زندگی بھی ایک عجیب سی نعمت اور امتحان ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی لوگ زیادہ چربی اور مزیدار کھانے سے بلڈپریشر دل کی مریض شوگر وغیرہ وغیرہ بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہی ڈاکٹرز حضرات پرہیز دیتے یعنی جی بھر کھانے سے محروم کردیتا ہے۔بعض ایسی اقوام افراد اور محلات بھی اس فانی میں وجود رکھتے ہیں۔جو انسانی زندگی کیلئے درکار خوراک پانی اور دیگر سہولیات سے محرومی کی وجہ سیزندگی کے سخت اور بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ایک طرف جی بھر کھانے سے محروم دوسری طرف تاریخ کے بدترین مہنگائی بے روزگاری اور بھوک وافلاس سے دوچار اقوام زندہ رہنے کیلئے کھانہ راشن وغیرہ نہیں ملنے پر محروم نظرانداز پڑے ہیں۔ایک کہاوت ہے کہ آٹے کی بوری خریدنے والے اٹھا نہیں سکتے اور اٹھانے والے خرید نہیں سکتے۔۔۔بحر حال کائنات میں مختلف قسم کے لوگ رہتے ہیں کوئی بیمار کوئی بے بس کوئی قرضدار کوئی پریشان سب ایک طرح نہیں ہوسکتے ہیں۔الہٰی نظام ہے وہ اپنے قدرت سے چلاتے ہی اپنے بندوں کی امتحانات لے رہاہے۔
کسی کو مرض میں مبتلاتے کسی کو پریشانی دلاتے اور کسی کو محتاج اور بے بسی میں ڈال کر اپنے دوسرے بندوں کی امتحان لیتا ہے۔یہ ایک عظیم حقیقت ہے کہ چار مذاہب میں سے ہمارے امام ابو حنیفہ کی مذہب کی بہتری انسانی خدمت کی وجہ ہے۔کہ اس مذہب والے دوسروں کے دکھ درد میں مدد کرتے ہیں۔حق بھی ہے کہ ہم اپنے فیملی کو سہولیات فراہم کرنے کے علاوہ دوسروں کا بھی تھوڑا سا خیال رکھیں۔کیونکہ قطرہ قطرہ سے دریاب بن جاتا ہے آپ یہ چھوٹی سی بات معمولی نہ سمجھیں بلکہ اس پر عمل کرکے دیکھ لیں کہ کسی کا دل خوش کرنے سے کتنا سکون اور اطمینان مل جاتا ہے۔یہ ذائقہ یہ مٹھاس وہ لوگ محسوس کرسکتے ہیں جسکے سینے میں دل ہو البتہ آج تو اکثر سینوں میں پتھر ہی پتھر ہوتے ہیں۔جسطرح اس امتحان والی زندگی میں گوناگو حالات و واقعات پیش آتے ہی اسی طرح طرح طرح کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔کوئی عوام اور مظلوموں کی حقوق غصب کرکے مکہ تک جانے کے سفر کو حج مبارک کانام دیتے ہی مغفرت مانگتے ہیں کوئی اپنے ہی اہل واولاد کی طرح مظلوموں پر ترساتے او مہربان ہوتے ہی انکے زندگی کا ہر قسم سہولیات میسر کرنے میں دن رات مسلسل محنت کرتے ہیں۔
اصل بات اور موضوع کی طرف آنا چاہتا ہوں کہ آج کل عالم اسلام اور عالم کفر پر کرونانام کی بیماری آچکی ہے جس سے دونوں ہی سائیڈوں میں لاکھوں میں لوگ موت کی شکار اور متاثر ہوچکے ہیں۔یورپ والے کچھ ہم سے صحت تعلیم اور انسانی زندگی کی سہولیات رکھنے میں آگے ہیں وہ ایسی کہ وہاں اگرکفری ممالک میں اسلام نہیں ہے لیکن انسانی زندگی کی سہولیات انسانی حقوق کی طرح برقرار ہیں ہمارے جیسے درہم برہم نہیں ہیں۔پھر بھی انسانیت کی دفاع اور بے بس ولاچاروں کیلئے کچھ کرنے کا ایک عظیم سنہری موقع ہے کہ ہم آج ایک دوسرے کیساتھ انسانی ہمدردی کی خاطر لازمی کچھ کریں۔جسطرح دنیا کے زیادہ تر ممالک اس مصنوعی اور دجالی راہ ہموار کرنے کی وائرس میں مبتلا ہے اسی طرح پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہمارے سیاسی حکمراں الیکشن لڑنے کی دنوں میں کروڑوں کی رقم بینرز پیناپلیکس جھنڈوں اور جلسوں پہ تو خرچ کرسکتے ہیں لیکن مشکل کے اس گھڑی میں ایک محتاج خاندان کی پیٹ بھرنے کی طاقت نہیں رکھ سکتے ہیں۔پھر بھی الحمداللہ اگر سیاستداں اس کار خیر سے محروم ہیں تو یہاں پاکستان میں کچھ سماجی تنظیموں کی وجود ہیں جو خصوصی غریب بلوچستان کی تاریک اور آفسردہ فضاء کی رونقیں بحال کرنے میں اپنے آپ کے تحت کوشش کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اب موجودہ صورت حال میں لاک ڈاؤن کی آرمحصور عوام تک راشن کھانے پینے کی خدمات بھی یہی سماجی تنظیمیں سرانجام دے رہی ہیں۔
