|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2020

بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ مگر آج کل اسی کرفیو نے کشمیر سے بلوچستان کا رخ کیا ہے۔ بلوچستان میں نویں فیصد دکانیں مارکیٹیں اور ہوٹل بند ہیں اور ساتھ ویگن اسٹیشن ویران ریلویز اسٹیشن ویران ایئرپورٹ ویران بس سروس ویران ہیں۔

اس کا مطلب صاف ہے کہ حکومت وقت نے صوبہ بلوچستان میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔اس وقت بلوچستان کی سڑکیں چیخ چیخ کر بلوچستان کے حکمرانوں کو احساس دلا رہے ہیں کہ ہسپتال ان چیزوں سے بہت ضروری تھے جو ہم نے نہیں بنائیں ہیں۔اس وقت پورے بلوچستان میں کرفیو کا سما بنا ہوا ہے کسی کو آنے اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ گھروں سے نکلنے والے لوگوں کو سبزیاں اور راشن بہ مشکل ملتا ہے اس کا مطلب یہ لاک ڈاؤن نہیں ہے۔

لاک ڈاؤن معنی جزوی بندش کرفیو معنی کلی بندش دونوں انگریزی زبان کے الفاظ ہیں اور بندش کے مختلف درجات کو بیان کرتے ہیں۔بلوچستان حکومت لاک ڈاؤن کا کہہ کر پورے بلوچستان میں آج کرفیو نافذ کرچکا ہیں جو افسوس ناک عمل ہے۔ لاک ڈاؤن میں لوگوں کو ان کی مرضی سے باہر جانے کی ضرورتاً اجازت ہوتی ہے لیکن کرفیو میں حکومتی ادارے سختی سے باہر نکلنے سے منع کرتے ہیں۔

بلوچستان میں فل بٹا فل سختی ہیں۔ہوٹل, الیکٹرانک اسٹور اور اسٹیشنری کی دکانوں سمیت سبزیوں کی دکانیں اور فروٹ کی ریڑھیاں, میڈیکل اسٹورز اور راشن کی دکانیں بھی بند ہیں۔اس کا مطلب کرفیو لگا دیا گیا ہے اگر لاک ڈاؤن ہوتا تو عوام کو پیار سے سمجھایا جاتا اور گھروں میں بند کیا جاتا تھا سمجھ نہیں آ رہا یہ لاک ڈاؤن ہے یا کرفیو۔۔۔ کرفیو میں حکومتی ادارے گھروں سے نکلنے پہ سختی سے منع کرتے ہیں جو آج کل کر رہے ہیں۔

سچ تو یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے لوگ ڈر کی وجہ سے ہی باہر نکلتے کیونکہ وہ یہ جان گئے کہ بلوچستان میں تقریباً کرفیو ہی ہے یا کرفیو کی مشق ہی ہیں۔کشمیر میں کرفیو میں گھروں سے باہر نکلنے پر گولی مارنے کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں صرف لوگوں کو گولی دیکھا کے خوفزدہ کیا جا رہا ہے سچ تو یہ ہے کہ دہشت گردوں نے بھی حکومت کے لاک ڈاون کا احترام کر رکھا ہے وہ سب اپنے اپنے گھروں میں گھس گئے ہیں سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی وہ قوم ہیں جو گھروں سے باہر نکلنے پر گولی مارنے کا اعلان بھی ہو جائے تب بھی باہر یہ دیکھنے کیلئے جائیں گے کہ گولی مار رہے ہیں یا نہیں اس وقت بلوچستان حکومت نے لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا۔

مگر کوئی پلاننگ نہیں کی گئی تھی شاید اسی وجہ سوشل میڈیا پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ بلوچستان لوگ بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں خدارا حکمرانو! لاک ڈاؤن کریں نہ کہ کرفیو یہ کشمیر نہیں بلوچستان ہے۔ویسے بھی بلوچستان میں مہنگائی نے دروازے کھول دیئے ہیں اب اس جن کو قابو پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ہر چیز ڈبل قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں لوگ اپنے مال متاع اونے پونے داموں بیچ رہے ہیں دوسری جانب بلوچستان کے لوگوں کو تمام ٹی وی چینل خوفزدہ کر رہے کہ کرونا کی ابتداء اسی دیس سے ہوا ہے خدارا بلوچستان کے عوام کو کرونا وائرس سے مقابلہ کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔

اس طرح کی خبریں نہ چلائیں کہ عوام اس موذی مرض کا مقابلہ ہی نہ کر سکیں۔لوگوں کو اتنا خوفزدہ نہ کیا جائے کہ لوگ بھوک پیاس اور خوف سے مر جائیں۔ احتیاطی تدابیر لازمی ہیں پر جب جان ہوگی تو احتیاطی تدابیر پر عمل ہوگا۔آج پوری دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک ایسے ہیں جہاں پر کروانا وائرس کی خبریں بہت کم چلائی جا رہی ہیں تاکہ لوگ خوفزدہ نہ ہو۔ پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ وہ روزمرّہ زندگی کی خبریں ترجیعی بنیادوں پر چلائیں تاکہ عوام کرونا سے ڈرے نہیں بلکہ مقابلہ کریں۔ کیونکہ یہ کشمیر نہیں بلوچستان ہے۔