|

وقتِ اشاعت :   April 12 – 2020

جب آپ پہلا قدم اٹھاتے ہیں تو آپ کو خبر نہیں ہوتی کہ قدم آپ کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، لیکن جوں جوں قدم آگے بڑھاتے جائیں گے تو راستے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنا آپ بند کرتے ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں ہوتا کہ آپ ایک نئی جنگ کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں ایک ایسی جنگ جس کی شروعات اپنے آپ ہوتی ہے۔ پہلی شکست اپنی انا کودینی ہوتی ہے سومیں اس انا کو شکست دینے کے لیے اپنے دماغ کو آمادہ کر چکا تھا۔ باتیں چاروں جانب سے سنائی دے رہی تھیں، میدان ِ جنگ میں کئی مہروں نے سامنے آنا تھا۔بہت کچھ کھونے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا تھا۔ وہ رشتے ناطے جن کی ڈوری مضبوطی سے باندھتے چلے آرہا تھا ان رشتوں کی ڈوری ابھی سے کمزور ہوتا ہوا محسوس کر پا رہا تھا۔
جس مہم کو بنیاد ایک سکول نے فراہم کی تھی اب اسے وسعت دینے کا وقت آگیا تھا۔ ہم اس علاقے میں قدم رکھ چکے تھے جو میر غوث بخش بزنجو کا جنم بھومی ہے۔ خیرجان بلوچ کا علاقہ ہے،قدوس بزنجو کا آبائی علاقہ ہے۔ ہم وہیں قدم رکھ چکے تھے جہاں ہماری اس مہم کے خلاف مہم جوئی کا آغاز ہو چکا تھا، وہیں ہمیں بہت سے احباب کا ساتھ حاصل ہو چکا تھا جو نظام میں تبدیلی لانے کے خواہاں تھے مگر نظام کے اندر رہ کر وہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر تھے۔ ہماری آمد ان کے لیے ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ یہ ہماری تحریک کے وہ ساتھی تھے۔ جن کی شناخت ظاہر کرکے ہم انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے اس لیے ان کے نام ہم نے صیغہ راز میں رکھے۔ اعتماد کی فضا بحال ہو چکی تھی اور ہماری مہم جوئی رنگ لا رہی تھی۔ اس مہم جوئی کے دوران ہمیں ہزیمتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ قدوس بزنجو کے حواری میدان میں سرگرم ہو چکے تھے۔ ضلعی ایجوکیشن آفیسر اپنی پوزیشن کو بچانے کے لیے منفی ہتھکنڈے آزمائے جا رہا تھا۔ہم نے چند دنوں کے اندر اندر تحصیل جھاؤ کے 87بند سکولوں کی نشاندہی کی، اسے میڈیا میں خبروں کی زینت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ خبر کا عنوان تھا۔ ”اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے علاقے میں 87 سکول غیر فعال، جھاؤ کے پرائمری سکولوں کی مجموعی تعداد 78، 51 بندش کا شکار“۔ خبر نے قدوس بزنجو کی قریبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ اس خبر نے ایجوکیشن کے ضلعی آفیسران کو بے تاب کیا۔ چہ مگوئیاں شروع ہو چکی تھیں، بجائے یہ کہ تعلیمی نظام کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائے جاتے۔ قدوس بزنجو کے من پسند افراد جن میں اساتذہ بھی شامل تھے اور ایجوکیشن کے ذمہ داران اور وہ لوگ جنہیں تعلیمی نظام کے ذریعے معمولی مراعات مل رہی تھیں، میدان میں آگئے۔ ہماری کردار کشی میں مصروف ہو گئے جس میں سب سے بدنما چہرہ گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کا سامنے آیا۔ جی ٹی اے کے ضلعی صدر ضلعی ایجوکیشن آفیسر کا بطور مہرہ کام آیا،جی ٹی اے کا پلیٹ فارم جسے اساتذہ کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں آنی چاہیے تھی ضلعی ایجوکیشن آفیسر کے بچاؤ کے لیے استعمال میں آنے لگا۔ تنظیم کا صدر بطور ترجمان ایجوکیشن آفیسر کام آتا رہا،ان تمام حربوں کاہدف ہمیں ہمارے مقصد سے ہٹانا تھا۔ ہم صورتحال کو بھانپ گئے تھے،اس لیے ہم نے ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور اپنی مہم کو ایک دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے چلانے کا عزم کیا اور اس پر کاربند رہتے ہوئے کام کرتے رہے۔
