|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2020

اب سے کچھ عرصہ قبل تک کوئٹہ کے نواحی علاقے مستونگ روڈ پر قائم شیخ زاہد ہسپتال میں مریضوں کا کافی رش پایا جاتا تھا جب سے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد اس ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں لائی جارہی ہے تب سے ہسپتال سنسان نظر آرہا ہے کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ہسپتال کے احاطے میں قائم رہائشی کالونی کو خالی کر ادیا گیا ہے۔وسیع رقبہ پر پھیلے اس ہسپتال میں اب صرف چند سفید لباس میں ملبوس چہرے پر ماسک پہنے نرسز،ڈاکٹر اور دیگر ہسپتال کا عملہ ہی نظر آتا ہے جبکہ ہسپتال سے باہر لوگوں کی زندگی قدرے مختلف ہے جہاں لوگ ثقافتی لباس زیب تن کئے ہوئے سروں پر کڑھائی والی ٹوپی پہنے اپنی روز مرہ کی زندگی کے کاموں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

28سالہ محمد عامر کوئٹہ کے علاقے مری آباد کا رہائشی ہے جو کہ پیشے کے اعتبار سے سرکاری ملازم ہے وہ اپنی بیٹی منائل اور اپنی بیوی بستہ کے ہمرا گزشتہ ماہ ایران میں مقدس مقامات کے زیارت کے لئے گیاتھا وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد (اہل تشیع)ایران کے مختلف شہروں مشہد،قم ودیگرمیں قائم مقدس زیارات کیلئے جاتے ہیں،محمد عامر بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں پھیلنے والے کورونا وائرس کے بعد کی صورتحال سے ہمیں کافی مشکلات درپیش آئی لاک ڈاؤن کے باعث ایران میں دکانیں بند تھیں جس کے باعث ضروری سامان کی خریداری میں مشکل پیش آرہی تھی۔

صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم بھی دیگر(زائرین)کے ہمراہ پاکستان کیلئے روانہ ہوئے پاک ایران بارڈر تفتان پر امیگریشن کے طریقہ کار کے بعد تفتان بارڈر پار آئے توانتظامیہ کی جانب سے ہمیں تفتان قرنطینہ سینٹر منتقل کردیاگیا جہاں ہمیں 10روز تک رکھاگیا تاہم میری بیوی بستہ کے کمر میں تکلیف تھی جس کے باعث بستہ اور میری بیٹی منائل کے ہمراہ ہمیں تفتان سے شیخ زاہد ہسپتال کوئٹہ لایا گیا جہاں بستہ کا دیگر ٹیسٹوں کے ساتھ کرونا وائرس کا (پی سی آر)ٹیسٹ کیا گیا جو کہ مثبت آیا جس بعد انکی بیٹی منائل اور انکا بھی ٹیسٹ گیا جس میں سے منائل کا ٹیسٹ مثبت جبکہ میرا ٹیسٹ منفی آیا،وہ کہتے ہیں کہ بستہ اور منائل میں کرونا وائرس کی تشخیص کے بعد ہسپتال انتظامیہ کے منع کرنے کے باوجود محمد عامر روز اپنی بیوی کی تیمارداری کے لئے ہسپتال جایاکرتا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی اب کرونا وائرس سے متاثر ہوچکا اور ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں زیر علاج ہے۔

محمدعامر کا کہنا ہے کہ اسکی صحت اچھی ہے ہسپتال کے عملے کی جانب سے انکا خیال تو رکھا جاتا ہے لیکن وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہ کر نفسیاتی مریض بن گیا ہے انکی بیوی بیمار ہے اسے اس کے پاس جانے دیا جائے محمد عامر کا شکوہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تفتان قرنطینہ میں ایک خیمے اندر چھ افراد کو رکھا جاتا تھا جہاں رہنا مشکل تھا بعد ازاں شیخ زاہد ہسپتال کے ڈائریکٹر جنرل عبدالغفار بلوچ نے محمد عامر کے کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق کی۔

