|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2020

قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ ملک میں جہاں بہت سی مشکلات اور مالی پریشانیوں کا سامنا تھا اس وقت ملک کے چند بڑے شہروں میں چھوٹے چھوٹے پاور ہاؤسز اور چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کے ذریعے چھوٹی صنعتوں، تجارتی مراکزاور چند بڑے گھروں تک بجلی کی فراہمی محدود تھی۔اسی زمانے میں کوئٹہ میں کیسکو کے نام سے کمپنی موجود تھی جو کوئٹہ کینٹ چند شہری علاقوں کو بجلی فراہم کرتی تھی۔بجلی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے 1958ء میں واپڈا ایکٹ کی منظوری کے بعد پورے ملک میں واپڈا کے ذریعے ڈیم بنانے،کوئلے، گیس اور تیل سے پاورہاؤسز لگانے اور 33KV، 66KV اور 132KVگرڈ اسٹیشن بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج پورے ملک میں 220KV اور 500KVتک گرڈ اسٹیشنز اور ہائی ٹینشن لائینیں بن چکی ہیں اوراسی طرح11KV، 220Vاور440V کی لائینیں شہر،شہر، گاؤں گاؤں اور گلی گلی پہنچادی گئی ہیں۔

1958ء میں واپڈا کے قیام کے بعد بجلی کی وافر مقدار میں پیداوار اور فراہمی سے صنعتیں لگنی شروع ہوئیں اور صنعتی ترقی کا آغاز ہوا، زراعت کو بجلی ملنی شروع ہوئی اور زراعت میں انقلاب برپا ہوا،تجارتی مراکز کو بجلی کی فراہمی سے کاروبار نے کئی گنا ترقی کی اور اسی طرح جہاں شہریوں کو گھروں کیلئے 10 سے 15 سال تک بجلی کا کنکشن نہیں ملتا تھا وہاں دنوں میں صارفین کو گھریلو کنکشنز ملنا شروع ہوگئے، بغیر لوڈ شیڈنگ کے24 گھنٹے بجلی کی فراہمی سے زرعی،تجارتی اور صنعتی ترقی سے روزگار میں اضافہ ہوا اور عوام میں بھی خوشحالی اور بہترزندگی گزارنے کے آثار پیدا ہوگئے۔

عام لوگوں کی مالی حالت میں بہتری کے بعد لوگوں نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلائی،علاج و معالجے میں بہتری آئی، ریاست کے اداروں کو نئے انداز کے مطابق ترقی ملی،لوگوں کی خوشحالی کا یہ عالم ہوا کہ جوکئی کئی کلومیٹر سائیکل، تانگے یا پیدل سفر کرتے تھے ان کی زندگی میں بہتری آنے کے بعد گاڑیوں کی ریل پیل اور لوگوں کا معیارزندگی بہتر سے بہتر ہونا شروع ہوا۔لیکن بدقسمتی سے 1994ء کے دوران آنے والی حکومت نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ جات حاصل کرنے کیلئے ان کی بہت سی ایسی شرائط مان لیں جس سے کئی شعبوں میں ملک کی ترقی میں بہتری کے بجائے تنزلی شروع ہوگئی اور اس میں سب سے بڑا ٹارگٹ واپڈا کو بنایا گیا۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے حکومت پاکستان پرشرائط لاگو کیں کہ واپڈا کو تقسیم در تقسیم کرکے کمپنیاں بنائی جائیں اوران کے بقول اس طرح کی اصلاحات سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچے گالیکن 1994ء میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے مطابق واپڈا کی تقسیم درتقسیم سے ملک میں آئے روز بجلی کا بحران بڑھتا رہا اوربجلی مہنگی ہونا شروع ہوئی جبکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں آئے روزاضافہ ہوتے ہوئے ایک وقت ایسا آیا کہ بجلی چند گھنٹوں کیلئے مہیا ہونا شروع ہوئی جس کی وجہ سے صنعتیں بند، کاروبار ٹھپ اور زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے، بجلی عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوئی اور عام لوگوں کو گھروں میں بجلی کے کنکشنز لینے اور استعمال کرنے کی سہولت سے محروم ہونا پڑا اورمہنگی بجلی کی وجہ سے بجلی چوری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

