کامیابی اورناکامی کادارومدار تقدیر،نصیب،مقدراورقسمت ہی نہیں بلکہ محنت ہے۔ محنت ہی انسان کی زندگی کورنگ برنگے نعمتوں سے سنوازتاہے۔ یہی محنت ہر کامیابی کاسہراہے۔ قسمت قسمت کی راگ آلااپنے ہاتھ کی لکیروں، ستاروں کی چال اورطوطے کی فال پراپنی مستقبل سپردکرنیوالے سرپھرا اورخبطی کے علاوہ کون ہوسکتاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پانچ چیزوں کوپانچ سے قبل غنیمت سمجھو،جوانی کوبڑھاپے سے پہلے،اورصحت کوبیماری سے پہلے،اورمالداری کوفقرسے پہلے، اورفراغت کومشغولیت سے پہلے اور زندگی کو مر نے سے پہلے۔
اس حدیثِ پاک میں ہر صاحب ِ ایمان کے لیے یہ تعلیم ہے کہ آدمی کی فہم وفراست کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس فانی زندگی کے اوقات و اَدوار اورمواقع وفرصتوں کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ کارآمدبناناچاہیے، زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات کا استحضار رکھے کہ کل روزِ قیامت میں اس کی زندگی کے ہرہر لمحے کا حساب ہو گا، قیامت کے دن اس کے اعمال نامے کو تمام اوّلین و آخرین کے سامنے پیش کیا جائے گا، یہ وقت بڑی قیمتی دولت ہے، اس سے جو فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ کر لیا جائے، آج صحت و تندرستی ہے۔
کروناوائیرس کی تعطیلات کی وجہ سے فراغت کاموقع بھی ہاتھ آگیاہے،کل نہ معلوم کس بیماری کا شکار ہو جائے، پتہ نہیں کروناسے ہم نکل بھی سکے کہ نہیں! آج زندگی ہے، کل منوں مٹی کے نیچے مد فون ہو نا ہے، آج فر صت ہے کل نہ معلوم کتنی مشغولیتیں در پیش ہو جائیں کئے اس لیے اس فرصت صحت جوانی اورزندگی کوکام میں لائیں۔
دوسری حدیث مبارکہ ہے
ترجمہ: صحت اور فراغت دو ایسی عظیم نعمتیں ہیں، جن کے سلسلہ میں بے شمار لوگ خسارہ میں رہتے ہیں۔ اس لیے بعد میں پچھتانے سے یہ بہتر ہے کہ انسان آج ہی قدرکر لیں ان دونعمتوں کی۔
یہی موقع فرصت کابھی ہے اورصحت کابھی! آج آپ کو کچھ کرنیکاموقع فراہم کیاگیاہے، کل معلوم نہیں کہاں اورکس مصروفیت میں پھنس جاو۔ اس کیساتھ ساتھ محنت اصل سرمایہ ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کامیابی قسمت سے نہیں بلکہ محنت سے ملتی ہے۔ کامیابی انفرادی ہویا اجتماعی،دنیوی ہو یاآخروی اس کاتعلق صرف اور صرف محنت سے ہے۔
چاند پرانسان کاقدم رکھناہو یاپھرانسانی جسم میں پیوندکاری میں کامیابی، لاکھوں من لوہاہوا میں اڑھاناہویاپھر پوری دنیاتک اپنی آواز منٹوں میں پہنچاناوجہ قسمت نہیں محنت ہے۔
پیاس بجھانے کیلئے پاوں سے چل کرکنوے کے پاسجانے کے بجائے قسمت یامقدرسے کنواں کھینچ کراپنی پیاس بجھانے کی خواہش رکھنے والاکوئی ذی شعورنہیں ہوسکتا ظالم کے آگے سراٹھانے کے بجائے ظلم کانشانہ بنے ہاتھ پرہاتھ د ھرے منتظرفرداں رہنے والے آج کامیابی کے نام تک سے واقف نہیں۔
شعر:
سراٹھے توسہی ظالم کے سامنے۔
کبھی ظالم کاوقت حساب آئیگا۔
اور تب ہی غریبوں کے درپارنے
ہاتھ جوڑے ہوئے نواب آئیگا۔
طوفانی موجوں سے مقابلہ کرکے کشتی کوساحل پراتارنے والے ملاح کو قسمت اورمقدر کادرس دیکرکشتی کوقسمت کی لہروں پرچھوڑدیناخردمندی نہیں۔ منزل کی طرف گامزن متحرک قافلے اپناسفر قسمت کے قدموں میں ڈال کر جمود کی چادراوڑھناہوشمندی سے تصور نہیں کی جاتی۔ اگر ہمہ وقت قسمت اورنصیب کادرس دینے لگو توطلبہ وطالبات ہاتھ کی لکیروں میں گم ہوکرکتابیں پڑھناچھوڑ دینگے۔
محنت کش مزدور اورمسلسل جدوجہدکرنے والیمفکرین محنت کے فلسفے کوچھوڑکرفٹ پاتھ پربیٹھے اپنے آج سنوارنیکی لیے آپ کے کل بربادکرنیوالے عامل بابانجومی اوربنگالی جادوگروں سے ناطہ جوڑیں گے۔
محنت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو دنیا میں بھی باعزت بناتی ہے اور اللہ رب العزت کے ہاں بھی اس بندے کو محبوب بناتی ہے۔ ”حضرت داؤد علیہ السلام اپنے دور حکومت میں سادہ لباس پہن کر مختلف جگہ جاتے اور لوگوں سے معلوم کرتے کہ اس ملک کا بادشاہ کیسا ہے؟ ایک روز کسی نوجوان سے ملاقات ہوئی، اس سے وہی سوال کیا۔ اس نے جواب دیا: بادشاہ بہت عمدہ ہے لیکن اس میں ایک کمزوری ہے کہ وہ بیت المال سے وظیفہ لیتا ہے (اگرچہ وہ جائز ہے) جب کہ اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ زیادہ پسند ہے، جو اپنے ہاتھ کی محنت و کمائی سے کھائے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو فوراً احساس ہوا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے کوئی ایسا کام سکھا دیجیے، جس کے ذریعے میں روزی حاصل کر سکوں اور مسلمانوں کے بیت المال سے بے نیاز ہو جاؤں۔
اللہ تعالیٰ نے ذرہ سازی کی صنعت عطا فرمائی اور معجزانہ طور پر لوہے کو ان کے ہاتھ میں موم کی طرح بنا دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام خالی اوقات میں زرہ بنا کر بازار میں فروخت کرتے اور اس طرح اپنی اور اہل و عیال کی روزی حاصل کرتے تھے۔قسمت قسمت کی رٹ لگانے والے مقدرکے کچے گڑھے پربیٹھ کردریاپار اپنی بہی خواہ سے ملنے کی طلب رکھنے والا یاپھر کامیابی کاسہرا محنت کی سر سے اتار کرزبردستی قسمت کی سر پر رکھنے والیکو جاہل نکما یابے عقل وبے وقوف نہ کہنامحنتی لوگوں کی حق تلفی ہوگی۔
بے عمل دل ہوتوجزبات سیکیاہوتاہے۔
زمین بنجرہوتوبرسات سے کیاہوتاہے۔
یہ ہے عمل لازمی تکمیل تمناکیلئے۔
ورنہ رنگین خیالات سے کیاہوتاہے۔