آئسولیشن وارڈ میں ڈیوٹی کرنے والی نرس نے نام نہ ظاھر کرنے کے شرط پربتایاکہ وہ خوش ہے کہ خدا نے انہیں اس مقدس فریضہ کیلئے چنا ہے وہ کہتی ہے کہ انہیں کرونا کے مریضوں سے کوئی خوف محسوس نہیں ہورہا ہاں البتہ کرونا کے مریضوں کی جانب سے انہیں تنگ کیا جاتا ہے کہ انہیں (متاثرہ مریض)باہر جانے دیا جائے۔ وہ بتاتی ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ خاتون نے ان سے آئیسولیشن وارڈ سے باہر جانے کی ضد کی”جب میں نے مریضہ کو باہر جانے سے زبردستی روکا تو مریضہ نے مجھ پر تھوک پھینکا کر کہا کہ تمہیں بھی کرونا کا مرض لاحق ہوجائے وہ بتاتی ہے کہ اس واقعہ کے بعد ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ان کی اسکریننگ کی گئی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے انہیں ضروری سامان فراہم کیاگیا اور اس کے ساتھ ساتھ مریضوں کی نگرانی سخت کردی گئی۔وہ بتاتی ہے کہ اس کی ڈیڑھ سال کی بیٹی بھی اسکے ہمراہ ہے وہ ہاسٹل میں رہتی ہے اور وہ گزشتہ تین سالوں سے نرسنگ کے شعبے سے منسلک ہے۔

چیسٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر گل حبیب نے بتایاکہ نوول کورونا وائرس(کوڈ 19)اپنی نوعیت کا پہلاکورونا فیملی وائرس ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتاہے،وہ کہتے ہیں کہ کورونا سے متاثرہ14فیصد مریض کو داخل کرناپڑتاہے تاہم ان میں 5فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جن کی حالت تشویشناک ہوتی ہے جبکہ 81فیصد مریض ایسے ہیں جن کے علاج کی ضرورت نہیں تاہم وہ خود کو قرنطائن کریں تاکہ یہ دوسروں میں منتقل نہ ہووہ کہتے ہیں کورونا وائرس نوجوانوں کوکم جبکہ 50سال سے زائد کے عمر کی افراد کو زیادہ متاثر کرتاہے،وہ کہتے ہیں کہ اس وائرس سے انسانی جسم میں سب سے زیادہ چیسٹ (سینہ)متاثر ہوتاہے۔

گزشتہ روز تک بلوچستان میں نوول کورونا وائرس کے 11نئے کیسز سامنے آنے کے بعد صوبے میں مجموعی طور پر متاثرہ افراد کی تعداد202ہوگئی جن میں 61 کیسز مقامی سطح پرسامنے آئے ہیں جن میں 18ڈاکٹرز /ایچ سی پیز،8سیکورٹی اہلکار،6محکمہ صحت کے ملازمین شامل ہیں،صوبے میں اب تک 3395افراد کی اسکریننگ کی گئی ہیں جبکہ 3153افراد مشتبہ تھے جن کے سیمپلز لے لئے گئے اب تک ٹوٹل 2998افراد کے ٹیسٹ کئے گئے ہیں جن میں 2646افراد کے ٹیسٹ منفی جبکہ 202افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں اب تک 150 افراد کے ٹیسٹ زرلٹس کاانتظار ہے،تاہم حوصلہ افزاء آمر یہ ہے کہ پیر کے روز نوول کورونا سے متاثرہ 33افراد کے صحت یابی کے بعد دوبارہ ٹیسٹ رزلٹس منفی آنے کے بعد انہیں گھر بھیج دیاگیا۔