87بند سکولوں کی خبر کے بعد ہم نے ہر اسکول کی ایک ایک کرکے خبر لی، معلومات اکھٹا کرتے رہے۔ یہ معلومات ہمارے رضاکار ہمیں فراہم کرتے رہے اور ہم نے ہر سکول کی کہانی الگ الگ قسطوں میں شیئر کرنا شروع کی۔ محکمہ تعلیم کے ضلعی ذمہ داران میں تشویش کی لہر دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ ہمیں مختلف ذرائع سے خوف زدہ کرنے کے لیے کہ ہمارے ساتھ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر ہمارے حوصلے بلند تھے ہم نے خوف کے اس منظرنامے کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لایا۔کیونکہ خوفزدہ وہ ہو جائیں جو غلطی پر ہوں۔ ہم ایک حقیقی کاز کے لیے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔
معلومات کی اس فراہمی نے محکمہ تعلیم کے ضلعی ذمہ داران کی کارکردگی پر سوال اٹھانا شروع کیا تھا اور ہم اپنا کام کرتے چلے جا رہے تھے۔ اس کام کو کرتے ہوئے مجھے آرام کا موقع بہت ہی کم مل رہا تھا تمام تر توانائی مہم پر خرچ ہو رہی تھی۔ نیند کی کمی کی وجہ سے میرے صحت پر اثر ہونے لگا تھا، سر چکرانے لگا تھا۔،کام بہت زیادہ تھا اور وقت بہت کم۔ کام کرتے ہوئے مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ یہ لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ہمیں وقت پر اپنا کام مکمل کرنا تھا اور ایک جامع رپورٹ سامنے لانا تھا۔مطالعہ اور لکھنے کا عمل جو میری زندگی کا اہم جز وبن چکے تھے لیکن مہم پر بھر پور توجہ کی وجہ سے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ رک گیا۔
ایک ہفتے کے اندر اندر ہم ضلع آواران کے 176بند سکولوں کا خاکہ سامنے لانے میں کامیاب ہو ئے جبکہ تحقیقی عمل کے دوران ہم نے پورے ضلع کا بجٹ خاکہ سامنے لے آیا جو ضلعی ایجوکیشن آفیسر اور قدوس بزنجو کے حواریوں کی نذر ہوتی چلی آرہی تھی جس کی تفصیلات ثبوت سمیت میڈیا کو ارسال کی گئیں۔ میڈیا میں اس خبر کو نمایاں جگہ ملی، یہاں تک کہ بین الاقوامی میڈیا بی بی سی جیسے ادارے نے بھی اس خبر کو کوریج دی۔ بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین میں جب ضلعی آفیسر ایجوکیشن کا مؤقف لیا گیا تو انہوں نے ہماری خبر کو من گھڑت قرار دے کر بند سکولوں کی تعداد فقط 16گنوا کر ہمیں جھوٹا کہلوایا۔
مگر اگلے روز سی ٹی ایس پی ملازمتوں کے حوالے سے جب میڈیا بریفنگ چل رہی تھی، پریس کانفرنس میں مشیر تعلیم سمیت، ترجمان وزیر اعلیٰ بلوچستان اور سیکرٹری ثانوی تعلیم بھی شریک تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران سیکرٹری تعلیم بلوچستان طیب لہڑی نے ہماری مہم کا ذکر چھیڑ کر ان سے سچ اگلوا کر انہیں یہ بتانے پر مجبور کیاکہ بند سکولوں کی تعداد 134 ہے جو ہمارے مؤقف کی تائید تھی اور ضلعی ایجوکیشن آفیسر آواران کی منہ پر زوردار طمانچہ۔ مذکورہ پریس کانفرنس کے بعد ہماری مہم صوبائی لیول کے ذمہ داران کی نگاہوں میں آچکا تھا۔