بچپن ہی سے اخباروں اور جریدوں میں ایک شخصیت کے بارے میں پڑھتا آرہاہوں جو غریب بلوچستان کی روشن مستقبل کیلئے جدوجہد کرہے ہیں یعنی صاف شفاف پانی کی پروجیکٹس پر کام کرتے ہیں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مصروف عمل ہیں یتیموں بے سہاروں کیلئے ایک تکیہ ہونے کی کردار ادا کرہے ہیں غریبوں کی مشکل ترین زندگی کو آسان گزارنے کی راستے تلاش کرتے ہیں مطلب انسانی خدمات اور زندگی کے ہر پہلو پہ ضروریات پورا کرنے کی محنت و مشقت میں ہیں وہ عظیم شخص تمغہ امتیاز خدمت خلق پاؤنڈیشن کا سربراہ جناب نعمت اللہ ظہیر صاحب ہیں جو اپنے باضمیر ٹیم کے ہمراہ بلوچستان اور دیگر عالمی دنیا کے مظلوموں کی خاطر اور خوشنودی کیلئے 30برس سے یہ انسانی خدمات کی عبادت کرتے آرہے ہیں۔یہ وہ عظیم شخص ہے جو وقت کے غاصبین متکبرین سے مظلوموں کی حقوق دلانے کیلئے لڑتے آرہے ہیں۔نہ صرف کہ غریب کیلئے راشن وغیرہ مہیا کرتے ہیں بلکہ ہر طرح متاثرین کیلئے پرسکون زندگی بسر کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو بلوچستان کیساتھ ساتھ عالم دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مشکل وقت میں والدین کی طرح حاضر اور مہربان ہوتے ہیں۔یقیناً چیرمین خدمت خلق فاؤنڈیشن کے نعمت اللہ ظہیر صاحب ایک بااخلاق با ضمیر ایماندار شخص ہونے کے علاوہ ایک ہمدرد شفیق نرم دل اور مظلوموں کی ترجمان سماجی تمغہ امتیاز شخصیت ہیں۔جس طرح عبادت کیلئے پاک روح پاک جسم پاک کپڑے اور پاک جگے کی اہتمام لازمی ہے اسی طرح خدمت خلق کیلئے پاک دل عظیم پختہ یقین قوی ارادے اور صبر و زغم کرناکامرانی و کامیابی ہیں۔یہ ہمارے اور اپکے تجربہ ومشاہدہ ہے کہ تاریخ امیر بلند وبالا عمارتیں رکھنے والے نہیں بلکہ انسانی خدمت بلا رنگ ونسل لسانیت اور قومیت سے بالاتر کرنے والے اپنے کتاب کی صفحوں پہ روشن ستاروں کی طرح پیش کرتے ہیں۔میں ایسی شخصیت ایسی ٹیم اور گران قدر اشخاص کو دل کی عطاء گہرائیوں سے ہزار بار سلام پیش کرتا ہوں جو مکمل تیس برس سے انسانی خدمات ایک عبادت کی طرح کرتے آرہے ہیں۔
اس خواہشات اور جدید دور کے باوجود یہ افراد اور قومی درد رکھوالے صوبہ صوبہ ضلع ضلع اور گھر گھر غریبوں یتیموں اور لاوارث افراد کی تلاش میں گھومتے ہی انہیں انسانی ہمدردی کی خاطر زندگی کے سہولیات سے نوازتے ہیں۔اگر نعمت اللہ ظہیر صاحب کیساتھ ملکی اور قومی سطح پر بڑے بڑے تاجر اور امیر افراد مدد کریں تو یقین مانیں یہ غریب عوام وزراء اور گلی گلی میں بھیک مانگنے سے نجات پائنگے۔درحقیقتاً یہ لوگ بہت عظیم لوگ ہیں جو دوسروں تک زندگی کی ہر طرح سہولیات فراہم کرنے میں جدوجہد کرتے ہیں اور انشاء اللہ تاریخ کے اوراق میں نعمت اللہ ظہیر صاحب کی طرح لوگ ایک مثالی نمونے کی طرح پیش آئینگے۔میں ایک بارپھر اپنے دوست نعمت اللہ ظہیر صاحب اور انکے ساتھ شامل مخیر حضرات اورپاؤنڈیشن کے تمام ممبرز کو تیس سالہ انسانی ہمدردی کی خاطر کامیاب خدمات اور سہولیات فراہم کرنے پر خراج تحسیں پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ مزید بھی اس طرح مثالی اور تاریخی اقدامات اٹھانے پر توفیق عطاء فرمائیں۔آمین