|

وقتِ اشاعت :   April 4 – 2020

21فروری جمعہ شام 7بجے عظیم مارکسی مفکر اور سوشلسٹ انقلابی کامریڈ لال خان ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے۔ وہ اپنی ذات میں ایک عہد کا نام تھا۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی بائیں بازو کی سیاست کا آغاز کیا۔ جنرل ضیاء کی وحشی آمریت کے دوران قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن اپنے عزم میں متزلزل نہیں ہوئے۔ اس دوران انہیں یورپ میں جلاوطنی اختیار کرنی پڑی جہاں ان کی ملاقات کامریڈ ٹیڈ گرانٹ سے ہوئی اوریوں حقیقی مارکسی نظریات سے آشنائی ہوئی۔ وہ کامریڈ ٹیڈگرانٹ کو اپنا استاد سمجھتے تھے جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔

ٹیڈ اور لال خان کے درمیان پاکستان میں انقلابی تنظیم کا قیام عمل میں لانے کے لیے یہ فیصلہ ہوا کہ کامریڈ لال خان پاکستان جائیں گے اور ایک حقیقی مارکسسٹ لینن اسٹ تنظیم کی بنیاد رکھیں گے۔ جب انہوں نے پاکستان آکر انقلابی کام کا آغاز کیا تو شروع شروع میں صرف چند ہی ساتھی تھے جو برانچ میٹنگ کرتے تھے لیکن انقلابی لگن اور انتھک محنت سے آج ایک مضبوط مارکسی تنظیم پاکستان کے ہر کونے میں موجود ہے۔ کامریڈ لال خان معاشی طور پر ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے انقلابی کام کے لیے اپنے ہی طبقے سے بغاوت کی اور محنت کش طبقے کی جدوجہد میں شامل ہوا اور اپنی زندگی انقلاب کے لیے وقف کردی اور آخری سانس تک اس پر قائم رہے۔ کامریڈ لال خان ایک شفیق انسان تھے۔

وہ جب بھی کسی ریجن میں میٹنگ یا اوپن پروگرام کے لیے جاتے تو وہاں کامریڈوں کے ساتھ رات گئے تک مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ ہوتا۔ قومی سوال کے حوالے سے ان کا واضح موقف تھا اوروہ برملا قومی جبر کے خلاف بات کرتے تھے۔ وہ جب بھی بلوچستان دورے پر آتے تھے تو ان سے اس موضوع پرسوال کیے جاتے تو وہ ایک لینن اسٹ موقف کے ساتھ سوالات کا جواب دیتے تھے کہ ہم مارکسی نہ صرف قوموں کی حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے لیے بھی جدوجہد کرتے رہیں گے۔

کامریڈ لال خان تنظیم کے اندر ہونے والے مسائل اور بحرانوں سے کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ انقلابی انداز میں ان کا مقابلہ کیا۔ وہ جنوب ایشیائی خطے میں ایک روشن ستارے کی مانند تھے جو بلاشبہ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی مانند ایک عظیم انقلابی شخصیت تھے جو ہر لمحہ اس خطے کے تمام ممالک میں مارکسی نظریات کی ترویج اور ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔ کامریڈ لال خان جب کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے تو ان کو معلوم تھا کہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے، ان کی صحت کو لے کر دیگر ساتھی بہت پریشان رہتے تھے لیکن وہ خود کبھی پریشان نہیں ہوئے۔

وہ کہتے تھے کہ میں نے زندگی میں اس سے بڑے بحرانوں کا مقابلہ کیا ہے، میں اس مرض کا بھی مقابلہ کروں گا۔ ان کی موت کی خبر ہم سب کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ 22فروری کو جب ہم سب ساتھی ان کی تدفین کے لیے ان کے گاؤں بھون چکوال پہنچے تو تمام کامریڈز ایک دوسرے سے گلے مل کر زار و قطار رو رہے تھے۔ وہاں پر انقلابی سفر سے بچھڑنے والے پرانے ساتھی بھی ملے جو شرمندگی کا اظہار کر رہے تھے۔کامریڈ لال خان اکثر کہا کرتے تھے کہ زندگی کا ایک عظیم مقصد ہونا چاہیے۔

اگرچہ ہماری زندگی میں انقلابی تبدیلی نہیں بھی آتی تب بھی ہماری جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے انقلاب کی راہ ہموار کرے گی، جیسا کہ ماضی کے انقلابیوں نے ہمارے لیے میراث چھوڑا ہے جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ کامریڈ لال خان بے شک جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے ہیں لیکن ان کے نظریات ہمیشہ ہمارے لیے مشعل راہ رہیں گے اور ہم عہد کرتے ہیں کہ کامریڈ لال خان کے ادھورے مشن کو پورا کرتے ہوئے اس خطے میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے انسانیت کو اس ظالمانہ نظام سے نجات دلائیں گے۔