اس طرح صو بے میں نوول کورونا وائرس سے متاثرہ صحت یاب ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد63ہوگئی ہیں۔اس وقت بلوچستان کے مختلف قرنطینہ سینٹرز میں موجود افراد کی تعداد313ہیں جن میں سرحدی علاقے تفتان میں قائم قرنطینہ سینٹر میں رکھنے افراد کی تعداد90،پی سی ایس آئی آر میں رکھے گئے افراد کی تعداد 33،خضدار قرنطینہ سینٹر میں 18،ژوب قرنطینہ سینٹر میں 39،گوادر میں 27جبکہ آر ڈی اے کمپلیکس میں 106افراد موجود ہیں۔بلوچستان میں مقامی سطح پر کوئٹہ میں نوول کورونا سے متاثرہ افراد میں سے تین کا تعلق قمبرانی روڈ،4کاجناح روڈ،ایک عبدالولی چوک،7کا تعلق سریاب روڈ، 4،4کا تعلق اسپینی روڈاوربروری روڈ،کلی ترخہ میں 5،کلی مبارک، اے ون سٹی،زرخو روڈ،دیبہ، سے تعلق رکھنے والے 2،2افراد جبکہ کلی شابو،علمدارروڈ،ایمان سٹی، ارباب کرم خان روڈ، کلی بنگلزئی،معصوم شاہ اسٹریٹ،بلوچی اسٹریٹ،کاسی روڈ،نواں کلی،جناح ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے ایک،ایک شخص نوول کورونا وائرس کے شکار ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں باہر سے آنے والے افراد کی کل تعداد90ہزار573ہیں جن میں تفتان بارڈر(چاغی)سے 6442افراد،گوادر کراس بارڈر169افراد، پنجپائی بارڈر سے 2294افراد بلوچستان میں داخل ہوئے ہیں۔صوبے میں اس وقت لاک ڈاون ہے اور بلوچستان کے تمام دیگر اضلاع کا رابطہ کوئٹہ سے منقطع کردیا گیا ہے صوبائی حکومت نے کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاون و مری آباد کا رابطہ کوئٹہ سے منقطع کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔

کورونا وائرس احتیاطی تدابیرکے تحت یہ فیصلہ تاحکم ثانی برقرار رہیگا۔ہزارہ ٹاون اور مری آباد میں میں رہنے والی اکثریت آبادی اہل تشیع افراد کی ہے جبکہ ایران جانے والے تمام پاکستانی زائرین دو سے تین روز تک کوئٹہ کے علاقے مری آباد میں پڑاو ڈالتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے عوام پر زوردیتے ہوئے اپیل کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے گھروں میں رہیں اور حکومت وانتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرے،وزیراعلیٰ بلوچستان کہتے ہیں کہ بلوچستان کا دار ومدار کوئٹہ کے دو ہسپتالوں سول ہسپتال اور بولان میڈیکل ہسپتال پر ہے حکومت بلوچستان اب تک3ہزار سے زائد افراد کے کورونا ٹیسٹ کرچکے ہیں جن افراد کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں انہیں گھر بھیجا جارہاہے اور جن کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔

انہیں کوئٹہ کے شیخ زاہد ہسپتال میں آئیسولیٹ کرکے ان کا علاج شروع کردیاجاتاہے،وہ کہتے ہیں کہ وفاق سے کم سے کم 50ہزار ٹیسٹنگ کٹس مانگی ہیں کیونکہ یہاں وینٹی لیٹرز، پی پی ایز اور دیگر سامان کی ضرورت ہے، ہمیں ٹیسٹنگ کی استعداد بڑھانا ہوگی، ہمارے پاس پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی وسائل نہیں، اس وقت ہمارے پاس مجموعی طور پر 60وینٹی لیٹر ہیں،ایران سے آنے والوں کو تفتان میں ٹھہرایا کورونا وائرس کی مزید پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ہم نے ہر حوالے سے لاک ڈاون سمیت سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔

اپوزیشن رکن بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس پوری دنیا میں وباء کی شکل اختیار کرچکی ہے بدقسمتی سے بلوچستان میں حکومت کی غلط پالیسی کے باعث صحت مند افراد بھی کرونا کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں دوسری جانب کوروناوائرس کے باعث بلوچستان سمیت خاران میں لاک ڈاؤن سے ہزاروں مزدور و محنت کش افراد گھروں میں محصور ہو کر روزگار سے محروم دو وقت کے روٹی کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔

صوبائی حکومت کا متاثرہ افراد کو راشن سمیت ایمرجنسی کے حالات میں کوئی جامعہ پالیسی نہیں،مزدور طبقہ کے امداد کے لیئے صوبائی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے راشن خاران کے ساتھ کھلم کھلا مذاق ہے جو بطور ایم پی اے خاران کسی صورت قبول نہیں،وہ کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی حکومت کروناوائرس پر قابو پانے کے لیئے زبانی کلامی اوردعوؤں کے بجائے عملی اقدامات اٹھائے۔ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ رضیہ نے حال ہی میں جامعہ بلوچستان کے شعبہ علم سیاسیات سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی وہ ہزارہ ٹاون میں رہتی ہے۔

