی پاکستان پر مشکل پڑی تو اندرون یا بیرون ملک سے مالی امداد آنا شروع ہوئی خواہ وہ کسی ترقیاتی و فلاحی اسکیموں کے نام سے ہو، سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی ورکروں کو آگے لانے کے لئے پوری چالیں چلنا شروع کردیتی ہیں۔ بڑے موثر جاگیردار، سرمایہ دار طاقتور لوگوں کو سیاستدان حقیقی کارکنوں کو نظر انداز کرکے پارلیمنٹ میں لے جاتے ہیں اور وہ غریب نوجوان طبقہ جس سے یہ جھوٹے وعدے کر کے ووٹ لیتے ہیں وہ حکمران طبقے کو بارہا آزما کر مایوس ہو چکا ہوتا ہے، اس کو اس طرح کے لولی پاپ اسکیموں میں ملوث کرتے ہیں تاکہ وہ غیر منظم، غیر تربیت یافتہ، غیر ریاستی پروگرام میں شامل ہو کر یا تو کرپشن کا شکار ہو ں یا وہ یہ تصور کر لیں کہ ہمارا لیڈر تو ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن بیوروکریسی یا اور ادارے کام نہیں کرنے دیتے۔

ہر حکمران جماعت کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کے نام پر وزارت یوتھ افیئرز اور نوجوانوں کے لیے قرضہ سکیموں جیسی لاتعداد جسارتیں کیں لیکن خود بھی بری طرح ناکام ہوئے،عزت بھی گنوائی اور پیسہ بھی برباد کیا اور دوسری سیاسی جماعتیں برسراقتدار آئیں تو یہی نوجوان کرپشن کے نام پر مقدمات میں دھر لئے گئے جبکہ محکموں میں آڈٹ ہوتے رہے۔ہمارا قومی ا المیہ یہ ہے کہ ہم ریاستی اداروں کو فعال کرنے کے بجائے ذاتی اداروں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

حکمرانوں نے مل کر اجتماعی سوچ کا ستیاناس کر دیا ہے، پاکستان میں قومی رضاکارانہ خدمات سرانجام دینے والے رضاکار تنظیموں پر مشتمل محکمہ سوشل ویلفیئر کے تحت کام کرنے والی سماجی تنظیمیں نوجوانوں پرمشتمل بوائز سکاوٹس ایسوسی ایشن، پاکستان پرعزم خواتین پر مشتمل گرلز گائیڈ اور سب سے نمایاں شہری دفاع کی رضاکار تنظیمیں جن کی بنیاد قیام پاکستان سے رکھ دی گی تھی اور بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح، محترمہ مادر ملت اور دیگر اکابرین ان کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کر اور اس کے بعد کچھ عرصہ یہ تنظیمیں فعال رہیں۔ نوجوانوں میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ نمایاں رہا، ان سماجی فلاحی تنظیموں کی وساطت سے ہزاروں نوجوانوں نے پاکستان کیلئے خدمات سرانجام دیں،سیلاب ہو یا بیماری، بھارت کی طرف سے جنگی جارحیت کی صورت میں پاکستان کے اندر ملکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر طبی انتظامی اور فلاحی خدمات سرانجام دے کر قوم کا نام روشن کیا۔ان رضاکار اداروں سے ہزاروں نوجوانوں نے بے بہا تجربات حاصل کیے اور دوسروں کو ان سے بہرہ مند کیا۔ افسوس ان کی سماجی خدمات کو ناصرف نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کو غیر موثر کرنے میں دیدہ دانستہ منفی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔

ان کو ختم کرنے کا مقصد تھا کہ عوام خود انحصاری اوراپنی مدد آپ کے عظیم قومی جذبوں سے سے خالی ہو جائیں کیونکہ یورپ اور عالمی استحصالی طاقتوں کے دست نگر بننے میں یہ طبقات اور ادارے بڑی دیوار تھے، ان کو فرسودہ اور قدیم طرز کی خدمات ادا کرنے والے کہہ کر پس پشت ڈال دیا گیا حالانکہ ان رضاکار تنظیموں کا باقاعدہ مالی حساب کتاب ردوبدل بذریعہ انتخابات اور کارکردگی کا جائزہ ہر سال لیا جاتا تھا۔

