|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2020

کراچی کے علاقے پنجاب کالونی میں گزشتہ روز ایک شخص عطائیت کی بھینٹ چڑھ گیا جب عطائی ڈاکٹر نے اسے کرونا کا مریض قراردے دیا جس پر اس شخص نے اپنے خاندان کو بچانے کی خاطر خودکشی کرلی لیکن ابتک اس عطائی ڈاکٹر کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔کچھ عرصے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب پولیس کو ایک حکم دیا تھا کہ وہ صوبے بھر کے تمام عطائی ڈاکٹروں کو ایک ہفتے میں گرفتار کر کے رپورٹ پیش کرے۔ اس حکم کے ساتھ ہی پنجاب پولیس حرکت میں آتی ہے اور صوبہ بھر میں عطائی ڈاکٹروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کر تی ہے، میڈیا کے اعداد وشمار کے مطابق کافی گرفتاریاں عمل میں آئیں تھیں۔

جب بھی ملک میں عطائیت کے خلاف مہم شروع کی جاتی ہے عموماً عوامی اور میڈیاکی سطح پر تاثر دیاجاتاہے کہ ایم بی بی ایس صرف ڈاکٹر ہیں ان کے علاوہ تمام عطائی ہین جوکہ سراسر ایک غلط تاثر ہے۔ میڈیا کے لوگوں کو بھی اپنا کونسپیٹ کلیئر کرنا ہوگا، ہم عطائیت کی تعریف کرنا چائیں تو کچھ اسطرح ہوگا ” ہروہ شخص جوبغیر کسی مستند سرکاری ادارے کی ڈگری، سرٹیفکیٹ یا سند کے علاج معالجے کی خدمات سرانجام دے رہا ہے تو اس کا شمار عطائی میں ہوگا”اس کے علاوہ ہر وہ شخص جو اپنے متعین کرد ہ اختیارات جو قانون کے مطابق اسے حاصل ہیں سے تجاوز کرے گا وہ بھی عطائیت کے ذمرے میں ہی آئے گا۔

مختلف شعبہ جات میں خدمات سرانجام دینے والے معالجین جو کسی مستند سند یا ڈگری کے حامل یافتہ ہیں اور اپنے شعبے میں اور جو ان کی باؤنڈری ہے یا جو ان کے حدود ہیں ان میں رہ کر علاج کریں۔ وہ عطائیت کے ذمرے میں نہیں آتے مثال کے طور پر ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر جسے آپریشن کی اجازت نہیں ہے وہ جنرل پریکٹس تو کرسکتا ہے لیکن آپریشن نہیں اگر وہ آپریشن کرتا ہے تو وہ بھی عطائی ڈاکٹر کہلائے گا،اس کے پاس ڈگری تو ہے لیکن وہ اپنے حدود سے تجاوز کر رہاہے جو ایک عطائیت کا فعل ہے جو کہ ایک جرم کے ذمرے میں آتا ہے۔

اسی طرح بیچیلر کی ڈگری رکھنے والے میل اور فیمیل نرس جو پاکستان نرسنگ کونسل سے رجسٹرڈ ہوں اسی طرح ڈی ایچ ایم ایس ڈپلومہ کے ہولڈر ہومیو ڈاکٹر حضرات، نیشنل کونسل فار طب کے چار سالہ طبیب جنہوں نے فاضل طب والجراحت ایف ٹی جے کے ڈپلومے کر رکھے ہیں، اگر کوئی نرس فرسٹ ایڈ سے زیادہ علاج کریں، کوئی ہومیو پیتھک ڈاکٹر انگریزی ادویات،حکیم، ہومیو پیتھک ادویات یا پھر ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ہومیو پیتھک و یونانی ادویات اپنے مریضوں کو استعمال کروائیں یا تجویز کریں تو وہ بھی عطائی شمار ہو گا۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ عموماً ایم بی بی ایس ڈاکٹر حضرات میں یونانی اور ہومیو پیتھک ادویات استعمال کروانے کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے جوکہ غیر قانونی ہے۔

اسی طرح جن ڈاکٹر حضرات نے بغیر کسی مستند ڈگری کے اپنے سپیشلسٹ ہونے کے بڑے بڑے بورڈ آویزاں کر رکھے ہوتے ہیں جن میں بچوں کے اسپشیلسٹ، اسکن اسپشیلسٹ اور ایسے بے شمار ڈاکٹر گاؤں دیہات کے ساتھ شہروں میں بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں وہ بھی عطائیت کے ذمرے میں آتے ہیں۔ بغیر فارماسسٹ، ڈرگ سیل لائسنس، کوالیفائیڈ سٹاف کے ادویات فروخت کرنے والے ڈاکٹر حضرات بھی ان اقدامات کے قانوناً مجاز نہیں جبکہ ان کے پاس مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد کا سرکاری اسناد و ڈپلومہ جات کے ساتھ کوالیفائیڈ ہونا ضروری ہے۔