انہوں نے بتایا ” کہ ہمارے محلے میں چند روز پہلے ایران سے زائرین آئے ہیں میرے گھر والے کرونا وائرس سے پریشان ہیں جس کی وجہ سے والدہ ہمیں ان سے ملنے نہیں دے رہی لیکن میں فٹنس کلب جاتی ہوں جس کے باعث مجھے کرونا وائرس سے پریشانی نہیں ہوتی۔”جان عالم تفتان قرنطینہ میں گزشتہ چھ روز سے قرنطائن ہیں وہ گزشتہ بیس سالوں سے ایران میں تجارت کرتے آرہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تفتان قرنطینہ سینٹر میں ایک کیمپ کے اند چار چار افراد کو رکھا جارہا ہے جہاں واش روم، پانی اور دیگر بنیادی سہولیات نہ ہونے سے انہیں شدید پریشانی کا سامنا ہے خواتین،بچوں کو شروع دیگر افراد کے ساتھ رکھا گیا تھا جنہیں بعد میں الگ قرناطائن کیا جان عالم۔نے مذید بتایا کہ “ایرانی زائرین کو تاجر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد کو ایک ساتھ رکھا گیا ہے حالانکہ انتظامیہ نے بتایا کہ ایرانی زائرین کو الگ قرنطائن کیا جائے گا”ایران کے شہر چاہ بہار میں پھنسے پاکستانی شہری عبالکریم نے نے بتایا ” یہاں ایران میں ہمیں شدید مشکالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بازار کی بندش سے اشیا خوردنوش کی کمی ہوگئی ہے دور محلے کے اندر چند ایک دکانیں کھلی ہیں جہاں سے ہم کھانے کی اشیا خرید کر لاتے ہیں یہاں زندگی کافی مشکل ہے “کوئٹہ میں ایران کے قونصلر جنرل محمد رفیعی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کورونا وائرس کے پیش نظر ایران اور پاکستان سرحد عبور کرنے والے تمام پاکستانی زائرین اور مسافروں کی مکمل اسکریننگ کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے میرجاوہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ سنٹر کے عملہ کے 10 بہترین ڈاکٹروں کو پاک-ایران سرحدی علاقے بارڈر ہیلتھ سرویلنس یونٹ میں تعینات کیا گیا ہے۔ عملے کے ان ممبروں میں فزیشن، بیماریوں پر قابو پانے والے افسران، ماحولیاتی ماہرین صحت اور ایمرجنسی پیرامیڈکس شامل ہیں۔انہوں نے کہاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے پاک ایران بارڈر پر بین الاقوامی صحت کے قواعد وضوابط (IHR)کے نفاذ کو فروغ دے رہی ہے بلکہ بین الاقوامی صحت کے قواعد و ضوابط (ایچ آئی آر)کو سیستان و بلوچستان کی تمام سرحدی پٹی پر محتاط انداز میں نافذ کرکے اس کی منظم طریقے سے نگرانی کر رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے کورونا وائرس کے پیش نظر بنائی گئی کور کمیٹی کے رکن اور ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے صدر یاسر اچکزئی کے مطابق بلوچستان حکومت کو تفتان سے لیکر کوئٹہ تک کے تمام ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس فراہم کرے تاحال حکومت کی جانب سے صرف چند ماسک فراہم کئے گئے ہیں انہوں نے مذید بتایا کہ “سیکرٹری صحت معاملہ کی نزاکت کوسنجیدہ نہیں لے رہے اگر ایک بھی ڈاکٹر کرونا سے متاثر ہوا تو اسکی ساری فیملی متاثر ہوگی۔

ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کہتے ہیں کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے ڈاکٹرز،نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کیلئے ضروری سامان کے علاوہ آلات کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات اٹھائے ہیں،ڈاکٹرز کیلئے 60 ہزار حفاظتی لباس آئندہ ہفتے مل جائیں گے، طبی سامان اور ادویات کی فراہمی کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، ہمارے پاس ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ہے جس کے لئے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا جا چکاہے وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے یومیہ دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد کو 2 کیٹیگریز میں تقسیم کیا ہے۔

ایک وہ ڈیلی ویجر طبقہ ہے جو سفید پوش ہے اور وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے بھوکے سونے کو ترجیح دیتا ہے ہم ان لوگوں سے مختلف خدمات لیں گے بلکہ سریاب روڈ پر کرونا وائرس کے متاثرہ لوگوں کے لئے ایک کرونا ویلج بھی بنایا جارہا ہے۔