اس دوران حکومت نے آئی پی پیز اور آرپی پیزکے پرائیویٹ پاورہاؤسز لگوائے جن کی بجلی نہ لینے کے کیپسٹی چارجز پر اربوں روپے کی ادائیگیاں بغیر بجلی لینے ان پاور ہاؤسزمالکان کو ہورہی ہیں جس کا خمیازہ ملک اور عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔بجلی کی کمپنیاں بنا کر اس میں انتظامی افسروں کی فوج ظفر موج کی تعیناتیاں کرائی گئیں،افسروں کی مراعات میں بے پناہ اضافہ کیا گیااور جس طرح کے الیکٹرک میں افسروں کو لالچ دے کر پہلے ایس ڈی او سے ایکسین اور ایکسین سے چیف اورجی ایم بنایا گیا۔

اسی طرح ان کمپنیوں میں بھی ترقیوں کی بھرمار ہو گئی ہے بلکہ اب تو ایک افسر کو دوسرے علاقے میں بھیجنے پر 2تنخواہیں، تین ماہ میں ایک ہفتے کی چھٹی دے کر ٹی اے، ڈی اے کی ادائیگی، افسروں کو تعلیمی مراعات، 10ہزارروپے ڈگری الاؤنس،ہیڈ آفس کے ایئر کنڈیشن کمرے میں بیٹھنے پر20فیصد ہیڈ آفس الاؤنس، سرکاری گاڑی اور فیول کے ساتھ 5ہزار روپے کنوینس الاؤنس، جونیئر افسر کو سینئر افسر کی جگہ تعیناتی اور مرضی کی پوسٹنگ اور ایڈیشنل چارج پر 12ہزارروپے الاؤنس دے کر افسروں کو ذاتی مفادات میں الجھادیا گیا ہے اور آج پھر حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے لے رہی ہے اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن ہے کہ حکومت کمپنیوں کی نجکاری کرکے پاورسیکٹر کے ذریعے بجلی کی فراہمی کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائے۔

واپڈا اور پاورکمپنیوں کے افسروں اور مزدوروں نے مل کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کی حکومت میں بجلی کی نجکاری کرنے کے تمام ملک دشمن منصوبوں کو ناکام بنایا اور مسلم لیگ (ن)کے دورمیں فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری کے خلاف ایک ہفتے تک پورے ملک میں بجلی کے بلوں کی کی تقسیم اور وصولی کے نظام کو روک دیا گیا جس پر اس وقت کی حکومت نے مزدوروں کی نمائندہ یونین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کیا اور پاور سیکٹر کی کمپنیاں نجکاری سے محفوظ رہیں۔

اس وقت نجکاری کی مزاحمت میں شریک افسران آج پاور کمپنیوں میں چیف ایگزیکٹو آفیسر، جی ایم، جنرل منیجر اورچیف انجینئرز کے عہدوں پر تعینات ہیں ان اعلیٰ افسروں اور کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو کمپنیز ایکٹ2016-ء اور کمپنیز گورننس رولز2013- ء کے برخلاف تعیناتیاں ملی ہیں اور وہ ذاتی مفادکے حصول میں حکومتی احکامات کی بجاآوری کررہے ہیں اور وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ پاور کمپنیوں کی نجکاری کے بعد وہ پینشن کے حق سے بھی محروم ہوجائیں گے۔