اگر ایسا نہیں تو یہ ہسپتال و ڈاکٹر بھی اسی ذمرے میں آئیں گے اور سربراہ ادارہ عطائیت کے فروغ کا باعث بن رہا ہوگا۔ اگر اس کی سادہ سی تشریح کر دی جائے تو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی ہدایات پر جو ہسپتال پورا نہیں اترتے ان کے پاس کوالیفائیڈ سٹاف و دیگر سہولیات نہیں وہ عطائیت کی نرسریاں کہلائیں گی۔

اسی طرح سرکاری فیکلٹیوں کے ڈگری اور ڈپلومہ ہولڈر، ٹیکنیشنز جن میں ڈسپنسرز دو سالہ کورس کی حامل لیڈی ہیلتھ وزٹر، لیبارٹری، ایکسرے، ای سی جی، ڈینٹل ٹیکنیشنز، کوالیفائیڈکہلائیں گے ان کی تشریح بھی عطائیت کے تناظر میں نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہی ڈگری ہولڈر نرس اور ڈپلوما ہولڈر نرس اور ٹیکنیشنز بنیاد ی مراکز صحت،رولر ڈسپنسریوں، امن فاؤنڈشن کی ایمبولینسز شہر کے بڑے بڑے اسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے وارڈوں میں مریضوں کی جان بچاتے نظر آتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں 1122 ریسکیو سروسز، تمام قسم کے ڈزاسڑ، جلسے جلوسوں، رمضان بازاروں، ہنگامی کیمپس میں بطور انچارج علاج معالجہ و ایمرجنسی کی سہولیات دیتے نظرآتے ہیں۔ اسی طرح صحت کی خدمات میں انجیکشن سے لے کر مرہم پٹی، ادویات کی فراہمی و تجویز، آپریشن تھیٹر، چھوٹی موٹیں سرجری تک میں یہی اسٹاف خدمات سرانجام دیتا ہے۔ان ہی ٹیکنیکل افراد کو سرکاری حکم ناموں کے تحت ایسی خدمات و سروسز فراہم کرنے کے اختیارات سونپے گئے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ متعدد بار ان کو پریکٹس پرمٹ کے اجراء کے حکم نامے جاری کرچکے ہیں۔

ان تمام افراد کے لیے ہیلتھ کونسل تشکیل دے کر پرائیویٹ شعبہ میں فرسٹ ایڈ پریکٹس اور ہیلتھ سروسز فراہم کرنے کے متعلق قانون سازی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ان لوگوں کی سروسز کو اگر سرکاری اور نیم سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے نکال دیا جائے تو ملک میں صحت عامہ اور علاج معالجے کی سہولیات ناپیدہو کر رہ جائیں گی۔ بنیادی مراکز صحت کے نرسز، ڈسپنسرز،لیڈی ہیلتھ وزٹرز، ہیلتھ ورکروں کو ٹریننگ فراہم کرتے ہیں اور ان کے لیے استاد کا کردار ادا کرتے ہیں۔

حکومتی اداروں کی دہری پالیسی ہے کہ سالوں کی ٹریننگ و اسناد کے حامل سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے والے کوالیفائیڈ نرسز اور ٹیکنیشنز حضرات کو پرائیویٹ شعبہ میں آزادانہ فرسٹ ایڈ سہولیات فراہم کرنے پر پریشان کیا جاتا ہے اور انہیں قانونی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جبکہ دوسری صورت لاکھوں کی تعداد میں ملک کے گلی کوچوں میں قائم ہیلتھ ہاؤسز جن کے انچارج ہیلتھ ورکرز ایل ایچ وی کو بنایا گیا ہے جن کی تعلیمی قابلیت اکثریت کی میٹرک بھی نہیں ہوتی، ان کو ہر قسم کی ادویات، بلڈ پریشر سیٹ، تھرما میٹر، ویٹ مشین، فراہم کی گئیں ہیں تاکہ وہ عوام کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کر سکیں، اس سلسلہ میں سرکاری سطح پر میڈیا پر باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے کہ ان ہیلتھ ورکروں سے اپنا علاج معالجہ کروائیں۔