تحریک پاکستان کے نامور کارکن قائداعظم کے دیرینہ ساتھی جناب محمود علی صاحب،مرحوم بیگم رعنا لیاقت علی خان،بیگم تصدق حسین،بیگم شاہ نواز سمیت بہت بڑے بڑے نام ان رضاکار تنظیموں کی سرپرستی کرنے والوں شامل ہیں افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو بہانے بنا کر ان رضاکار تنظیموں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہی کام اب سیاسی جماعتیں اور ان کے یوتھ ونگ سرکاری چھتری کے نیچے سر انجام دیتے ہیں۔

زلزلہ،سیلاب اور حالیہ کرونا وائرس کے دنوں کی مشکلات میں سماجی فلاحی سرگرمیوں اور خدمات کے لیے غیر منظم جم غفیر اکٹھا کرنے پر حکومتی توجہ مرکوز کردی گئی ہے نتیجہ پھر وہی ہوگا جو ماضی میں سرکاری لیکن غیر ریاستی و غیر ادارہ جاتی فیصلے کرنے سے ہوا۔وزیراعظم عمران خان نوجوانوں کی وجہ سے اقتدار میں آئے دوسری بڑی وجہ نون لیگ جس کا انتخابی نشان ٹائیگر اس کی مخالفت تھی لیکن کرو نا وائرس نے عمران خان کو اس قدر خوفزدہ کردیا ہے کے کرونا کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے عمران خان کو نواز شریف کے انتخابی نشان ٹائیگر کا سہارا لینا پڑگیا ہے۔

نوجوان پی ٹی آئی کا، نشان نون لیگ کا، کیسی ٹائیگر فورس بنے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔یہ ایک الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی نوجوانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے لیکن جو ٹائیگر فورس عمران خان بنانے جا رہے ہیں اس میں اکثریت غیر منظم غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کی ہے ان کو ہنگامی بنیادوں پر کہیں بھی کھپایا تو جا سکتا ہے لیکن ان سے خاطر خواہ اور مستقل نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

ماضی میں محمد علی درانی وفاقی وزیر رہ چکے ہیں انہوں نے بھی یوتھ کے بڑے بلند دعوے کیے، پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی حکومت میں بھی نوجوانوں کو بڑی سکیمیں سبز کارڈ، تھانے کچہری میں ان کی رسائی،جنرل مشرف سمیت دیگر ڈکٹیٹروں نے بھی اپنے لورز کے نام سے یوتھ فورسز کو نوازا مگر کبھی کوشش نہیں کی کہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں ان کی قومی یا وطنی نظریات کے تحت انکی تربیت اور ان کے اندر قومی ایماندارانہ رضاکارانہ خدمات کے جذبے کو پروان چڑھائیں۔

وزارت سماجی بہبود اس وقت ڈاکخانہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے حالانکہ اس کا پاکستان میں بہت بڑا نیٹ ورک ہے، اس سے منسلک ہزاروں تنظیمیں گلی محلے تک اپنی رسائی رکھتی ہیں، ان رضاکار تنظیموں کو منظم کیا جاتا تو آج یہ تنو مند درخت کی شکل میں ریاست و حکومت کے دست بازو ہوتے۔ آج سینکڑوں نہیں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان اور بڑی عمر کے لوگ سماجی خدمت کے لیے ہمیں میسر ہوتے، ان لاکھوں کی تعداد میں رضاکاروں کو حکومت کے کام کے طریقہ کار عوامی مزاج سے آشنائی اور بہترین صلاحیتوں عوامی اعتماد کا تجربہ حاصل ہوتا۔

لوگ کہتے ہیں کہ صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے، وزیراعظم پاکستان کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ان اداروں کو منظم اور فعال کرنے کے متعلقہ وزیروں اور محکموں کو احکامات جاری کریں تاکہ لاک ڈاؤن میں خدمات اور کرو نا جیسے مہلک مرض کے خلاف جنگ میں سب کو شامل کیا جاسکے۔ابھی موقع ہے وزیراعظم اپنی انصاف یوتھ فورس کو کرپشن بد اعتمادی اور اپنے وزیروں کی کھینچا تانی سے محفوظ رکھنے کا بہترین موقع ضائع نہ کریں۔