کرہ ارض پر قدرتی آفات کی تاریخ نوع انسانی سے لاکھوں سال پرانی ہے۔جس طرح کی آفات کا انسان چشم دید گواہ ہے۔ اس سے کئی گنا بڑی آفات کے ثبوت سائنس نے پیش کئے ہیں۔ مثلا لاکھوں سال پہلے آسمان سے سیارچوں کے گرنے کے نتیجے میں ڈائناسور سمیت کئی ذی قوت وقامت انواع بڑے پیمانے پے معدوم ہوئے تھے۔اور اگر زمین پر موجود ان کھنڈر مکانوں پر نظر ڈالی جائے جن کے مکینوں کا پتہ ان کے باقیات سے ملتی ہے۔ ان پر غور و فکر سے ان کے فنا کی تفصیلات مل جاتی ہیں۔ کہ کیسے زلزلوں،طوفانی بارشوں، قحط اور بیماری سے ان کا جزوی یا مکمل صفایا ہوگیا تھا۔
بہرحال قدرتی آفات کو لے کر انسانوں میں ہمیشہ سے یہ بحث رہی ہے کہ یہ عذاب الہی ہیں یا فقط طبعی قوانین کے پابند رونما ہونے والی واقعات ہیں۔ جن کا انسانی قول و فعل سے کوئی تعلق نہیں۔اب کرونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری covid 19 کو لے لیجیئے۔سوشل میڈیا پہ ایک لاحاصل بحث جاری ہے کہ یہ عذاب الہی ہے یا قدرتی آفت جو بیماری کی شکل میں انسان پر حملہ آور ہوئی ہے یہ بحث بے سود رہے گا جب تک انسانی وجود کے دو حصوں کو تسلیم نہ کیا جائے، وجود حیوانی،جس پر طبعی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے اور وجود روحانی جس کا تعلق غیر طبعی دنیا سے ہے۔
اور ساتھ میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح انسانی وجود کے دو حصے ہیں اسی طرح انسان کے حصول علم کے دو ذریعے ہیں۔ عقل اور وجدان۔عقل سے حاصل شدہ علم،انسان اپنی حواس خمسہ سے مشاہدات و تجربات کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔ اور ان کی آنے والی نسلیں اس کو مزید گہرائی سے مشاہدہ اور تجربہ کر کے اور غلطیوں کی چھان بین سے اسے مزید پختہ بنا کر آگے منتقل کرتی ہیں۔
یہ علم خالصتا انسان کی میراث ہے جسے وہ بڑی محنت سے صدیاں لگا کر حاصل کرتا ہے۔ وجدان سے حاصل شدہ علم انسان خواب، کشف(چھٹی حس) اور وحی کے ذریعے حاصل کرتا ہے. دونوں ذرائع علوم میں میں غلطی کی گنجائش ہے. ہاں البتہ وحی کو استثنی حاصل ہے لیکن اس کی تفسیر میں میں غلطی کی گنجائش ضرور ہے۔ان علوم میں کسی ایک کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں میں زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ سائنس اور بالخصوص طب کا طالب علم ہوتے ہوئے میرے لیے یہ بالکل ناقابل فہم نہیں ہے کہ کووڈ انیس میں مبتلا کرنے والا کرونا وائرس،کورونا فیملی سے ایک ارتقاء ہونے والی نئی اسپیشز ہے۔
جو میو ٹیشن یعنی امائینو ایسڈز کی ترتیب میں تبدیلی کے نتیجے میں وجود میں آئی اور میوٹیشن ارتقاء کے عمل میں ایک اہم طریقہ کار ہے۔ میو ٹیشن قدرتی طور پر آئی ہو یا لیب میں پیدا کی گئی ہو دونوں صورتوں میں عمل ارتقاء مشترک ہے کیونکہ شک کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اقتصادی جنگ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیے بطور بائیو ہتھیار یہ کسی کی شرارت ہو سکتی ہے۔ ہم اس بحث میں میں پڑیں گے ہی نہیں، کیونکہ اس کا تعلق عمرانیات سے ہے فی الحال ہم سائنسی اور مذہبی توجیہ پر پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔
ارتقاء کا بنیادی نکتہ
survival of the fittest
جس کی تشریح عام اردو زبان میں یوں کی جاسکتی ہے کہ ماحولیاتی ضروریات کے مطابق سب سے زیادہ تغیر پسند ہی باقی رہتا ہے یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ارتقاء اس بات کے تابع ہرگز نہیں ہے کہ ایک اسپیشیز میں تبدیلی کے اثرات باقیوں پر مثبت ہی ہوں۔بلکہ ایک میں تبدیلی کسی دوسرے کو معدوم بھی کر سکتی ہے
۔علامہ اقبال آل نے ارتقاء کو موضوع بنا کر کر خوب فرمایا۔
گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے ہے
اور اس شاخ سے پھوٹتے بھی رہے
سمجھتے ہیں نادان اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات
کورونا وائرس کے کئی اقسام ہیں جس میں میں پہلے 6اور اب سات جو انسانوں میں بیماری پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں انسان اور کرونا کے بیچ جنگ صدیوں پرانا ہے۔ موجودہ جنگ میں انسان کے پاس ہتھیار صدیوں سے مشاہدات اور تجربات کے ذریعے حاصل وہ علم ہے جسے حکمت کے ساتھ استعمال کر کے وہ اس وباء پر قابو پا سکتا ہے اور کرونا کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے وہ ہے اس میں میوٹیشن جو اسے انسانی ادویات سے محفوظ بناتی ہے۔
کورونا کے خلاف اس جنگ میں میں انسان اپنی قوت مدافیعت کے ساتھ ساتھ ایک ذہین مخلوق ہونے کے ناطے اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر پر اجتماعی طور پر یہ جنگ جیت سکتا ہے احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس وائرس بے اثر بنا سکتا ہے اور نئے ادویات بناکر اس اس کا قلع قمع کر سکتا ہے۔.
الہامی علوم انسانوں کو نفسیاتی میدان میں قوت عطا کریں گے۔ایک مومن دنیا کو جائے آزمائش اور کرونا کوآزمائش جان کر صبر و استقامت اور بغیر حواس باختہ ہوئے توکل کے ساتھ اس وبا کا سامنا کرے گا جہاں تک کورونا کا عذاب الہی ہونے کا تعلق ہے تو جہاں ایک ذریکی حرکت سے سے پوری کائنات اثر انداز ہو سکتی ہے۔ تو انسان ان جو کہ تخلیقِ کا مرکز ہے الہامی علوم کے مطابق تو ان کے اعمال سے آفات کا تعلق کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ اور ساتھ میں سمجھ لینا چاہیے کہ قدرتی آفات کے نتیجے میں میں بڑی بڑی سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں آتی ہیں تہذیبوں کے چلن میں تبدیلی آتی ہے سماج میں ظلم وجبر کے سلسلے ٹوٹ جاتے۔ہاں یہ عذاب الٰہی ہیں اگر عذاب الٰہی کا مطلب وجدان کی روشنی میں لیا جائے۔
کرونا نے انسانوں کو یہ سبق سکھا دیا کہ سپر پاور ہونے کے معیار وہ نہیں جو انسان نے طے کئے ہیں اور انسان بھلے چینی،ایرانی،امریکی اور عرب و ہندی ہو لیکن آفات کے لئے وہ ایک ہے۔۔۔
ایسے میں سوال کیا جاتا ہے کہ ظلم تو کچھ لوگ کرتے ہیں سزا سارے معاشرے کو کیوں ملتی ہے۔آفات افراد پرنہیں پورے سماج پہ آتی ہیں
تو کورو نا کے خلاف اس جنگ میں توکل کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے کے لڑیے یے اور ایسے من نیم حکیموں اور نیم ملاوں سے بچئیے۔
”’کیوں کہ نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان“‘