آج کمپنیوں کے اعلیٰ افسران نجکاری کی راہ ہموار کرنے کیلئے واپڈااور پاور کمپنیوں کی سب سے منظم سی بی اے تنظیم کو توڑنے اور انہیں عدالتی مقدمات میں الجھانے کی سازشیں کررہے ہیں تاکہ کمزوراور تقسیم شدہ مزدور تحریک کی وجہ سے نجکاری کی راہ ہموار کی جاسکے اس سلسلے میں چیف ایگزیکٹو آفیسر لیسکو، چیف ایگزیکٹو آفیسر فیسکو،منیجنگ ڈائریکٹر پیپکواورمنیجنگ ڈائریکٹر این ٹی ڈی سی کی طرف سے گریڈ16- اور17 کے ورکرزکو یونین سے نکالنے کے خطوط جاری ہوئے ہیں جبکہ انہیں معلوم ہے کہ اعلیٰ عدالتوں نے ورکرکا تعین ان کی تنخواہوں اورگریڈوں کے بجائے ان کے روزمرہ کی ذمہ داریوں اورکام سے کیا ہے اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں۔

اب بھی اگر کمپنیوں کے سربراہوں کوورکرکی تعریف کے سلسلے میں کسی قسم کی غلط فہمی ہے تو وہ بذات خود نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن سے رجوع کرسکتے ہیں اور نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن سے ورکر کی تعریف کا فیصلہ لے سکتے ہیں یہ طریقہ ایمپلائر اور ورکرکے درمیان تنازعے سے بچنے کیلئے موجود ہے۔کمپنیوں کے ان قائمقام چیف ایگزیکٹو آفیسرزکو کمپنیز ایکٹ2016-اور کمپنیز رولز2013-کا مطالعہ کرکے اپنی تعیناتی کا بھی بغور جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کس طرح غیر قانونی طور پر عہدوں پر براجمان ہیں اور غیر قانونی عہدے پر تعیناتی اور مفادات ان کی کمزوری ہے اس لئے حکومت ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پاور کمپنیوں کو نجکاری کی طرف دھکیل رہی ہے اس لئے افسروں کو اس سازش سے خبرداررہنا چاہیے اور اس سازش کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

کیونکہ یہ سازش آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کی طرف سے ہمارے ملک کی معاشی شہ رگ کو کاٹنے کیلئے تیار کی گئی ہے اور ہمیں وزیر اعظم عمران خان کو متوجہ،متنبہ اور باخبر رکھنا چاہیے کہ وہ ریاست مدینہ، نئے پاکستان اور تبدیلی کے نعرے کے علمبردار اور ملکی مفادات کے محافظ ہیں اور حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے انہیں جس طرح معیشت کا احساس رہا ہے اور جس طرح انہوں نے مزدوروں اور غریبوں کیلئے آواز بلند کی ہے ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان پاورسیکٹر کی تمام کمپنیاں تحلیل کریں گے اور ان کمپنیوں کو واپڈا کے ماتحت لاکر پہلے کی طرح سستی بجلی کی پیداواربڑھانے اور زراعت، صنعت، تجارت اور گھریلوصارفین کو24گھنٹے بجلی فراہم کرنے کا بندوبست کرکے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔

آئی پی پیز اور کوٹ ادو پاور ہاؤس کے معاہدات کی مدت مکمل ہونے پرملکی مفاد میں ان کی ایکسٹینشن نہیں دیں گے،واپڈا کے تمام پاور ہاؤسز کوچلانے کی ہدایات جاری کرکے پاور کمپنیوں کونجکاری سے محفوظ بنائیں گے اور وزیر اعظم اپنے توانائی کے مشیر ندیم بابر پر نظر رکھیں گے کیونکہ وہ آئی پی پیز کے بینیفشری ہیں اوروزیراعظم کے نجکاری کے خلاف اقدامات ملک کے مفاد میں ہونگے۔

پاورکمپنیوں کے افسران اور مزدوروں کی ملک کی معاشی ترقی میں خدمات رہی ہیں اور ہزاروں کارکنوں نے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں ان خدمات اور قربانیوں کو رائیگاں ہونے سے بچا نے کیلئے افسر اور مزدور پہلے سے زیادہ محنت و ایمانداری سے کام کرکے ملک کی معاشی ترقی میں بھرپورحصہ ڈالیں گے اور پاور کمپنیوں کو نجکاری سے محفوظ بنائیں گے۔