|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2020

حکومت آٹے چینی کے بحران سے بمشکل نکلی ہے لیکن اس بحرانی کیفیت سے سبق نہیں سیکھا ہے یا پھر مصنوعی بحران پیدا کرکے اپنے ہمدردوں کو ایک منصوبے کے تحت راتوں رات ارب کھرب پتی بنا دیا جاتا ہے بلوچستان خاص کر نصیرآباد ڈویڑن کی گندم کی کٹائی زوروں پر شروع ہوچکی ہے گندم مارکیٹ میں آچکی ہے گندم کے سمگلروں نے ڈیرے ڈالنے شروع کردیے ہیں۔

کسان زمیندار پریشان ہیں گیارہ بارہ سو فی من گندم بیوپاری لاک ڈاون کی وجہ سے ڈرا کر خرید کر رہے ہیں کیونکہ کسانوں زمینداروں کی مجبوری ہے کھاد بیج والوں کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے جو ادھار پر حاصل کیے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے۔

محکمہ خوراک کے وزیر سیکریڑی ڈائریکٹر اور ضلع نصیرآباد کے آفیسر کرونا وائرس کے خوف سے قرنطینہ کروٹین یا آئسولیشن وارڈ میں ہیں جس کی وجہ سے خریداری شروع نہیں کی گئی ہے دنیا اتنے بڑے قدرتی آفات سے پریشان ہیں غذائی قلت کی مستقبل ماضی میں کمی کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

اگر لاک ڈاون بڑھے تو عوام کو آٹا فراہم کیا جاسکے لیکن بلوچستان حکومت کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے گندم ذخیرہ کرنے کے لیے محکمہ خوراک بلوچستان کی کوئی منصوبہ نظر نہیں آرہی ہے جون جولائی میں پچھلے سال کی طرح گندم خریداری کی ڈرامہ بازی کی جائے گی تب تک گندم کسان زمینداروں کے ہاتھ سے نکل کر افغانستان ودیگر ممالک کو سملگل ہو چکی ہو گی پھر عوام گندم بحران کا شکار ہوگی 2500سے 3000من خریدیں گے۔

وزیراعلی بلوچستان سے گزارش ہے محکمہ خوراک کی لاپرواہی کا نوٹس لیں یا پھر محکمہ خوراک کا محکمہ ہی ختم کردیں جس پر سالانہ تنخواؤں ودیگر مد میں اربوں خرچ ہونے سے بچ جائیں گے کم سے کم کسان زمیندار گندم خریداری کا انتظار تو نہیں کریں گے۔