چین اور امریکہ روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ سپر پاور ہے اور اس دوڑ میں اگر کوئی دوسرا ملک شامل ہے تو وہ چین ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔امریکہ اور چین کی مخالفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باوجود دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ اپنے روایتی حریف چین سے خوفزدہ ہے کہ کہیں چین اقتدار کی اس جنگ میں بازی نہ لے جائے۔
COVID-19 جب چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا تو امریکی حکام کی طرف سے اپنے روایتی حریف چین کے خلاف بیانات دیکھنے کو ملے۔ 31 جنوری کو امریکہ کے سیکرٹری برائے تجارت ولبر روس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چین میں پھیلنے والا وائرس امریکی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا وائرس کو ووہان وائرس کا نام دیا تھا جس پر چینی حکام کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ امریکی صدر کے ووہان وائرس کے طنز کے جواب میں چین کی جانب سے امریکہ پر الزام عائد کیا گیا کہ ووہان میں پھیلنے والا وائرس امریکہ نے پھیلایا ہے۔ چینی حکام نے الزام عائد کیا کہ اکتوبر میں وہاں ہونے والی ملٹری گیمز میں شرکت کرنے والے امریکی فوجیوں نے کرونا وائرس پھیلایا۔
کچھ دن پہلے امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ تائیوان نے انسانوں سے انسانوں میں وائرس منتقلی کی وارننگ دی تھی اور عالمی ادارہ صحت نے ان کی ابتدائی وارننگ نظر انداز کر کے بیجنگ کی مدد کی۔ امریکی صدر نے الزام عائد کیا تھا کہ چین نے دنیا سے کرونا کی ہولناکی کو چھپایا تھا۔ حتیٰ کہ ٹرمپ نے تائیوان وارننگ نظر انداز کرنے پر عالمی ادارہ صحت کو فنڈنگ روکنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ صدر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد عالمی ادارہ صحت نے سخت ردِ عمل کا اظہا ر کیا۔ رائٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے مشیر بروس ایلوارڈ نے امریکی صدر کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ WHOایک غیر جانبدار ادارہ ہے جس نے چین سمیت دیگر ممالک کی یکساں مدد کی ہے۔ اور صدر ٹرمپ کے بیان کو حقائق کے منافی قرار دیا۔ ساتھ ہی بروس ایلورڈ نے ٹرمپ کی طرف سے امداد روکنے کی دھمکی کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وقت ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے WHOکو دی جانے والی دھمکی پر اقوامِ متحدہ نے عالمی ادارہ صحت کی حمایت کی۔ اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹرش نے کہا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ یہ کرونا وائرس کے خلاف جنگ کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اب جبکہ امریکہ کرونا سے متاثر ملکوں میں پہلے نمبر پر ہے اور کرونا سے متاثر افرا دکی تعداد 5لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد 19ہزار کے قریب ہے۔ امریکہ میں کرونا وائرس خوفناک حد تک پھیل رہا ہے اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں دو ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔جہاں تک چین کی بات ہے تو چین اس وائرس پر پوری طرح قابو پا چکا ہے جبکہ امریکہ اس میں پوری طرح ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی صدر نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ 12اپریل تک کرونا وائرس کو کنٹرول کر لیا جائے گا۔ اور اب کہا ہے کہ جون تک کرونا وائرس کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ اس سے امریکہ کی بے بسی ظاہر ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکیر نینسی پلوسی بھی ٹرمپ انتظامیہ پر تنقید کر چکی ہیں۔
اگر دونوں ممالک کی صلاحیتوں کا موازنہ کیا جائے تو امریکہ کے مقابلے میں چین کی پوزیشن مستحکم نظر آ رہی ہے۔ تین باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے چین نے ثابت کردیا ہے کہ اس کا پلڑا امریکہ سے کہیں بھاری ہے۔پہلی بات یہ کہ چین کرونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو چکا ہے جبکہ امریکہ ناکام دکھائی دیتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چین نے مشکلات کے باوجود اٹلی، سپین، فرانس اور ایران کی مدد کی ہے۔ جبکہ امریکہ دوسرے ممالک سے امداد کا منتظر ہے۔ تیسری بات یہ کہ سفارتی لحاظ سے چین کو امریکہ پر برتری حاصل ہے کیونکہ اقوامِ متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور کئی ممالک امریکہ کے مقابلے میں چین کے حمایتی نظر آتے ہیں۔ مختصر یہ کہ بعض امریکی ماہرِ معاشیات کے مطابق معاشی لحاظ سے امریکہ کا مستقبل خطرے میں ہے۔جبکہ چین نے علمی، سائنسی، طبی اور جیو پولیٹیکل توانائیوں کا استعمال ہوشیاری سے کر کے کرونا کو بری طرح شکست دی ہے اور واضح کر دیا کہ اس کے پاس دنیا کو لیڈ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
کامیاب کون! سپر پاور یا چین؟
وقتِ اشاعت : April 12 – 2020